Maarif-ul-Quran - Al-Qasas : 58
وَ كَمْ اَهْلَكْنَا مِنْ قَرْیَةٍۭ بَطِرَتْ مَعِیْشَتَهَا١ۚ فَتِلْكَ مَسٰكِنُهُمْ لَمْ تُسْكَنْ مِّنْۢ بَعْدِهِمْ اِلَّا قَلِیْلًا١ؕ وَ كُنَّا نَحْنُ الْوٰرِثِیْنَ
وَكَمْ : اور کتنی اَهْلَكْنَا : ہلاک کردیں ہم نے مِنْ قَرْيَةٍ : بستیاں بَطِرَتْ : اتراتی مَعِيْشَتَهَا : اپنی معیشت فَتِلْكَ : سو۔ یہ مَسٰكِنُهُمْ : ان کے مسکن لَمْ تُسْكَنْ : نہ آباد ہوئے مِّنْۢ بَعْدِهِمْ : ان کے بعد اِلَّا : مگر قَلِيْلًا : قلیل وَكُنَّا : اور ہوئے ہم نَحْنُ : ہم الْوٰرِثِيْنَ : وارث (جمع)
اور کتنی غارت کردیں ہم نے بستیاں جو اترا چلی تھیں اپنی گزران میں اب یہ ہیں ان کے گھر آباد نہیں ہوئے ان کے پیچھے مگر تھوڑے اور ہم ہیں آخر کو سب کچھ لینے والے
اس کے بعد دوسرا جواب اس عذر کا یہ ہے وَكَمْ اَهْلَكْنَا مِنْ قَرْيَةٍۢ بَطِرَتْ مَعِيْشَتَهَا، جس میں یہ بتلایا گیا ہے کہ دنیا کی دوسری کافر قوموں کے حالات پر نظر ڈالو کہ ان کے کفر و شرک کے وبال سے کس طرح ان کی بستیاں تباہ ہوئیں اور مضبوط و مستحکم قلعے اور حفاظتی سامان سب خاک میں مل گئے تو اصل خوف کی چیز کفر و شرک ہے جو تباہی و بربادی کا سبب ہوتا ہے۔ تم کیسے بیخبر بیوقوف ہو کہ کفر و شرک سے خطرہ محسوس نہیں کرتے ایمان سے خطرہ محسوس کرتے ہو۔
لَمْ تُسْكَنْ مِّنْۢ بَعْدِهِمْ اِلَّا قَلِيْلًا یعنی پچھلی قوموں کی جن بستیوں کو عذاب الٰہی سے برباد کیا گیا تھا اب تک بھی ان میں آبادی نہیں ہوئی بجز قدر قلیل کے۔ اس قدر قلیل سے مراد اگر مساکن اور مقامات قلیلہ لئے جاویں جیسا کہ زجاج کا قول ہے تو مطلب یہ ہوگا کہ ان تباہ شدہ بستیوں میں کوئی مقام اور کوئی مکان پھر آباد نہیں ہوسکا بجز عدد قلیل کے کہ وہ آباد ہوئے مگر حضرت ابن عباس سے آیت کی یہ تفسیر منقول ہے کہ قدر قلیل سے مقامات اور مکانات قلیلہ کا استثناء نہیں بلکہ زمان سکونت کا استثناء مراد ہے اور مطلب یہ ہے کہ اگر ان بستیوں میں کوئی رہتا بھی ہے تو بہت تھوڑی دیر کے لئے جیسے کوئی راہ گیر مسافر تھوڑی دیر کے لئے ٹھہر جائے جس کو بستیوں کی آبادی نہیں کہا جاسکتا۔
Top