بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Mafhoom-ul-Quran - Al-Qasas : 1
طٰسٓمّٓ
طٰسٓمّٓ : طا۔ سین۔ میم
طٰسۗمّۗ۔ (حروف مقطعات میں سے ہے۔
موسیٰ (علیہ السلام) کی ولادت اور پرورش تشریح : سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کا واقعہ قرآن پاک میں بار بار آیا ہے۔ سورة کہف میں خضر (علیہ السلام) کے ساتھ آیا ہے پھر سورة طہٰ میں سورة نمل میں اور اب سورة قصص میں کچھ کچھ حصہ ضرورت کے مطابق آیا ہے۔ یہاں تدبیر الٰہی کے حوالے سے بیان کیا گیا ہے۔ فرعون نے اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کے لیے تمام اسرائیلی نوزائیدہ بچوں کو قتل کردینے کا حکم دے رکھا تھا۔ مگر اللہ کی تدبیر کے سامنے وہ اندھا ہوگیا اور اسی خاص اسرائیلی بچے کو خود پرورش کیا جو اس کا اصل دشمن تھا۔ اور اللہ نے اپنی حکمت اور تدبیر سے اس بچے کو اس کی ماں کے سپرد بھی کروا دیا بلکہ ماں کو دودھ پلانے اور پرورش کرنے پر ایک دینار روزانہ بھی ملتا تھا۔ اور یوں وہ فرعون ظالم و جابر اور اس کے درباری اللہ کی تدبیر کے سامنے بےبس ہوگئے اور ان کو پتہ تک نہ چلا کہ ان کے ساتھ کیا ہوگیا ہے۔ اصل میں بنی اسرائیل سیدنا یوسف (علیہ السلام) کے زمانے میں ہجرت کر کے مصر میں آگئے تھے اور فرعون کو ان سے خطرہ تھا کہ کہیں بغاوت کر کے اس کا تختہ نہ الٹ دیں۔ اس لیے اپنی رعایا سے تو جو ظلم کرتا تھا وہ تو تھا ہی بنی اسرائیل کے ساتھ تو حد درجہ ظلم و ستم کرتا تھا اسی سلسلہ کی یہ کڑی تھی کہ بنی اسرائیل کے گھر جو بچہ پیدا ہوتا اسے قتل کردینے کا حکم تھا۔ اگر بچی پیدا ہوتی تو قتل نہ کرتے۔ مقصد یہ تھا کہ ان کو انتہائی ظلم و ستم کا نشانہ بنا کر اپنے آپ سے دور کردیا جائے یعنی ان کی اپنی قومی انفرادیت بالکل ختم کردی جائے۔ مگر اللہ کی مرضی یہ تھی کہ اولاد یعقوب کو ظلم و ستم سے نجات دلا کر وہاں کا سردار بنا دیا جائے اس کے بارے میں تفصیلاً گزر چکا ہے۔ یہاں خاص طور سے اللہ کی حکمت ‘ تدبیر اور حق کی مدد کو نمایاں کیا گیا ہے اور آئندہ کامیابیوں کی بشارت دی گئی ہے۔ تاکہ نبی اکرم ﷺ مطمئن اور مضبوط رہیں صاف صاف بتا دیا گیا ہے کہ اللہ کی تدبیر کے سامنے بندے کی تدبیر کوئی حیثیت نہیں رکھتی اور حق کو اللہ کبھی تنہا نہیں چھوڑ دیتا۔ اس کے سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کی جوانی اور ہجرت کا واقعہ بیان کیا جا رہا ہے جو اسی سلسلہ کی کڑیاں ہیں۔
Top