Urwatul-Wusqaa - Al-Hijr : 87
وَ لَقَدْ اٰتَیْنٰكَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِیْ وَ الْقُرْاٰنَ الْعَظِیْمَ
وَلَقَدْ : اور تحقیق اٰتَيْنٰكَ : ہم نے تمہیں دیں سَبْعًا : سات مِّنَ : سے الْمَثَانِيْ : بار بار دہرائی جانیوالی وَالْقُرْاٰنَ : اور قرآن الْعَظِيْمَ : عظمت والا
اور بلاشبہ ہم نے تمہیں دہرائی جانے والی آیتوں میں سے سات آیتوں کی سورة عطا فرمائی ہے اور وہ قرآن عظیم بھی ہے
آپ کو سات دہرائی جانے والی آیتیں اور قرآن عظیم دیا گیا ہے : 87۔ آیت 87 سے سورت کے آخر تک اس سورت کی تمام موعظت و ارشاد کا خلاصہ ہے اور خطاب اگرچہ پیغمبر اسلام سے ہے مگر فی الحقیقت مومنوں کی وہ ابتدائی جماعت مخاطب ہے جو مکہ میں ایمان لائی تھی اور مظلومی وبے سروسامانی کی زندگی بسر کر رہی تھی ، فرمایا تم دیکھتے ہو کہ مخالفوں کے پاس ہر طرح کی دنیوی آسائشیں اور دنیوی طاقتیں ہیں۔ تمہارے پاس ان میں سے کوئی چیز بھی نہیں لیکن تم بھولتے ہو تمہارے پاس بھی ایک چیز ہے جس سے تمہارے مخالف یک قلم تہی دست ہیں اور وہ اللہ کا کلام ہے ۔ (آیت) ” ولقد اتینک سبعا من المثانی والقران العظیم “۔ پھر جب یہ نعمت تمہارے پاس موجود ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ تم مخالفوں کی موجودہ خوش حالیوں کو حسرت ورشک کی نظر سے دیکھو یہی ایک نعمت تمہیں دین و دنیا کی تمام نعمتوں سے سرفراز کردینے والی ہے ۔ صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ یہاں ” سبعا من المثانی “ سے مقصود سورة فاتحہ ہے ۔ اس جگہ خصوصیت کے ساتھ سورة فاتحہ کا ذکر اس لئے کیا گیا کہ وہ قرآن کریم کی تمام تعلیمات کا خلاصہ اور ایمان وعمل کی زندگی کاروزانہ دستور العمل ہے اور جس فرد اور جماعت کی زندگی ان سات آیتوں کی ورد و مداومت میں بسر ہو رہی ہو ممکن نہیں کہ وہدینی ودینوی سعادتوں سے محروم رہے نیز اس کے اس وصف پر زور دیا کہ وہ دہرائی جانے والی چیز ہے یعنی ایک مومن زندگی کیلئے شب وروز کا ورد اسی میں ہے ، وہ ہر روز اپنی نمازوں میں اور نماز کی ہر رکعت میں اسے دہراتا رہتا ہے اس پر صبح آتی ہے تو اس کی صدائیں چھیڑتی ہے شام ہوتی ہے تو اس کی صدائیں اٹھتی ہیں ، اس کی دوپہر کا نغمہ بھی یہی ہوتا ہے اور اس کی راتوں کا ترانہ بھی اس کے سوا کوئی نہیں ۔ جز نغمہ محبت سازم نوانہ دارد ! زیر نظر آیت سے سورة فاتحہ کی بڑی ہی خصوصیت اور فضیلت ثابت ہوتی ہے ، اچھا اب چند لمحوں کیلئے سورة فاتحہ کے مطالب پر بحیثیت مجموعی نظر ڈالو اور دیکھو اس کی سات آیتوں کے اندر مذہبی عقائد وتصور کی جو روح مضمر ہے وہ کس طرح کی ذہنیت پیدا کرتی ہے ؟ سورة فاتحہ ایک دعا ہے فرض کرو ایک انسان کے دل و زبان سے شب وروز یہی دعا نکلتی رہتی ہے اس صورت میں اس کے فکر و اعتقاد کا کیا حال ہوگا ؟ وہ خدا کی حمد وثناء میں زمزمہ سنج ہے لیکن اس خدا کی حمد میں نہیں جو نسلوں ‘ قوموں اور مذہبی گروہ بندیوں کا خدا ہے بلکہ ” رب العالمین “ کی حمد میں جو تمام کائنات خلقت کا پروردگار ہے اور اس کے لئے تمام نوع انسانی کیلئے یکساں طور پر پروردگاری ورحمت رکھتا ہے پھر وہ اسے اس کی صفتوں کے ساتھ پکارنا چاہتا ہے لیکن اس کی تمام صفتوں میں سے صرف صفت رحمت اور عدالت ہی کی صفتیں اسے یاد آتی ہیں گویا خدا کی ہستی کی نمود اس کیلئے سرتاسر رحمت وعدالت کی نمود ہے اور جو کچھ بھی اس کی نسبت جانتا ہے وہ رحمت وعدالت کے سوا کچھ نہیں پھر وہ اپنا سر نیاز کا سرجھک سکتا ہے اور صرف تو ہی ہے جو ہماری ساری درماندگیوں اور احتیاجوں میں مددگاری کا سہارا ہے ، وہ اپنی عبادت اور استعانت دونوں کو صرف ایک ہی ذات کے ساتھ وابستہ کردیتا ہے اور اس طرح دنیا کی ساری قوتوں اور ہر طرح کی انسانی فرمانروائیوں سے بےپروا ہوتا جاتا ہے اب کسی چوکھٹ پر اس کا سرجھک نہیں سکتا ۔ اب کسی قوت سے وہ ہراساں نہیں ہو سکتا ‘ اب کسی کے آگے اس کا دست دراز نہیں ہو سکتا ۔ پھر وہ خدا سے سیدھی راہ چلنے کی توفیق طلب کرتا ہے یہی ایک مدعا ہے جس سے زبان احتیاج آشنا ہوتی ہے لیکن کونسی سیدھی راہ ؟ کسی خاص نسل کی سیدھی راہ ؟ کسی خاص قوم کی سیدھی راہ ؟ کسی خاص مذہبی حلقہ کی سیدھی راہ ؟ نہیں وہ راہ جو دنیا کے تمام مذہبی راہنماؤں اور تمام راست باز انسانوں کی متفقہ راہ ہے خواہ کسی عہد اور قوم یا کسی خاص مذہبی گروہ کا ذکر نہیں کرتا بلکہ ان راہوں سے بچنا چاہتا ہے جو دنیا کے تمام محروم اور گمراہ انسانوں کی راہیں رہ چکی ہیں ۔ گویا جس بات کا طلبگار ہے وہ نوع انسانی کی عالمگیر اچھائی ہے اور جس بات سے پناہ مانگتا ہے وہ نوع انسانی کی عالمگیر برائی ہے ، نسل ‘ قوم ‘ ملک یا مذہبی گروہ بندی کے تفرقہ و امتیاز کی کوئی پرچھائی اس کے دل و دماغ پر نظر نہیں آتی ، غور کرو کہ مذہبی تصور کی یہ نوعیت انسان کے ذہن وعواطف کیلئے کس طرح کا سانچا مہیا کرتی ہے ؟ جس انسان کا دل و دماغ ایسے سانچے میں ڈھل کر نکلے گا ‘ وہ کس قسم کا انسان ہوگا ؟ کم از کم دو باتوں سے تم انکار نہیں کرسکتے ایک یہ کہ اس کی خدا پرستی خدا کی عالمگیر رحمت و جمال کے تصور کی خدا پرستی ہوگی ، دوسری یہ کہ کسی معنی میں بھی نسل وقوم یا گروہ بندیوں کا انسان نہیں ہوگا عالمگیر انسانیت کا انسان ہوگا اور دعوت قرآنی کی اصل بھی یہی ہے ! مزید غور کرو کہ زیر نظر آیت سے یہ بات بھی محقق ہوگئی کہ سورة فاتحہ کی سات آیتیں ہیں اور اس کے کلمات کی کوئی ایسی تقسیم صحیح نہیں ہو سکتی جس سے آیتوں کی یہ تعداد گھٹ جائے یا بڑھ جائے ، چناچہ جب اس اعتبار سے دیکھا جاتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ (آیت) ” بسم اللہ الرحمن الرحیم “۔ بھی یقینا اسی سورت میں شامل ہے بلکہ اس سورت کی پہلی آیت ہے اور (آیت) ” صراط الذین انعمت علیھم غیر المغضوب علیھم ولا الضالین “۔ دو آیتیں نہیں بلکہ ایک آیت ہے اور اس طرح اس سورت کی سات آیتوں کی تعداد پوری ہوتی ہے ۔ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ وتابعین کی ایک بڑی جماعت اس طرف گئی ہے کہ ” بسم اللہ “ الخ اس کی پہلی آیت ہے ، اس کی مفصل بحث سورة فاتحہ کی تفسیر میں گزر چکی ہے ۔ عروۃ الوثقی جلد اول تفسیر سورة فاتحہ کا مطالعہ کیجئے اور کثیر تعداد میں احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی اعظم وآخر ﷺ سورة فاتحہ ہمیشہ ساتھ وقفوں کے ساتھ پڑھا کرتے تھے اور ہر آیت کا آخری لفظ کسی قدر کھینچ کر ختم فرماتے تھے جو اختتام صورت کی قدرتی صوت ہے ۔ ایسا نہیں کرتے تھے کہ صرف دو وقفوں یا تین وقفوں میں پوری سورت ختم کردیں یعنی (آیت) ” الحمد للہ “ سے لے کر (آیت) ” یوم الدین “ تک ایک سانس میں اور پھر (آیت) ” اہدنا الصراط المستقیم “ سے لے کر (آیت) ” ولا الضآلین “۔ تک ایک سانس میں جیسا کہ آج کل قرات کا عام طریقہ اختیار کرلیا گیا ہے ۔ مسلمانوں کو سنت کی مخالفت کرکے لطف آئے ؟ (آیت) ” انا للہ وانا الیہ راجعون “۔ راویان حدیث نے صرف اتنی ہی تصریح پر بات ختم نہیں کی کہ آپ ﷺ سات وقفوں کے ساتھ اس سورت کو پڑھتے تھے بلکہ آیتیں پڑھ کر بتلا بھی دیں کہ آپ ﷺ اس طرح ہر آیت الگ الگ کرکے پڑھتے تھے اور اس طرح ہر آیت پر وقفہ کرتے تھے ۔ آپ ﷺ نے (آیت) ” بسم اللہ الرحمن الرحیم “۔ کو پڑھا تو ہر لفظ کو کھنیچ کر پڑھا اور پھر آیت کے ختم پر وقف کیا۔ (آیت) ” الحمد للہ رب العلمین “۔ کہا تو وقف کیا (آیت) ” الرحمن الرحیم “۔ پڑھا تو وقف کیا (آیت) ” ملک یوم الدین “۔ کہا تو وقف کیا (آیت) ” ایاک نعبد وایاک نستعین “۔ پڑھا تو پھر وقف کیا پھر (آیت) ” اھدنا الصراط المستقیم “۔ پر وقف کیا اور پھر (آیت) ” صراط الذین انعمت علیھم غیر المغضوب علیھم ولا الضالین “۔ پر سورت کو ختم کر کے ٹھہر گئے اور رکنے کے بعد آمین کہا اور آمین کا لفظ بھی کھینچ کر آواز لمبی اور اونچی کر کے ادا کیا خصوصا جماعت میں ۔ اور فی الحقیقت سورة فاتحہ کے پڑھنے کا قدرتی اور صحیح طریقہ یہی ہو سکتا ہے جو نبی اعظم وآخر ﷺ نے اختیار فرمایا اور ہم کو اسی طریقہ کی پابندی کرنی چاہئے اور رسول اللہ ﷺ کا مقابلہ بعد کے قاریوں سے نہیں کرنا چاہئے کیونکہ رسول ونبی کا موازنہ امت کے کسی انسان کے ساتھ جائز و درست نہیں لیکن اس وقت یہ بیماری عالمی بیماریوں میں شامل ہے اس لئے اس کو بیماری نہیں بلکہ ایک فیشن سمجھ لیا گیا ہے ، سورة فاتحہ ایک دعا ہے اور اس کی ہر آیت سائل کی زبان سے نکلی ہوئی طلب والحاح کی ایک صدا کا حکم رکھتی ہے ، جب ایک سائل کیا کے آگے کھڑا ہوتا ہے اور اس کی مدح وثناء کرکے حرف مطلب زبان پر لاتا ہے تو ایسا نہیں کرتا کہ ایک خطیب کی طرح مسلسل تقریر کرنا شروع کردے اور ایک ہی سانس میں سب کچھ کہہ جائے بلکہ طلب ونیاز کے لہجہ میں ٹھہر ٹھہر کر ایک ایک بات کہے گا ، طلب ونیاز اور عجز والحاح کی حالت اسے مہلت ہی نہ دے گی کہ ایک مرتبہ میں سب کچھ کہہ جائے مثلا کہے گا کہ آپ فیاض ہیں ‘ آپ کریم ہیں ‘ آپ کی جود سخا کی دھوم ہے ، اگر آپ سے نہ مانگوں تو کس سے مانگوں ؟ اور ان میں سے ہر بول دوسرے بول سے ملا کر نہیں کہے گا ، الگ الگ کرکے اور ٹھہر ٹھہر کر کہے گا ، بلاشبہ ان میں سے ہر جملہ ہر اعتبار ومطلب کے دوسرے سے ملاہوا ہے لیکن بات ایک ہی جملہ میں پوری نہیں ہوجاتی لیکن وقف واتصال کیلئے صرف اتنی ہی بات کافی نہیں ہے طریق خطاب و کلام کا ادا شناس جانتا ہے کہ زور کلام اور حسن خطاب کیلئے کہاں وقفہ کرنا چاہئے کہاں نہیں کرنا چاہئے اور پھر یہ حقیقت اور واضح ہوجاتی ہے جب قرآن کریم کے ان تمام مقامات پر نظر ڈالی جائے جہاں نبی اعظم وآخر ﷺ کا وقف کرنا روایات سے ثابت ہوتا ہے ، ان میں متعدد مقامات ایسے ہیں جہاں متاخرین قراء کے نزدیک وقف نہیں ہونا چاہئے لیکن جب نبی کریم ﷺ کا وقف کرنا ثابت ہے اور اگر مقام کی نوعت پر غور کرو گے تو واضح ہوجائے گا کہ طریق کلام کا خطیبانہ اسلوب بھی یہی چاہتا ہے کہ یہاں وقفہ ہو ، بغیر اس کے زور کلام ابھرتا نہیں اور اگر آیت میں بات پوری نہیں ہوئی لیکن موقعہ کا قدرتی اسلوب خطاب یہی ہے کہ وقفہ کیا جائے اتصال صوت نہ ہو۔ چناچہ صحیح روایات سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ نبی اعظم وآخر ﷺ سورة فاتحہ جہر کرتے وقت بسم اللہ الخ بھی اونچی اواز سے پڑھتے تھے ، جساے کہ احادیث میں ہے کہ عن قتادہ قال سئل انس ؓ کیف کان قراء ۃ النبی ﷺ فقال کانت مداثم قرا بسم اللہ الرحمن الرحیم بمد ” بسم اللہ “ وبمد ” الرحمن “ وبمد ” الرحیم “ (رواہ البخاری) حضرت قتادہ ؓ کہتے ہیں کہ حضرت انس ؓ سے پوچھا گیا کہ رسول اللہ ﷺ کی قرات کس طرح ہوتی تھی ؟ تو انہوں نے کہا کہ کھینچ کر مد سے ہوتی تھی پھر انہوں نے بسم اللہ الرحمن الرحیم کو پڑھا تو بسم اللہ الرحمن الرحیم کو کھینچ کھینچ کر پڑھا ، ہم اس کی تفصیل سورة فاتحہ کی تفسیر میں کرچکے ہیں وہاں سے ملاحظہ کرلیں البتہ اس جگہ ان صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین کے اسماء گرامی کا ذکر کردینا مناسب معلوم ہوتا ہے جو بسم اللہ الخ کو جہری نمازوں میں فاتحہ کے ساتھ فاتحہ کی پہلی آیت کے طور پر جہر کرتے تھے اور ازیں بعد تابعین اور تبع تابعین کا بھی تاکہ ناموں کی واقفیت سے بات معلوم ہوجائے چناچہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین کے نام یہ ہیں : 1۔ سیدنا ابوبکر صدیق ؓ ، 2۔ سیدنا عثمان غنی ؓ ، 3۔ سیدنا علی ؓ ، 4۔ عبداللہ بن عمر ؓ ، 5۔ عبداللہ بن عباس ؓ 6۔ عبداللہ بن زبیر ؓ ، 7۔ سمرہ بن جندب ؓ ، 8۔ بریدہ بن مصیب ؓ ، 9۔ ابوہریرہ ؓ ، 10۔ ابی بن کعب ، 11۔ ابو قتادہ ؓ ، 12۔ ابو سعید ؓ ، 13۔ انس بن مالک ؓ ، 14۔ عبداللہ بن ابی اوفی ؓ ، 15۔ عمار بن یاسر ؓ ، 16۔ جابر ؓ ، 17۔ شداد ابن اوس ؓ ، 18۔ عبداللہ بن جعفر ؓ ، 19۔ حسین بن علی ؓ ، 20۔ امیر معاویہ ؓ ، 21۔ ام المومنین ام سلمہ ؓ 22۔ نعمان بن بشیر ؓ 23۔ حکم بن عمیر ؓ ، 24۔ حضرت طلحہ ؓ ، 25۔ مجالد بن ثور ؓ ، 26۔ بشر بن معاویہ ؓ ، 27۔ حسین بن عرفطہ ؓ ، 28۔ ابو موسیٰ اشعری ؓ ، (نیل الاوطار) 1۔ سعید بن مسیب (رح) ، 2۔ طاؤس (رح) ، 3۔ عطاء (رح) 4۔ مجاہد (رح) ، 5۔ ابو وائل (رح) ، 6۔ سعید بن جیررحمۃ اللہ علیہ ِ 7۔ محمد بن سیرین (رح) ، 8۔ عکرمہ (رح) ، 9۔ امام زین العابدینرحمۃ اللہ علیہ ، 10۔ امام باقر (رح) ، 11۔ مسلم بن عبداللہ بن عمر (رح) ، 12۔ محمد بن المنکدر (رح) ، 13۔ ابوبکر بن حزم (رح) ، 14۔ محمد بن کعب قرظی (رح) ، 15۔ نافع (رح) مولی ابن عمر ؓ 16۔ ابو شعشاء (رح) ، 17۔ عمر بن عبد العزیز (رح) 18۔ مکحول (رح) ، 19۔ حبیب بن ثابت (رح) ، 20۔ امام زہری (رح) ، 21۔ ابو قلابہ (رح) ، 22۔ علی بن عبداللہ بن عباس (رح) ، 23۔ ابن علی بن عبداللہ (رح) ، 24۔ ارزق بن قیس (رح) ، 28۔ عبداللہ بن معقل بن مقرن ؓ ، 26۔ عبداللہ بن صفوان (رح) ، 27۔ محمد بن حنیفہ (رح) ، 28۔ سلیمان تیمی (رح) ، (نیل الاوطار ج 2 ، ص 19) اور تبع تابعین میں سے : 1۔ عبداللہ بن العمری (رح) ، ۔ 2۔ حسن بن زبیر (رح) ۔ 3۔ زید بن امام زین العابدین (رح) ۔ 4۔ محمد بن عمر بن علی (رح) ، 5۔ ابن ابی الذئب (رح) 6۔ لیث بن سعد (رح) ۔ 7۔ اسحاق بن راہویہ (رح) ۔ 8۔ معتمر بن سلیمان (رح) ۔ وغیرہ قابل ذکر ہیں ۔ ازالہ وہم : زیر نظر آیت سے بعض لوگوں نے یہ سمجھا ہے ’ سبعا من المثانی “۔ سے مراد سورة فاتحہ ہے اور ” القرآن العظیم “۔ سے مراد قرآن کریم ہے یعنی آیت کا مطلب یہ ہے کہ آپ کو سبعا من المثانی “۔ دی گئی اور قرآن عظیم بھی ۔ حالانکہ صحیح یہ ہے کہ اس جگہ جس طرح ” سبعا من المثانی “ سے مراد سورة فاتحہ ہے اسی طرح ” القران العظیم “ ۔ سے مراد بھی سورة فاتحہ ہی ہے اور مطلب یہ ہے کہ یہ سورت قرآن کریم کے سارے مضامین پر شامل ہے اور عظمت وثواب میں بھی سارے قرآن کریم کے برابر ہے ، گویا جس طرح سورة اخلاص ثلث قرآن کے برابر ہے اسی طرح فاتحہ پورے قرآن کریم کے برابر ہے اور اخلاص کو ثلث قرآن اس لئے ارشاد فرمایا گیا کہ اسلام کے اعتقادی ارکان تین ہیں ۔ توحید ‘ نبوت اور آخرت ۔ اخلاص ہیں چونکہ صرف توحید الہی کا بیان ہے اس لئے وہ ثلث قرآن کریم ہے اور فاتحہ میں یہ تینوں ارکان موجود ہیں اس لئے اس کو پورے قرآن کریم کے مترادف سمجھا گیا ہے ، جیسا کہ بسم اللہ سے الرحمن الرحیم ‘۔ تک توحید اور صفات الہیہ کا بیان ہے ” ملک یوم الدین میں روز جزاء یعنی آخرت کا ذکر ہے اور (آیت) ” صراط الذین انعمت علیھم “۔ سے آخر سورت تک انبیاء کرام (علیہم السلام) کا ، اس لئے اس سورة کو ” القرآن العظیم “ بھی کہا گیا ہے جو اس سورة الفاتحہ کے ناموں میں سے ایک نام ہے جیسے فاتحۃ ال کتاب اور ام القرآن اسی طرح ” القرآن العظیم “ بھی ہے اور احادیث میں اس کی وضاحت بھی موجود ہے کہ یہ سورت دو بار نازل ہوئی ہے ایک بار مکہ مکرمہ میں اور دوسری بار مدینہ منورہ میں ، جس کی بالاتفاق سات آیات کریمات ہیں جن میں سے پہلی آیت بسم اللہ الرحمن الرحیم “۔ وہ احادیث جن میں اس سورت یعنی فاتحہ کو ” القرآن العظیم “ کہا گیا ہے : 1۔ الفاتحہ اعظم سورة من القران وھی السبع المثانی والقران لعظیم (خ۔ س۔ ق الحصن والحصین) 2۔ ما انزلت فی التوراۃ ولا فی الانجیل والزبور والقران مثلھا یعنی ام القرآن وانھا سبع من المثانی والقران العظیم (دارمی ص 430) 3۔ عن ابی سعید بن المعلی قال مربی النبی ﷺ وانا اصلی فدعا فی فلم انہ حتی صلیت ثم اتیت فقال فامنعک ان تاتی فقلت کنت اصلی فقال الم یقل اللہ تعالیٰ یا ایھا الذین امنوا استجیبوا اللہ وللرسول ثم قال الا اعلمک اعظم سورة فی القرآن قبل ان اخرج من المسجد فذھب النبی ﷺ فذکرتہ فقال الحمد للہ رب العلمینھی السبع المثانی والقرآن العظیم الذی اوتیتہ۔ (بخاری کتاب التفسیر سورة الحجر) اس حدیث سے صاف معلوم ہوگیا کہ آیت سورة الحجر میں من المثانی کا من بیانیہ ہے اور القران العظیم کا المثانی پر عطف من باب عطف الصفۃ علی الصفۃ ہے ۔ (مجمع بہار الانوار ص 165 جلد اول) ترک واخفائے ” بسم اللہ “ کی روایات اور فیصلہ : وہ روایات جو بسم اللہ کے ترک واخفاء کی ہیں سو سب سے محکم صحیح کی یہ روایت ہے : عن انس ان النبی ﷺ وابابکر وعمر کانوا یفتحون الصلوۃ بالحمد للہ رب العلمین “۔ (بخاری باب مایقول بعد التکبیر) کہ حضرت انس ؓ کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ اور حضرت ابوبکر ؓ وعمر ؓ (قراءت) نماز الحمد للہ رب العلمین سے شروع کرتے تھے ۔ اس کا جواب اولا تو یہ ہے کہ بعض علماء نے دونوں قسم کی روایات کو یوں جمع کیا ہے کہ جہر واخفا ہر دو طریق جائز ہیں کیونکہ روایات ہر دو طرف موجود ہیں کسی نے جہر کو اختیار کرلیا اور کسی نے اخفا کو ، چناچہ سبل السلام شرع بلوغ المرام میں اسی حدیث کے ذیل میں کہا ہے : والاقرب انہ ﷺ کان یقربھا تارۃ جھرا اوتارۃ یخفیھاوقد استوفینا البحث فی حواشی شرح العمدۃ بما لازیادۃ علیہ واختار جماعۃ من المحققین انھا مثل سائر ایات القرآن یجھربھا فیھا ویسربھا فیما یسرفیہ (ج 1 ص 107) اور زیادہ قریب یہی ہے کہ آنحضرت ﷺ بسم اللہ کبھی اونچی پڑھتے تھے اور کبھی خفیہ اور ہم نے یہ بحث شرح عمدۃ الاحکام کے حواشی میں مکمل طور پر بیان کردی ہے جس پر زیادتی کا درجہ باقی نہیں اور محققین کی ایک جماعت کا مختار یہ ہے کہ بسم اللہ مثل دیگر آیات قرآن کے ہے جہری میں اسے بھی بالجہر پڑھا جائے اور سری میں اسے بھی سرا پڑھا جائے ۔ آنحضرت ﷺ اور حضرات شیخین ؓ رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین قراءت کے وقت سورة فاتحہ دوسری سورت سے پہلے پڑھتے تھے کیونکہ جب سورت فاتحہ اور کوئی دیگر مقام بھی قرآن کریم میں سے پڑھنا ہے تو کسی شبہ پڑ سکتا ہے کہ خواہ سورة فاتحہ باقی قراءت سے پہلے پڑھیں خواہ پیچھے پڑھیں ، تعمیل حکم بہر دو صورت ہوسکتی ہے تو حضرت انس ؓ اس شبہ کو دور کرنے کے لئے آنحضرت ﷺ اور آپ ﷺ کے خلفاء کا طریق عمل ذکر کرتے ہیں کہ آپ ﷺ اور حضرات شیخین رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین فاتحہ پہلے پڑھتے تھے اور دیگر سورت پیچھے ، اس کے یہ معنی ہرگز ہرگز نہیں ہیں کہ آنحضرت ﷺ اور حضرات شیخین رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین بسم اللہ ترک کرکے قراءت آیت الحمد للہ سے شروع کرتے تھے ، چناچہ امام نسانی (رح) نے اپنی سنن میں حضرت انس ؓ کی اسی روایت کے متعلق یہ باب باندھا ہے باب البدایۃ بفاتحۃ ال کتاب قبل السورۃ یعنی دیگر سورت سے قبل سورت فاتحہ سے قراءت شروع کرنے کا باب پھر اس باب کے ضمن میں حضرت انس ؓ کی یہی روایت دو طریق سے روایت کی ہے : امام نسانی (رح) کے علاوہ امام ترمذی (رح) نے بھی اس حدیث