Tafseer-e-Majidi - Al-Qasas : 58
وَ كَمْ اَهْلَكْنَا مِنْ قَرْیَةٍۭ بَطِرَتْ مَعِیْشَتَهَا١ۚ فَتِلْكَ مَسٰكِنُهُمْ لَمْ تُسْكَنْ مِّنْۢ بَعْدِهِمْ اِلَّا قَلِیْلًا١ؕ وَ كُنَّا نَحْنُ الْوٰرِثِیْنَ
وَكَمْ : اور کتنی اَهْلَكْنَا : ہلاک کردیں ہم نے مِنْ قَرْيَةٍ : بستیاں بَطِرَتْ : اتراتی مَعِيْشَتَهَا : اپنی معیشت فَتِلْكَ : سو۔ یہ مَسٰكِنُهُمْ : ان کے مسکن لَمْ تُسْكَنْ : نہ آباد ہوئے مِّنْۢ بَعْدِهِمْ : ان کے بعد اِلَّا : مگر قَلِيْلًا : قلیل وَكُنَّا : اور ہوئے ہم نَحْنُ : ہم الْوٰرِثِيْنَ : وارث (جمع)
اور ہم کتنی ہی بستیاں ہلاک کرچکے ہیں جنہیں اپنی خوش عیشی پر ناز تھا یہ ان کے گھر (اجڑے ہوئے پڑے) ہیں کہ ان کے بعد آباد ہی نہ ہوئے مگر تھوڑی دیر کیلئے اور ہم ہی مالک رہے،77۔
77۔ (اور کوئی ان کا ظاہری وارث بھی نہ رہا) اس میں ڈرایا ہے مکہ والوں کو کہ اپنی خوش عیشی و خوشحالی پر نازاں نہ ہوں، مکہ والوں کی خوشحالی آج بہت سے لوگوں کو ایک عجیب سی بات معلوم ہوگی، دماغ انہیں غربت زدہ، مفلوک الحال ونیم فاقہ کش سمجھتے رہنے کے عادی ہوگئے ہیں۔ حالانکہ ان کی یہ تصویر واقعہ کے بالکل خلاف ہے، مکہ کی منڈی اپنے زمانہ کی یوں بھی بہت بڑی تجارتی منڈی تھی، اس پر اضافہ تاجران مکہ کے شمالی اور جنوبی تجارتی سفر، ایک موسم میں شام اور دوسرے میں یمن کی جانب۔ اس صورت حال نے مل ملا کر اہل جاہلیت کے تاجروں کو امیر کبیر بلکہ کہنا چاہیے کہ لکھ پتی بنا دیا تھا۔ اور چونکہ تجارت میں شرکت اور حصہ داری کا طریقہ منافع سے محروم رہتا ہو۔ اور منافع کا اوسط اصل رقم پر 4 یا 5 فیصدی نہیں، اکثر 50، 50، فیصدی ہوتا رہتا ایسی حوشحال آبادی کے سامنے عبرت و تخویف کے لیے مثال بھی قدرۃ کسی متمول وخوشحال ہی قوم کی پیش کرنی مناسب تھی۔ ایک طرف ہندوستان، ایران و عراق کے مال کی اور دوسری طرف مصر شام اور رومی ملکوں کی ساری تجارت اس وقت کہنا چاہیے کہ عربوں ہی کے ہاتھ میں تھی۔ ملاحظہ ہو انگریزی تفسیر القرآن۔
Top