Maarif-ul-Quran - Al-Muminoon : 14
ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظٰمًا فَكَسَوْنَا الْعِظٰمَ لَحْمًا١ۗ ثُمَّ اَنْشَاْنٰهُ خَلْقًا اٰخَرَ١ؕ فَتَبٰرَكَ اللّٰهُ اَحْسَنُ الْخٰلِقِیْنَؕ
ثُمَّ : پھر خَلَقْنَا : ہم نے بنایا النُّطْفَةَ : نطفہ عَلَقَةً : جما ہوا خون فَخَلَقْنَا : پس ہم نے بنایا الْعَلَقَةَ : جما ہوا خون مُضْغَةً : بوٹی فَخَلَقْنَا : پھر ہم نے بنایا الْمُضْغَةَ : بوٹی عِظٰمًا : ہڈیاں فَكَسَوْنَا : پھر ہم پہنایا الْعِظٰمَ : ہڈیاں لَحْمًا : گوشت ثُمَّ : پھر اَنْشَاْنٰهُ : ہم نے اسے اٹھایا خَلْقًا : صورت اٰخَرَ : نئی فَتَبٰرَكَ : پس برکت والا اللّٰهُ : اللہ اَحْسَنُ : بہترین الْخٰلِقِيْنَ : پید ا کرنے والا
پھر بنایا اس بوند سے لہو جما ہوا پھر بنایا اس لہو جمے ہوئے سے گوشت کی بوٹی پھر بنائیں اس بوٹی سے ہڈیاں پھر پہنایا ان ہڈیوں پر گوشت پھر اٹھا کھڑا کیا اس کو ایک نئی صورت میں سو بڑی برکت اللہ کی جو سب سے بہتر بنانے والا ہے
اسی طرح اس کے بعد تیسرا درجہ نطفہ کا گوشت کے ٹکڑے کی شکل میں تبدیل ہونا، یہ بھی ایک طویل وقت چاہتا ہے اس کو بھی ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً سے تعبیر فرمایا۔ اس کے بعد کے تین دور علقہ سے مضغہ مضغہ سے ہڈیاں اور ہڈیوں پر گوشت چڑھانا ان سب کا تھوڑی تھوڑی مدت میں ہوجانا مستبعد نہیں معلوم ہوتا تو ان تینوں کو حرف فاء سے بیان فرمایا ہے۔ پھر آخری دور جو نفخ روح اور زندگی پیدا کرنے کا ہے اس کو بھی لفظ ثم سے تعبیر فرمایا کیونکہ ایک غیر ذی روح جماد میں روح اور حیات پیدا کرنا قیاس عقل میں بڑی مدت چاہتا ہے اس لئے یہاں پھر لفظ ثم لایا گیا۔
خلاصہ یہ ہے کہ ایک دور سے دوسرے دور کی طرف انقلاب جن صورتوں میں انسانی عقل و قیاس کے مطابق دیر طلب اور مدت کا کام تھا وہاں لفظ ثم سے اس کی طرف اشارہ کردیا گیا اور جہاں عام انسانی قیاس کی رو سے زیادہ مدت درکار نہیں تھی وہاں حرف فاء سے تعبیر کر کے اس کی طرف اشارہ کردیا گیا۔ اس لئے اس پر اس حدیث سے شبہ نہیں ہوسکتا جس میں یہ بیان فرمایا ہے کہ ہر دور سے دوسرے دور تک منقلب ہونے میں چالیس چالیس دن صرف ہوتے ہیں کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کا کام ہے جو انسانی قیاس کے تابع نہیں۔
تخلیق انسانی کا آخری مقام یعنی اس میں روح وحیات پیدا کرنا
اس کا بیان قرآن کریم نے ایک خاص اور ممتاز انداز سے اس طرح فرمایا ثُمَّ اَنْشَاْنٰهُ خَلْقًا اٰخَرَ ، یعنی پھر ہم نے اس کو ایک خاص قسم کی اور پیدائش عطا کی۔ اس امتیاز بیان کی وجہ یہ ہے کہ پہلے چھ دور تخلیق کے عالم عناصر اور مادیات سے اور ان میں انقلاب و تبدیل سے متعلق تھے اور یہ آخری ساتواں دور دوسرے عالم یعنی عالم ارواح سے روح کو اس کے جسم میں منتقل کرنے کا دور تھا اس لئے اس کو خلقاً آخر سے تعبیر کیا گیا۔
روح حقیقی اور روح حیوانی
