Tafseer-e-Usmani - Al-Hijr : 87
وَ لَقَدْ اٰتَیْنٰكَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِیْ وَ الْقُرْاٰنَ الْعَظِیْمَ
وَلَقَدْ : اور تحقیق اٰتَيْنٰكَ : ہم نے تمہیں دیں سَبْعًا : سات مِّنَ : سے الْمَثَانِيْ : بار بار دہرائی جانیوالی وَالْقُرْاٰنَ : اور قرآن الْعَظِيْمَ : عظمت والا
اور ہم نے دی ہیں تجھ کو سات آیتیں وظیفہ اور قرآن بڑے درجہ کا14
14 حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں " یعنی یہ اتنی بڑی نعمت تجھ کو عطا ہوئی اور کافروں کی ضد سے خفا نہ ہو " (تنبیہ) " سبع مثانی " کے مصداق میں اختلاف ہے۔ صحیح اور راجح یہ ہی ہے کہ اس سے مراد سورة فاتحہ کی سات آیتیں ہیں جو ہر نماز کی ہر رکعت میں دہرائی جاتی ہیں اور جن کو بطور وظیفہ کے بار بار پڑھا جاتا ہے۔ حدیث میں ہے کہ حق تعالیٰ نے تورات، انجیل، زبور، قرآن کسی کتاب میں اس کا مثل نازل نہیں فرمایا۔ احادیث صحیحہ میں تصریح ہے کہ نبی کریم ﷺ نے سورة " فاتحہ " کو فرمایا کہ یہ ہی " سبع مثانی " اور قرآن عظیم ہے جو مجھ کو دیا گیا۔ اس چھوٹی سی سورت کو " قرآن عظیم " (بڑا قرآن) فرمانا درجہ کے اعتبار سے ہے۔ اس سورت کو ام القرآن بھی اس لحاظ سے کہتے ہیں کہ گویا یہ ایک خلاصہ اور متن ہے جس کی تفصیل و شرح پورے قرآن کو سمجھنا چاہیے۔ قرآن کے تمام علوم و مطالب کا اجمالی نقشہ تنہا اس سورت میں موجود ہے یوں مثانی کا لفظ بعض حیثیات سے پورے قرآن پر بھی اطلاق کیا گیا ہے (اَللّٰهُ نَزَّلَ اَحْسَنَ الْحَدِيْثِ كِتٰبًا مُّتَشَابِهًا مَّثَانِيَ ڰ تَــقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُوْدُ الَّذِيْنَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ ۚ ثُمَّ تَلِيْنُ جُلُوْدُهُمْ وَقُلُوْبُهُمْ اِلٰى ذِكْرِاللّٰهِ ۭ ذٰلِكَ هُدَى اللّٰهِ يَهْدِيْ بِهٖ مَنْ يَّشَاۗءُ ۭ وَمَنْ يُّضْلِلِ اللّٰهُ فَمَا لَهٗ مِنْ هَادٍ ) 39 ۔ الزمر :23) اور ممکن ہے دوسری سورتوں کو مختلف وجوہ سے " مثانی " کہہ دیا جائے، مگر اس جگہ " سبع مثانی " اور قرآن عظیم " کا مصداق یہ ہی سورت (فاتحہ) ہے۔
Top