Tafseer-e-Majidi - Al-Muminoon : 14
ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظٰمًا فَكَسَوْنَا الْعِظٰمَ لَحْمًا١ۗ ثُمَّ اَنْشَاْنٰهُ خَلْقًا اٰخَرَ١ؕ فَتَبٰرَكَ اللّٰهُ اَحْسَنُ الْخٰلِقِیْنَؕ
ثُمَّ : پھر خَلَقْنَا : ہم نے بنایا النُّطْفَةَ : نطفہ عَلَقَةً : جما ہوا خون فَخَلَقْنَا : پس ہم نے بنایا الْعَلَقَةَ : جما ہوا خون مُضْغَةً : بوٹی فَخَلَقْنَا : پھر ہم نے بنایا الْمُضْغَةَ : بوٹی عِظٰمًا : ہڈیاں فَكَسَوْنَا : پھر ہم پہنایا الْعِظٰمَ : ہڈیاں لَحْمًا : گوشت ثُمَّ : پھر اَنْشَاْنٰهُ : ہم نے اسے اٹھایا خَلْقًا : صورت اٰخَرَ : نئی فَتَبٰرَكَ : پس برکت والا اللّٰهُ : اللہ اَحْسَنُ : بہترین الْخٰلِقِيْنَ : پید ا کرنے والا
پھر ہم خون کے لوتھڑے کو (گوشت کی) بوٹی بنا دیا پھر ہم نے بوٹی کو ہڈی بنادیا پھر ہم نے ہڈیوں پر گوشت چڑھا دیا،10۔ پھر ہم نے اسے ایک دوسری ہی مخلوق بنادیا،11۔ کیسی شان والا ہے اللہ تعالیٰ صناعوں سے بڑھ کر ! ،12۔
10۔ (جس سے وہ ہڈیاں ڈھک گئیں اور ڈھانچہ پر جلد چڑھ گئی) (آیت) ” فی قرار مکین “۔ یعنی رحم مادر میں۔ رحم کی مضبوطی اور محفوظیت پر تشریح الابدان کی کتابیں گواہ ہیں۔ (آیت) ” فخلقنا المضغۃ عظما “۔ یعنی بوٹی کے بعض اجزاء کو ہڈیوں میں تبدیل کردیا۔ خلقت انسانی کے ان مراتب کی تفصیل طب قدیم وجدید کی کتابوں میں ملاحظہ کی جاسکتی ہیں۔ 11۔ (روح انسانی ڈال کر اور حالات سابق سے بالکل ممتاز بنا کر) جمادیت ونباتیت کا ذکر نہیں۔ حیوانیت بلکہ حیوانیت اعلی سے بھی انسان جس قدر ممتاز وبلند ہے اس کی شرح کے لیے ایک دفتر چاہیے، کچھ مختصر حوالے انگریزی تفسیر القرآن میں ملیں گے۔ یہ (آیت) ” خلقا اخر “ ‘۔ ہی وہ چیز ہے جہاں تک ڈارون غریب اور اس کے پیرو وں کی نظر نہ پہنچ سکی اور یہ لوگ انسان کو ایک ترقی یافتہ حیوان ہی سمجھتے رہے۔ (آیت) ” خلقا اخر “۔ کی تفسیر صحابہ اور تابعین کے کلام میں روح سے آئی ہے۔ قال ابن عباس والشعبی وابو العالیۃ والضحاک وابن زید ھو نفخ الروح فیہ (بحر) 12۔ (جس کی قدرت اور صناعی تک کسی بڑے سے بڑے بھی صناع کی رسائی ممکن نہیں) دوسرے صناعوں کی قدرت صرف ترکیب وتحلیل تک محدود ہے۔ آفرینش جس چیز کا نام ہے یہ خاص اللہ ہی کا حصہ ہے۔ خلق عربی میں ایک تو ایجاد وابداع یعنی نیست سے ہست کرنے کے معنی میں آتا ہے۔ اور اس معنی میں یہ اللہ کا وصف خصوصی ہے اور اسی معنی میں آیا ہے۔ (آیت) ” افمن یخلق کمن لایخلق “ (آیت) ” احسن الخلقین “۔ سے یہ دھوکا نہ ہو کہ کیا اللہ کے سوا کوئی اور خالق بھی ہے ؟ خالقین یہاں صانعین کے معنی میں ہے۔ ؛ اے احسن الصانعین (ابن جریر عن مجاہد) اور عربی میں ہر صانع کو خالق بھی کہا جاتا ہے۔ العرب تسمی کل صانع خالقا (ابن جریر) اور آگے سند میں زہیر کا کلام پیش کیا ہے۔
Top