Tafseer-e-Madani - Al-Qasas : 58
وَ كَمْ اَهْلَكْنَا مِنْ قَرْیَةٍۭ بَطِرَتْ مَعِیْشَتَهَا١ۚ فَتِلْكَ مَسٰكِنُهُمْ لَمْ تُسْكَنْ مِّنْۢ بَعْدِهِمْ اِلَّا قَلِیْلًا١ؕ وَ كُنَّا نَحْنُ الْوٰرِثِیْنَ
وَكَمْ : اور کتنی اَهْلَكْنَا : ہلاک کردیں ہم نے مِنْ قَرْيَةٍ : بستیاں بَطِرَتْ : اتراتی مَعِيْشَتَهَا : اپنی معیشت فَتِلْكَ : سو۔ یہ مَسٰكِنُهُمْ : ان کے مسکن لَمْ تُسْكَنْ : نہ آباد ہوئے مِّنْۢ بَعْدِهِمْ : ان کے بعد اِلَّا : مگر قَلِيْلًا : قلیل وَكُنَّا : اور ہوئے ہم نَحْنُ : ہم الْوٰرِثِيْنَ : وارث (جمع)
اور کتنی ہی ایسی بستیوں کو ہم نے ہلاک کر کے رکھ دیا جن کے باشندے بڑے نازاں تھے اپنے سامان عیش و عشرت پر سو یہ ہیں ان کے مکان جو کھنڈرات کی صورت میں سامان عبرت بنے ہوئے موجود ہیں جن میں ان کے بعد کوئی رہا بسا نہیں مگر بہت تھوڑا اور آخرکار ہم ہی ان کے وارث ہو کر رہے
78 دنیاوی مال و دولت پر اترانا ہلاکت و تباہی کا پیش خیمہ : سو ارشاد فرمایا گیا کہ " کتنی ہی ایسی بستیوں کو ہم نے ہلاک کر کے رکھ دیا جو بڑی اترایا کرتی تھیں اپنے سامان عیش و عشرت پر "۔ سو اس سے معلوم ہوا کہ نہ تو دنیاوی مال و دولت کوئی فخر و ناز کی چیز ہے اور نہ ہی اس کا مل جانا حق و صداقت کی کوئی دلیل۔ ورنہ ماضی کی یہ قومیں جن کو اپنے دنیاوی مال و متاع پر اتنا ناز اور اس قدر گھمنڈ تھا اور جنہوں نے دنیاوی اور مادی اعتبار سے واقعتا ترقی بھی بہت کی تھی وہ اس طرح تباہ و برباد نہ ہوتیں اور صفحہ ہستی سے حرف غلط کی طرح ہمیشہ کے لئے مٹا کر نہ رکھ دی جاتیں ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ سو دنیاوی مال و دولت پر اترانا اور اس کی بنا پر حق سے منہ موڑنا ہلاکت و تباہی کا پیش خیمہ ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اللہ نفس و شیطان کے ہر مکر و فریب سے محفوظ اور اپنی پناہ میں رکھے ۔ آمین ثم آمین۔ 79 درس عبرت لینے کی تعلیم و تلقین : سو اس سے ہلاک شدہ قوموں کے انجام سے درس عبرت لینے کی ہدایت اور تعلیم و تلقین فرمائی گئی۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ " یہ ہیں ان قوموں کے کھنڈرات جن میں ان کے بعد کوئی نہیں ٹھہرا مگر بہت تھوڑا "۔ یعنی کوئی چلتا مسافر یا راہ گیر کسی قدر سستانے کے لئے لمحہ بھر کیلئے ٹھہر گیا یا کوئی نگاہ عبرت ڈالنے کے لئے کچھ رک گیا، تو رک گیا۔ ورنہ ان قوموں کے ان تباہ شدہ کھنڈارت میں رہنے بسنے کے لئے کوئی قوم کبھی تیار نہ ہوئی۔ بس کھنڈرات ہی کھنڈرات رہ گئے جو اپنی زبان حال سے دنیا کو درس عبرت و بصیرت سنا رہے ہیں تاکہ جس نے نصیحت پکڑنا ہو پکڑ لے۔ (ابن کثیر، صفوہ، مراغی وغیرہ) ۔ سو یہ کفار قریش اور انکے بعد ہر دور کے ان منکرین کیلئے انذار و تنبیہ ہے جو دنیاوی مال و دولت پر اتراتے ہیں اور خداوند قدوس کے فضل و کرم کو بھول کر وہ اس کو اپنی عقل و تدبیر کا نتیجہ وثمرہ قرار دیتے ہیں۔ سو ان کو یہ درس عبرت دیا جا رہا ہے کہ یہ رفاہیت جو تم لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے نصیب ہوئی ہے، اس پر اترانے اور تکبر کرنے کی بجائے اس واہب مطلق کا شکر ادا کرو جس نے تم کو اس سے نوازا ہے۔ ورنہ ان ہلاک شدہ قوموں کے عبرتناک انجام کو دیکھ لو جن کے یہ کھنڈرات تمہارے سامنے موجود ہیں۔ بہرکیف ارشاد فرمایا گیا کہ " جب وہ لوگ اپنے کیے کرائے کے نتیجے میں فنا ہو کر مٹ مٹا گیے۔ ان کی وہ دولت جس پر ان کو بڑا فخر و ناز تھا اور ان کے وہ اسباب عیش و عشرت جن پر یہ بڑے مست و مگن تھے اور انہی میں محو و منہمک رہتے تھے وہ سب کچھ یونہی دھرے کا دھرا رہ گیا۔ کوئی نہیں تھا جو ان کی وراثت کا دعویٰ کرسکے۔ وہ سب کچھ ہماری ہی میراث میں آگیا ۔ اللہ ہمیشہ اپنی رضا و خوشنودی کی راہوں پر ثابت قدم رکھے ۔ آمین ثم آمین۔ 80 سب کچھ اللہ ہی کے لیے رہ جائے گا : سو ارشاد فرمایا گیا اور آخرکار ہم ہی وارث بن کر رہے کہ ان میں سے کوئی بچا ہی نہ جو کہ ان کا وارث بن سکتا اور ان کا وہ تمام مال و متاع جس پر ان کو بڑا ناز اور گھمنڈ تھا یونہی پڑا رہ گیا۔ اور جب کسی چیز کا کوئی مالک نہ رہ جائے تو اس کو اللہ ہی کی میراث کہا اور قرار دیا جاتا ہے کہ سب کا مالک بہرحال وہی ہے ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ اس لیے فرمایا گیا کہ ان سب کی میراث ہماری ہی طرف لوٹ آئی کہ آسمان و زمین کی اس پوری کائنات کے خالق ومالک اور وارث حقیقی ہم ہی ہیں۔ سو بڑے تنگ ظرف اور خطاکار ہیں وہ لوگ جو ہم سے منہ موڑے ہوئے ہیں۔
Top