Maarif-ul-Quran - Al-Anbiyaa : 17
لَوْ اَرَدْنَاۤ اَنْ نَّتَّخِذَ لَهْوًا لَّاتَّخَذْنٰهُ مِنْ لَّدُنَّاۤ١ۖۗ اِنْ كُنَّا فٰعِلِیْنَ
لَوْ اَرَدْنَآ : اگر ہم چاہتے اَنْ : کہ نَّتَّخِذَ : ہم بنائیں لَهْوًا : کوئی کھلونا لَّاتَّخَذْنٰهُ : تو ہم اس کو بنا لیتے مِنْ لَّدُنَّآ : اپنے پاس سے اِنْ كُنَّا : اگر ہم ہوتے فٰعِلِيْنَ : کرنے والے
اگر ہم چاہتے کہ بنالیں کچھ کھلونا تو بنا لیتے ہم اپنے پاس سے اگر ہم کو کرنا ہوتا
لَـوْ اَرَدْنَآ اَنْ نَّتَّخِذَ لَهْوًا لَّاتَّخَذْنٰهُ مِنْ لَّدُنَّآ ڰ اِنْ كُنَّا فٰعِلِيْنَ ، یعنی اگر ہم کوئی مشغلہ بطور کھیل کے بنانا ہی چاہتے اور ہمیں یہ کام کرنا ہی ہوتا تو ہمیں اس کی کیا ضرورت تھی کہ زمین و آسمان وغیرہ پیدا کریں یہ کام اپنے پاس کی چیزوں سے بھی ہوسکتا تھا۔
عربی زبان میں حرف لو فرضی چیزوں کے لئے بولا جاتا ہے جس کا کوئی وجود نہ ہو اس جگہ بھی اس حرف سے یہ مضمون بیان ہوا ہے کہ جو احمق ان تمام علویات اور سفلیات آسمانی اور زمینی مخلوقات اور مصنوعات عجیبہ کو لہو و لعب سمجھتے ہیں کیا وہ اتنی بھی عقل نہیں رکھتے کہ اتنے بڑے بڑے کام لہو و لعب کے لئے نہیں ہوا کرتے یہ کام جس کو کرنا ہو وہ یوں نہیں کیا کرتا، اس میں اشارہ اس طرف ہے کہ لہو و لعب کا کوئی کام بھی حق تعالیٰ کی عظمت شان تو بہت بلند وبالا ہے کسی اچھے معقول آدمی سے بھی متصور نہیں۔
لہو کے اصلی اور معروف معنی بیکاری کے مشغلہ کے ہیں اسی کے مطابق مذکورہ تفسیر کی گئی ہے۔ بعض حضرات مفسرین نے فرمایا کہ لفظ لہو کبھی بیوی کے لئے اور اولاد کے لئے بھی بولا جاتا ہے اور یہاں یہ مراد لی جائے تو مطلب آیت کا یہود و نصاری پر رد کرنا ہوگا جو حضرت مسیح یا عزیر (علیہما السلام) کو اللہ کا بیٹا کہتے ہیں کہ اگر ہمیں اولاد ہی بنانی ہوتی تو انسان مخلوق کو کیوں بناتے اپنے پاس کی مخلوق میں سے بنا لیتے۔ واللہ اعلم
Top