Maarif-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 123
وَ لَقَدْ نَصَرَكُمُ اللّٰهُ بِبَدْرٍ وَّ اَنْتُمْ اَذِلَّةٌ١ۚ فَاتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ
وَلَقَدْ : اور البتہ نَصَرَكُمُ : مدد کرچکا تمہاری اللّٰهُ : اللہ بِبَدْرٍ : بدر میں وَّاَنْتُمْ : جب کہ تم اَذِلَّةٌ : کمزور فَاتَّقُوا : تو ڈروا اللّٰهَ : اللہ لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَشْكُرُوْنَ : شکر گزار ہو
اور تمہاری مدد کرچکا ہے اللہ بدر کی لڑائی میں اور تم کمزور تھے سو ڈرتے رہو اللہ سے تاکہ تم احسان مانو۔
ارشاد ہے (ولقد نصرکم اللہ ببدر وانتم اذلۃ)
یعنی اس وقت کو یاد کرو جب اللہ تعالیٰ نے بدر میں تمہاری امداد فرمائی، جبکہ تم تعداد میں بھی صرف تین سو تیرہ تھے، اور وہ بھی سب بےسروسامان۔
بدر کی اہمیت اور اس کا محل وقوع
بدر مدینہ کے جنوب مغرب میں کوئی اسی میل کے فاصلہ پر ایک پر اؤ اور منڈی کا نام ہے۔ اس وقت اس کو اس لئے اہمیت حاصل تھی کہ یہاں پانی کی افراط تھی، اور یہ عرب کے ریگستانی میدانوں میں بڑی چیز تھی، توحید اور شرک کے درمیان یہیں سب سے پہلا معرکہ بروز جمعہ 17، رمضان المبارک 2 ھ مطابق 11 مارچ 624 ء کو پیش آیا تھا، یہ غزوہ بظاہر تو ایک مقامی جنگ معلوم ہوتا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس نے دنیا کی تاریخ میں ایک عظیم انقلاب پیدا کردیا، اسی لئے قرآن کی زبان میں اس کو یوم الفرقان کہا گیا ہے، فرنگی مورخوں نے بھی اس کی اہمیت کا اقرار کیا ہے۔ امریکی پروفیسر ہٹی اپنی کتاب ہسٹری آف دی عربین میں کہتا ہے" یہ اسلام کی سب سے پہلی فتح مبین تھی "۔ وانتم اذلۃ، یعنی تم اس وقت تعداد میں قلیل اور سامان میں حقیر تھے، مسلمان تعداد میں قوی روایات کے مطابق 313 تھے، اس فوج کے ہمراہ گھوڑے صرف دو تھے، اور اونٹ ستر کی تعداد میں تھے، انہی پر لوگ باری باری سوار ہوتے تھے۔
آخر کی آیت میں فرمایا گیا فاتقوا اللہ لعلکم تشکرون، یعنی اللہ سے ڈرتے رہو، تاکہ تم شکر گزار ہو "۔ قرآن نے جگہ جگہ منافقین کے کید اور شدید مخالفین کے عناد و مخالفت کے نتائج بد سے محفوظ رہنے کے لئے تقوی اور صبر بتلایا ہے، انہی دو چیزوں کے اندر ساری تنظیمی جدوجہد اور فتح مبین کا راز مضمر ہے، جیسا کہ پہلے بیان ہوچکا ہے، اور یہاں صبر وتقوی کے بجائے صرف تقوی پر اکتفاء کیا گیا ہے، کیونکہ درحقیقت تقوی ایسی صفت جامع ہے کہ صبر بھی اس میں شامل ہے۔
Top