یہاں خَلْقًا اٰخَرَ کی تفسیر حضرت ابن عباس، مجاہد، شعبی، عکرمہ، ضحاک، ابو العالیہ (رحمہم اللہ) وغیرہ نے نفخ روح سے فرمائی ہے۔ تفسیر مظہری میں ہے کہ غالباً مراد اس روح سے روح حیوانی ہے کہ وہ بھی مادی اور ایک جسم لطیف ہے جو جسم حیوانی کے ہر ہر جزو میں سمایا ہوا ہوتا ہے جس کو اطباء اور فلاسفہ روح کہتے ہیں۔ اس کی تخلیق بھی تمام اعضاء انسانی کی تخلیق کے بعد ہوتی ہے اس لئے اس کو لفظ ثم سے تعبیر فرمایا ہے۔ اور روح حقیقی جس کا تعلق عالم ارواح سے ہے، وہیں سے لا کر اس روح حیوانی کے ساتھ اس کا کوئی رابطہ حق تعالیٰ اپنی قدرت سے پیدا فرما دیتے ہیں جس کی حقیقت کا پہچاننا انسان کے بس کا نہیں اس روح حقیقی کی تخلیق تو تمام انسانوں کی تخلیق سے بہت پہلے ہے انہیں ارواح کو حق تعالیٰ نے ازل میں جمع کر کے اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ فرمایا اور سب نے بَلٰي کے لفظ سے اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کا اقرار کیا۔ ہاں اس کا تعلق جسم انسانی کے ساتھ تخلیق اعضاء انسانی کے بعد ہوتا ہے۔ اس جگہ نفح روح سے اگر یہ مراد لی جائے کہ روح حیوانی کے ساتھ روح حقیقی کا تعلق اس وقت قائم فرمایا گیا تو یہ بھی ممکن ہے۔ اور درحقیقت حیات انسان اسی روح حقیقی سے متعلق ہے جب اس کا تعلق روح حیوانی کے ساتھ ہوجاتا ہے تو انسان زندہ کہلاتا ہے جب منقطع ہوجاتا ہے تو انسان مردہ کہلاتا ہے وہ روح حیوانی بھی اپنا عمل چھوڑ دیتی ہے۔
فَتَبٰرَكَ اللّٰهُ اَحْسَنُ الْخٰلِقِيْنَ ، خلق و تخلیق کے اصلی معنے کسی چیز کو ازسرنو بغیر کسی مادہ سابقہ کے پیدا کرنا ہے جو حق تعالیٰ جل شانہ، کی مخصوص صفت ہے۔ اس معنے کے اعتبار سے خالق صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے کوئی دوسرا شخص فرشتہ ہو یا انسان کسی ادنیٰ چیز کا خالق نہیں ہو سکتا۔ لیکن کبھی کبھی یہ لفظ خلق و تخلیق صنعت کے معنی میں بھی استعمال کیا جاتا ہے اور صنعت کی حقیقت اس سے زائد نہیں کہ اللہ جل شانہ نے جو مواد اور عناصر اس جہان میں اپنی قدرت کاملہ سے پیدا فرما دیئے ہیں ان کو جوڑ توڑ کر ایک دوسرے کے ساتھ مرکب کر کے ایک نئی چیز بنادی جائے یہ کام ہر انسان کرسکتا ہے اور اسی معنے کے لحاظ سے کسی انسان کو بھی کسی خاص چیز کا خالق کہہ دیا جاتا ہے۔ خود قرآن کریم نے فرمایا تَخْلُقُوْنَ اِفْكًا اور حضرت عیسیٰ ؑ کے بارے میں فرمایا اَنِّىْٓ اَخْلُقُ لَكُمْ مِّنَ الطِّيْنِ كَهَيْــــَٔــةِ الطَّيْرِ ، ان تمام مواقع میں لفظ خلق مجازی طور پر صنعت کے معنے میں بولا گیا ہے۔
اسی طرح یہاں لفظ خٰلِقِيْنَ بصیغہ جمع اسی لئے لایا گیا ہے کہ عام انسان جو اپنی صنعت گری کے اعتبار سے اپنے کو کسی چیز کا خالق سمجھتے ہیں اگر ان کو مجازاً خالق کہا بھی جائے تو اللہ تعالیٰ ان سب خالقوں یعنی صنعت گروں میں سب سے بہتر صنعت کرنے والے ہیں۔ واللہ اعلم
Top