کو اپنی جامع میں نقل کرکے اس کے معنی کی نسبت امام شافعی (رح) کا قول نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا : وقال الشافعی (رح) انما معنی ھذا الحدیث ان النبی ﷺ وابا بکر وعمر وعثمان کانوا یفتتحون القراءۃ باالحمد للہ رب العالمین معناہ انہم کانوا یبلؤن بقراءۃ فاتحۃ ال کتاب قبل السورۃ ولیس معناہ انھم کانوا لایقرؤن بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ (ترمذی ج 1 ، ص 34) اس حدیث کے یہ معنی ہیں کہ آنحضرت ﷺ اور حضرت ابوبکر ؓ وعمر ؓ وعثمان ؓ قرات کسی دیگر سورت سے پہلے سورت فاتحہ سے شروع کرتے تھے اور اس کے یہ معنی ہیں کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم نہیں پڑھا کرتے تھے ۔ امام نسائی (رح) اور امام شافعی (رح) نے جو معنی اس حدیث کے کئے ہیں وہ بالکل درست ہیں چناچہ ان کی تائید حضرت انس ؓ کی دوسری روایت سے ہوتی ہے کہ : عن انس ؓ قال کنا نصلی خلف رسول اللہ ﷺ وابی بکر ؓ وعمر ؓ وعثمان ؓ فکانوا یستفتحون بام القران ۔ (دارقطنی ص 120) ” ہم آنحضرت ﷺ اور حضرت ابوبکر ؓ وعمر ؓ وعثمان ؓ کے پیچھے نماز پڑھتے تھے تو آپ جہری نمازوں میں ام القران سے قرات شروع کرتے تھے ۔ “ اس روایت میں ” الحمد للہ رب العلمین “۔ کی بجائے ام القرآن وارد ہے اور یہ دونوں روایتیں حضرت انس ؓ سے مروی ہیں ‘ اس سے صاف ظاہر ہے کہ حضرت انس ؓ نے کبھی سورت فاتحہ کو ام القرآن کے نام سے بیان کیا اور کبھی ” الحمد للہ رب العلمین “ سے اور یہ دونوں اسی کے نام ہیں ، نیز ابو داؤد کی روایت مرفوعا مروی ہے ۔ ” الحمد للہ رب العلمین “ ۔ ام القرآن وام ال کتاب والسبع المثانی (حاشیہ عمدۃ الاحکام ص 64 ج اول) یعنی آنحضرت ﷺ نے فرمایا ” الحمد للہ رب العلمین “ ام القرآن بھی ہے اور ام ال کتاب بھی اور السبع المثانی بھی ۔ پھر اس کے بعد اسی حاشیہ میں کہا ہے اس سورت کا نام ” الحمد للہ رب العلمین “ اور السبع المثانی بھی ، پھر اس کے بعد اسی حاشیہ میں کہا ہے اس سورت کا نام ” الحمد للہ رب العلمین “ ہے امام بخاری (رح) اور امام دارمی (رح) اور امام ترمذی (رح) اور ابن المنذر (رح) اور ابن ابی حاتم (رح) اور ابن مردویہ (رح) اور امام احمد (رح) اور نسائی (رح) اور ابن خزیمہ (رح) اور ابن حبان (رح) وغیرہم (ائمہ محدثین) نے بھی روایت کیا ہے ۔ (التہی مترجما) چناچہ امام بخاری (رح) کی روایت حسب ذیل ہے : عن ابی سعید بن المعلی قال مربی النبی ﷺ وان اصلی فدعانی فلم انہ حتی صلیت ثم اتیت فقال مامنعک ان تاتینی فقلت کنت اصلی فقال الم یقل اللہ تعالیٰ یایھا الذین امنوا استجیبوا اللہ وللرسول اذا دعاکم ثم قال الا اعلمک اعظم سورة فی القران قبل ان اخرج من المسجد فذھب النبی ﷺ فذکرتہ فقال الحمد للہ رب العلمینھی السبع المثانی والقران العظیم الذی اوتیتہ “۔ (بخاری کتاب التفسیر) کہ نبی کریم ﷺ میرے پاس سے گزرے درآنحالیکہ میں نماز پڑھ رہا تھا ، آپ ﷺ نے مجھے بلایا تو میں آپ ﷺ کی خدمت میں نماز پڑھ کر ہی حاضر ہوا ، آپ ﷺ نے فرمایا تجھے میرے پاس آنے کس امر نے روکا ؟ میں نے عرض کی کہ میں نماز پڑھ رہا تھا ، اس پر آپ ﷺ نے فرمایا کیا اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ اے مسلمانو ! جب تم کو اللہ اور اس کا رسول بلائین تو اس کے حکم کی تعمیل فورا کیا کرو ، پھر آپ ﷺ نے فرمایا کیا میں تجھے مسجد سے نکلنے سے پہلے قرآن شریف کی سب سے بزرگ سورت نہ بتاؤں ؟ اس کے بعد جب آپ ﷺ مسجد سے جانے لگے تو میں نے آپ ﷺ کو یاد کرایا تو آپ ﷺ نے فرمایا : ” الحمد للہ رب العلمین “ یہی السبع المثانی ہے اور یہی القرآن العظیم ہے جو مجھے عطائی ہوئی ہے ۔ یعنی قرآن کریم میں جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) ” ولقد اتینک سبعا من المثانی والقرآن العظیم “۔ (حجر پ 14) سو اس سے مراد یہی سورت ” الحمد للہ رب العلمین “ ہے ۔ حافظ ابن حجر (رح) نے اس حدیث کی شرح میں فرمایا : قال ابن التین فیہ دلیل علی ان بسم اللہ الرحمن الرحیم لیست ایۃ من القرآن کذا قال وعکس غیرہ لانہ اراد السورۃ ویؤیدہ انہ لوارد ” الحمد للہ رب العلمین “ الایۃ لم یقلھی السبع المثانی لان الایۃ الواحدۃ لا یقال لھا سبع فدل علی انہ ارادبھا السورۃ والحمد للہ رب العلمین من اسمائھا وفیہ قوۃ لتاویل الشافعی (رح) فی حدیث انس ؓ حیث قال کانوا یفتتعون الصلوۃ للہ رب العلمین قال الشافعی (رح) اراد السورۃ وتعقب بان ھذہ السورۃ تسمی سورة الحمد للہ ولا تسمی الحمد للہ رب العلمین وھذا الحدیث یرد ھذا التعقب “۔ (فتح الباری دہلوی کتاب التفسیر ص 113) ابن تین نے کہا کہ اس میں دلیل ہے کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم قرآن کی آیت نہیں ہے ۔ اس نے تو یہی کہا لیکن دیگروں نے اس کے برعکس کہا کہ اس سے آنحضرت ﷺ کی مراد سورت ہے اور اس کی تائید اس سے ہوتی ہے کہ اگر آپ ﷺ کی مراد آیت الحمد للہ رب العلمین ہوتی تو آپ ﷺ اسے ہی السبع المثانی نہ کہتے کیونکہ اکیلی آیت کو سبع (سات) نہیں کہہ سکتے پس یہ اس کی دلیل ہے کہ اس سے آپ ﷺ کی مراد سورت ہے اور ” الحمد للہ رب العلمین “ بھی اس سورت کے ناموں سے ہے اور حضرت انس ؓ کی حدیث کے جو معنی امام شافعی (رح) نے کئے ہیں انمیں اس کی تقویت ہے کہ ” الحمد للہ رب العلمین “ سے آپ ﷺ کی مراد سورت ہے اور کسی نے اس پر یہ اعتراض کیا ہے کہ اس سورت کا نام الحمد للہ “ ہے نہ کہ ” الحمد للہ رب العلمین “ اور یہ حدیث (زیر شرح یعنی حضرت ابو سعید ؓ والی) اس اعتراض کو رد کرتی ہے ۔ پس حضرت انس ؓ کے الفاظ سے یہ غلطی ہرگز نہ کھانی چاہئے کہ ان کا یہ مطلب ہے کہ آنحضرت ﷺ اور آپ ﷺ کے خلفاء رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین قراءت کے وقت بسم اللہ شریف ترک کردیتے تھے ، جس کسی نے اس روایت کے یہ معنی سمجھے ہیں اسے سورت فاتحہ کے نام ” الحمد للہ رب العلمین “ اور آیت ” الحمد للہ رب العلمین “ میں اشتباہ پڑگیا ہے ۔ اسی غلط فہمی کی بنا پر صحیح مسلم کی مندرجہ ذیل دو روایتیں بامعنی روایت کی گئی ہیں یعنی منجملہ راویاں کے کسی راوی نے حضرت انس ؓ کے الفاظ کانوا یفتتحون القراۃ بالحمد للہ رب العلمین “ کے معنی یہ سمجھے کہ سورت فاتحہ کو آیت ” الحمد للہ رب العلمین “ سے شروع کرتے تھے تو اس نے ایسا ہی ذکر کردیا ۔ جس سے یہ لازم آتا ہے کہ بسم اللہ شریف بالجہر نہیں پڑھتے تھے ، خواہ بالکل ترک کردیتے ہوں اور خواہ سرا پڑھتے ہوں ، چناچہ بعض نے پہلا مطلب یعنی ترک سمجھا اور بعض نے دوسرا یعنی سرا پڑھنا جیسا کہ انہیں روایات سے ظاہر ہوجائے گا ، وہ روایات یہ ہیں ۔ (1) : عن قتادۃ یحدث عن انس بن مالک قال صلیت مع رسول اللہ ﷺ وابی بکر ؓ وعمر ؓ وعثمان ؓ ، فلم اسمع احدا منھم یقرء بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ حضرت قتادہ (رح) تابعی حضرت انس ؓ صحابی سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت انس ؓ نے کہا کہ میں نے رسوللہ ﷺ اور حضرت ابوبکر ؓ وعمر ؓ وعثمان ؓ ، کے ساتھ نماز پڑھی پس میں نے کسی کو بھی بسم اللہ پڑھتے نہیں سنا۔ (2) : عن قتادہ انہ کتب الیہ یخبرہ عن انس بنمالک انہ حدثہ قال صلیت خلف النبی ﷺ وابی بکر ؓ وعمر ؓ وعثمان ؓ ، فکانوا بہ یستفتحون بالحمد للہ رب العلمین لا یذکرون بسم اللہ الرحمن الرحمی فی اول قراءۃ ولا فی اخرھا “۔ (صحیح مسلم جلد اول) قتادہ (رح) نے امام اوزاعی (رح) کو حضرت انس ؓ کی روایت سے لکھا کہ انہوں نے مجھ سے بیان کیا کہ میں نے نماز پڑھی پیچھے نبی کریم ﷺ کے اور حضرت ابوبکر ؓ وعمر ؓ وعثمان ؓ ، کے پس وہ ” الحمد للہ رب العلمین “ سے شروع کرتے تھے ۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم نہ اول سورت میں اور نہ آخر سورت میں پڑھتے تھے ۔ یہ ہر دو روایتیں بالمعنی ہیں کیونکہ صحیح بخاری والی روایت کے الفاظ جو حضرت انس ؓ سے مروی ہیں وہ بھی قتادہ ہی کے واسطہ سے ہیں اور قتادہ تابعی حضرت انس ؓ کے الفاظ کو اس صورت میں روایت نہیں کرسکتے جیسا کہ آئندہ ظاہر ہوجائے گا ، انشاء اللہ ۔ ان ہر دو روایات کو خاکسار نے از خود بالمعنی قرار نہیں دیا بلکہ بڑے بڑے نقاد محدثین نے اس کی تصریح کی ہے ، چناچہ حافظ عراقی جو حافظ ابن حجر (رح) کے استاد ہیں اپنے الفیہ میں معلل حدیث کی مثال میں جواز قسم ضعیف ہے ۔ اسی روایت صحیح مسلم کو یوں بیان کرتے ہیں : ولۃ المتن کنفی البسملہ اذ ظن راونفیہ فنقلہ (ص 34) کبھی علت متن میں ہوتی ہے جس کی مثال بسم اللہ کی نفی والی روایت ہے کہ کسی روای نے اس کی نفی سمجھی تو اسے نفی کے الفاظ میں نقل کردیا ۔ اور علامہ سخاوی (رح) (حافظ ابن حجر (رح) کے شاگرد) اس کی شرح ” فتح المغیث “ میں فرماتے ہیں : فنقلہ مصرحا بما ظنہ فقال لا یذکرون بسم اللہ الرحمن الرحیم فی اول قراءۃ ولا فی اخرھا وفی لفظ فلم یکونوا یفتتحون ببسم اللہ وصار عقتضے ذلک حدیثا مرفوعا والراوی لذالک مخطی فی ظنہ “۔ (فتح المغیث ص 95) پس اس راوی اپنے ظن سے بالتصریح نقل کردیا کہ بسم اللہ نہ اول سورت میں پڑھتے تھے اور نہ آخر میں اور بعض روایات میں ایسا بھی ہے کہ بسم اللہ سے شروع نہ کرتے تھے تو اس وجہ سے یہ روایت مرفوع سمجھی گئی حالانکہ اس کے راوی سے ایسا ظن کرنے میں خطا ہوگئی ہے ۔ اس تفصیل سے صاف معلوم ہوگیا کہ حضرت انس ؓ کے الفاظ وہی محفوظ ہیں جو صحیح بخاری میں مروی ہیں اور صححک مسلم کے الفاظ روایت بالمعنی ہیں جس روای نے اس کے یہ معنی سمجھے ہیں اس نے غلطی کھائی ہے حضرت انس ؓ کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ آنحضرت ﷺ آیت ” الحمد للہ رب العلمین “ سے قرات شروع کیا کرتے تھے بلکہ ان کا مقصود صرف یہ بتانا ہے کہ آپ پہلے سورت ” الحمد للہ رب العلمین “ پڑھا کرتے تھے اور پھر کوئی اور سورت جیسا کہ جامع ترمذی سے اس حدیث کی شرح میں امام شافعی (رح) کا قول سابقا نقل ہوچکا ہے اور امام نسائی (رح) کی تبویب بھی ذکر ہوچکی ہے ۔ اس کے لئے ایک اور بھی قرینہ ہے کہ حضرت انس ؓ بسم اللہ الرحمن الرحیم کی آیت ابتدائی ہونے سے انکار نہیں کرسکتے کیونکہ سورة کوثر کے نزول کی حدیث جو صحیح مسلم میں مروی ہے وہ بھی حضرت انس ؓ کی روایت سے ہے اور اس میں ابتداء میں بسم اللہ الرحمن الرحیم کا پڑھنا صاف مذکور ہے ۔ نیز یہ کہ صحیح بخاری کی حدیث جو بحوالہ منتفی گزر چکی ہے اس میں مذکور ہے کہ قتادہ (رح) نے حضرت انس ؓ سے آنحضرت ﷺ کی قرات کی کیفیت دریافت کی تو آپ نے بسم اللہ الرحمن الرحیم کے الفاظ ” اللہ “ اور ” الرحمن “ اور ” الرحیم “ کے حروف مدہ کھینچ کر پڑھے اور بتایا کہ آپ ﷺ اس طرح پڑھا کرتے تھے ، اس سے صاف ظاہر ہے کہ حضرت انس ؓ آنحضرت ﷺ کو بسم اللہ اونچی پڑھتے سنا کرتے تھے ورنہ اسے طرز قرات میں پیش نہ کرتے ، لطف یہ کہ صحیح مسلم کی روایات بھی اور صحیح بخاری کی یہ روایت بھی یعنی طرز قراءت والی ہر دو روایات حضرت انس ؓ سے قتادہ (رح) ہی نقل کرتے ہیں ، فافھم ولا تکن میں القاصرین ‘ دوسری روایت حضرت عبداللہ بن مغفل کی ہے ۔ امام ترمذی (رح) فرماتے ہیں : عن ابن عبداللہ بن مغفل ؓ قال سمعنی ابی وانا فی الصلوۃ اقول بسم اللہ الرحمن الرحیم فقال لی ا یعنی محدث ایاک والحدث قال ولم اراحد من اصحاب رسول اللہ ﷺ کان ابغض الیہ الحدث فی الاسلام یعنی۔ منہ وقال وقد صلیت مع النبی ﷺ ومع ابی بکر ؓ وعمر ؓ ومع عثمان ؓ فلم اسمع احدامنھم یقولھا فلا تقلھا اذا نت صلیت فقل الحمد للہ رب العلمین “ (ج 1 ص 33) حضرت عبداللہ بن مغفل ؓ کا بیٹا (یزید) کہتا ہے کہ میرے باپ نے مجھے نماز میں بسم اللہ الرحمن الرحیم (جہرا) کہتے سنا تو کہا بیٹا (یہ) بدعت ہے ، بدعت سے بچتا رہ ‘ نیز یہ کہا کہ میں نے اصحاب رسول ﷺ میں سے کسی کو بھی اسلام میں بدعت نکالنے سے بڑھ کر کسی شے کو برا جانتے نہیں دیکھا ۔ نیز یہ بھی کہا کہ میں نبی ﷺ اور حضرات ابوبکر ؓ وعمر ؓ وعثمان ؓ کے ساتھ نماز پڑھتا رہا میں نے انمیں سے کسی کو بسم اللہ اونچی پڑھتے نہیں سنا ، پس اسے اس طرح نہ پڑھا کر بلکہ جب تو نماز پڑھے تو کہا کر ” الحمد للہ رب العلمین “ بیشک امام ترمذی (رح) نے اس حدیث کو حسن کہا ہے لیکن محدثین کے نزدیک صرف امام ترمذی (رح) کا حسن کہہ دینا کافی نہین ۔ محدث ابن خزیمہ ‘ (رح) حافظ ابن عبدالبر مغزبی (رح) ، امام بیہقی (رح) ، اور امام خطیب بغدادی (رح) اسے ضعیف کہتے ہیں ۔ (عینی علی البخاری ج 3 ص 20) کیونکہ اس روایت کا مدار یزید بن عبداللہ بن مغفل پر ہے اور وہ محدثین کے نزدیک قابل احتجاج نہیں۔ چناچہ امام شوکانی (رح) نیل الاوطار میں اس حدیث کے ذیل میں فرماتے ہیں ۔ یزید بن عبداللہ بن مغفل ؓ مجھول لا یعرف (جلد ثانی ص 96) پس ایسے امر میں ایسے اکیلے شخص کی شہادت کافی نہیں ۔ امام شوکانی (رح) نے اس کے بعد یہ بھی لکھا ہے قال ابن خزیمۃ (رح) ھذا الحدیث غیر صحیح وقال الخطیب وغیرہ ضعیف قال النووی (رح) ولا یرد علی ھولاء الحفاظ قول الترمذی انہ حسن انتھی (ص 97 جلد ثانی) یعنی محدث ابن خزیمہ (رح) کہتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح نہیں اور امام خطیب بغدادی (رح) وغیرہ نے کہا ہے (کہ یہ) ضعیف ہے اور امام نووی (رح) نے کہا کہ ان حفاظ پر امام ترمذی (رح) کا یہ قول کہ یہ روایت حسن ہے وارد نہیں ہو سکتا ۔ دیگر یہ کہ اس حدیث کو قابل احتجاج تسلیم کرنے سے ماننا پڑے گا کہ صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین کی ایک خاصی تعداد اور ائمہ سنت (تابعین وتبع تابعین وغیرہم کی ایک کثیر تعداد جن کی فہرست پیچھے درج ہوچکی ہے (معاذ اللہ) بدعت پر عمل پیرا رہی اور ان سب کو تمام عمر میں طریق سنت نہ معلوم ہوسکا ، اس کے بعدہم دوسری قسم کی روایتیں لکھتے ہیں جن سے بعض کو یہ خیال پیدا ہوگیا کہ جو بسم اللہ الرحمن سورة نمل (پ 19) کے درمیان میں مکتوب ہے بیشک قرآنی اور سورت نمل کی جزو ہے ۔ لیکن جو بسم اللہ سورتوں کے شروع میں مکتوب ہے وہ جزء سورت اور آیت قرانی کی حیثیت نہیں رکھتی اس قسم میں معرکہ کی دو احادیث ہیں ، پہلی حدیث یہ ہے کہ حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا : عن عباس الجشمی عن ابی ہریرہ ؓ عن البنی ﷺ قال ان سورة من القرآن ثلاثون ایۃ شفعت لرجل حتی غفرلہ وھی تبارک الذی بیدہ الملک ‘ (ترمذی ج 2 ص 113) قرآن کی ایک سورت تیس آیات کی ہے جس نے ایک شخص کی شفاعت کی حتی کہ وہ بخشا گیا اور وہ تبارک الذی بیدہ الملک ہے ۔ صورت استدلال یوں ہے کہ اس حدیث میں اول تو بتایا گیا ہے کہ سورت ملک کی تیس آیات ہیں اور شمار آیات سے معلوم ہو سکتا ہے کہ پوری تیس بسم اللہ چھور کر ہوتی ہیں ، دوم یہ کہ اس شروع تبارک الذی بیدہ الملک بتایا گیا ہے کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم سو اس کا جواب امام شوکانی (رح) نے یہ نقل کیا ہے کہ عباس جشمی کو بقول امام بخاری (رح) حضرت ابوہریرہ ؓ سے ملاقات ہی نہیں ۔ دوم یہ کہ واجیب عن ذالک بان المراد عدد ما ھو خاصۃ السورۃ لان البسملمۃ کا لشیء المشترک فیہ (نیل الاوطارج 2 ص 100) یعیم اس سورت کی وہ تیس آیات مراد ہیں جو خاص اس امر شفاعت میں امتیاز حیثیت رکھتی ہیں اور بسم اللہ تو ایک جزو مشترک ہے اور آنحضرت ﷺ کی یہ عادت بھی پائی گئی ہے کہ آپ کبھی سوت کا حوالہ دیتے وقت اس کے شروع کی امتیازی آیت پڑھ دیتے تھے جاسا کہ سورت اذا زلزلت الارض زلزالھا اور سورت اذا جآء نصر اللہ “ اور سورت ” قل ھو اللہ احد “ کے متعلق وارد ہے ۔ (حصن ص 217 ‘ 218) دوسری روایت بھی حضرت ابوہریرہ ؓ ہی کی ہے کہ صحیح مسلم میں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اللہ جل شانہ نے فرمایا کہ میں نے نماز کو اپنے اور اپنے بندے کے درمیان نصف ‘ نصف تقسیم کیا ہے پس بندہ کہتا ہے ” الحمد للہ رب العلمین “ تو اللہ تعالیٰ (جواب میں) فرماتا ہے میرے بندے نے میری حمد بیان کی اور جب بندہ کہتا ہے الرحمن الرحیم تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرے بندے نے میری ثنا کہی الخ۔ (صحیح مسلم ص 170 ج 1) اس حدیث میں بسم اللہ کا ذکر نہیں ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ بسم اللہ فاتحہ کی جزو نہیں ہے سو اس کا جواب یہ ہے کہ اس حدیث کے بعض طریقوں میں بسم اللہ کا ذکر وارد ہے ۔ (سنن دارقطنی) اور شاہ عبدالعزیز (رح) نے اپنی تفسیر میں اسی دارقطنی والی روایت کا ذکر کیا ہے (تفسیر عزیزی) اس روایت کی صحت میں اگرچہ محدثین کو کلام ہے۔ لیکن اس کلام کا اثر اس وقت ہو سکتا ہے جب مسئلہ بسم اللہ کی صحت و کتابت کا مدار یہی روایت ہو لیکن جب حفاظت قرآن منصوص ہے اور بسم اللہ شریف قرآن میں برابر مکتوب چلی آئی ہے اور خصوصا صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین کے زمانے میں اس میں کوئی بھی اختلاف نہیں ہوا تو یہ روایت ثابت شدہ امر کی تائید میں پیش ہوسکی ہے اور یہ تو کبھی نہیں ہو سکتا کہ صحیح مسلم والی روایت کو اصل قرار دے کر قرآن کو مشکوک کردیں کیونکہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین نے بسم اللہ شریف مصحف میں بالاجماع بخط قرآنی لکھی اور انہوں نے خود آنحضرت ﷺ کے لکھوائے ہوئے صحف مکرمہ کی نقل کی تھی جس کی شہادت خود اللہ تعالیٰ نے دے دی تھی ، فی صحف مکرمۃ مرفوعۃ مطھرۃ (عبس پ 30) چناچہ علامہ عینی حنفی لکھتے ہیں والصحیح مذھب اصحابنا انھا من القرآن لان الامۃ اجمعت علی ان ما کان مکتوبا بین الدفتین بقلم الوحی فھو من القرآن والستمیۃ کذالک “۔ (عینی علی البخاری جلد ثانی ص 30) یعنی صحیح مذہب ہمارے اصحاب کا یہ ہے کہ بسم اللہ قرآن میں سے ہے کیونکہ تمام امت کا اس بات پر اجماع ہے کہ جو کچھ دفتین (دومقو وں) کے درمیان خط قرآنی سے لکھا ہوا ہے وہ قرآن ہے اور بسم اللہ بھی اسی طرح (لکھی ہوئی) ہے پس اس روایت کو ایسے طور پر سمجھنا چاہئے جس سے یہ روایت صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین کی کتابت و جمع قرآن کے ماتحت رہے اور وہ یہ صورت ہے کہ حضرت ابوہریرہ ؓ نے بعض وقت اس کلمہ کو ذکر کیا اور بعض وقت نہیں کیا کیونکہ بسم اللہ شریف میں اللہ تعالیٰ کے تین نام وارد ہیں ، اللہ ‘ رحمن ‘ اور رحیم اور یہ تینوں اس کے بعد الحمد للہ میں اور الرحمن الرحیم میں آجاتے ہیں پس اس کا الگ جواب ذکر کرنے کی ضرورت نہیں سمجھی واللہ اعلم ۔ دیگر یہ کہ اگر اس حدیث سے ترک بسم اللہ کا نتیجہ نکل سکے تو خود حضرت ابوہریرہ ؓ بسم اللہ اونچی کیوں پڑھیں چناچہ ان کا قول امام نسائی (رح) کی روایت سے سابقا گزر چکا ہے ، مزید تفصیل کیلئے واضح البیان کا مطالعہ کریں جو ابراہیم میر سیالکوٹی کی فاتحہ کی تفسیر ہے ۔
Top