Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Maarif-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 55
اِذْ قَالَ اللّٰهُ یٰعِیْسٰۤى اِنِّیْ مُتَوَفِّیْكَ وَ رَافِعُكَ اِلَیَّ وَ مُطَهِّرُكَ مِنَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَ جَاعِلُ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْكَ فَوْقَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اِلٰى یَوْمِ الْقِیٰمَةِ١ۚ ثُمَّ اِلَیَّ مَرْجِعُكُمْ فَاَحْكُمُ بَیْنَكُمْ فِیْمَا كُنْتُمْ فِیْهِ تَخْتَلِفُوْنَ
اِذْ
: جب
قَالَ
: کہا
اللّٰهُ
: اللہ
يٰعِيْسٰٓى
: اے عیسیٰ
اِنِّىْ
: میں
مُتَوَفِّيْكَ
: قبض کرلوں گا تجھے
وَرَافِعُكَ
: اور اٹھا لوں گا تجھے
اِلَيَّ
: اپنی طرف
وَمُطَهِّرُكَ
: اور پاک کردوں گا تجھے
مِنَ
: سے
الَّذِيْنَ
: وہ لوگ جو
كَفَرُوْا
: انہوں نے کفر کیا
وَجَاعِلُ
: اور رکھوں گا
الَّذِيْنَ
: وہ جنہوں نے
اتَّبَعُوْكَ
: تیری پیروی کی
فَوْقَ
: اوپر
الَّذِيْنَ
: جنہوں نے
كَفَرُوْٓا
: کفر کیا
اِلٰى
: تک
يَوْمِ الْقِيٰمَةِ
: قیامت کا دن
ثُمَّ
: پھر
اِلَيَّ
: میری طرف
مَرْجِعُكُمْ
: تمہیں لوٹ کر آنا ہے
فَاَحْكُمُ
: پھر میں فیصلہ کروں گا
بَيْنَكُمْ
: تمہارے درمیان
فِيْمَا
: جس میں
كُنْتُمْ
: تم تھے
فِيْهِ
: میں
تَخْتَلِفُوْنَ
: اختلاف کرتے تھے
جس وقت کہا اللہ نے اے عیسیٰ میں لے لوں گا تجھ کو اور اٹھالوں گا اپنی طرف اور پاک کردوں گا تجھ کو کافروں سے اور رکھوں گا ان کو جو تیرے تابع ہیں غالب ان لوگوں سے جو انکار کرتے ہیں قیامت کے دن تک پھر میری طرف ہے تم سب کو پھر آنا پھر فیصلہ کردوں گا تم میں جس بات میں تم جھگڑتے تھے۔
(انی متوفیک) لفظ " متوفی " کا مصدر " توفی " اور مادہ " وفی " ہے۔ اس کے اصل معنی عربی لغت کے اعتبار سے پورا پورا لینے کے ہیں، وفاء، ایفاء، استیفاء، اسی معنی کے لئے بولے جاتے ہیں، توفی کے بھی اصلی معنی پورا پورا لینے کے ہیں، تمام کتب لغت عربی زبان کی اس پر شاہد ہیں۔ اور چونکہ موت کے وقت انسان اپنی اجل مقدر پوری کرلیتا ہے، اور خدا کی دی ہوئی روح پوری لے لی جاتی ہے، اس کی مناسبت سے یہ لفظ بطور کنایہ موت کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے، اور موت کا ایک ہلکا سا نمونہ روزانہ انسان کی نیند ہے، اس کے لئے بھی قرآن کریم میں اس لفظ کا استعمال ہوا ہے (اللہ یتوفی الانفس حین موتھا والتی لم تمت فی منامھا۔ 39: 42) جس کا ترجمہ یہ ہے کہ " اللہ لے لیتا ہے جانوں کو ان کی موت کے وقت، اور جن کی موت نہیں آتی ان کی نیند کے وقت "۔
حافظ ابن تیمیہ ؒ نے الجواب الصحیح صفحہ 83 جلد 2 میں فرمایا(التوفی فی لغۃ العرب معنھا القبض والاستیفاع و ذلک ثلاثۃ انواع، احدھا التوفی فی النوم و الثانی توفی الموت والثالث توفی الروح والبدن جمیعا)۔
اور کلیات ابو البقاء میں ہے(التوفی الاماتۃ وقبض الروح وعلیہ استعمال العامۃ او الاستیفاء واخذ الحق وعلیہ استعمال البلغاء)
اسی لئے آیت مذکورہ میں لفظ متوفیک کا ترجمہ اکثر حضرات نے پورا لینے سے کیا ہے، جیسا کہ ترجمہ شیخ الہند میں مذکور ہے، اس ترجمہ کے لحاظ سے مطلب واضح ہے کہ ہم آپ کو یہودیوں کے ہاتھ میں نہ چھوڑیں گے، بلکہ خود آپ کو لے لیں گے، جس کی صورت یہ ہوگی کہ اپنی طرف آسمان پر چڑھا لیں گے۔
اور بعض حضرات نے اس کا ترجمہ موت دینے سے کیا ہے، جیسا کہ بیان القرآن کے خلاصہ میں اوپر مذکور ہے، اور یہی ترجمہ مفسر القرآن حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے اسانید صحیحہ کے ساتھ منقول ہے، مگر اس کے ساتھ ہی یہ بھی منقول ہے کہ معنی آیت کے ہیں کہ حق تعالیٰ نے اس وقت جبکہ یہودی آپ کے قتل کے درپے تھے آپ کی تسلی کے لئے دو لفظ ارشاد فرمائے، ایک یہ کہ آپ کی موت ان کے ہاتھوں قتل کی صورت میں نہیں بلکہ طبعی موت کی صورت میں ہوگی۔ دوسرا یہ کہ اس وقت ان لوگوں کے نرغہ سے نجات دینے کی ہم یہ صورت کریں گے کہ آپ کو اپنی طرف اٹھالیں گے، یہی تفسیر حضرت ابن عباس ؓ سے منقول ہے۔ تفسیر در منثور میں حضرت ابن عباس ؓ کی یہ روایت اس طرح منقول ہے(اخرج اسحاق بن بشر وابن عساکر من طریق جوھر عن الضحاک عن ابن عباس فی قولہ تعالیٰ انی متوفیک ورافعک الی یعنی رافعک ثم متوفیک فی اخرالزمان۔ (درمنثور صفحہ36 جلد 2) " اسحاق بن بشر اور ابن عساکر نے بروایت جوہر عن الضحاک حضرت ابن عباس ؓ سے آیت انی متوفیک وافعک الی کی تفسیر میں یہ لفظ نقل کئے ہیں کہ میں آپ کو اپنی طرف اٹھا لوں گا، پھر آخر زمانہ میں آپ کو طبعی طور پر وفات دوں گا "۔
اس تفسیر کا خلاصہ یہ ہے کہ توفی کے معنی موت ہی کے ہیں، مگر الفاظ میں تقدیم و تاخیر ہے (رافعک) کا پہلے اور (متوفیک) کا وقوع بعد میں ہوگا، اور اس موقع پر متوفیک کو مقدم ذکر کرنے کی حکمت و مصلحت اس پورے معاملے کی طرف اشارہ کرنا ہے جو آگے ہونے والا ہے یعنی یہ اپنی طرف بلا لینا ہمیشہ کے لئے نہیں، چند روزہ ہوگا اور پھر آپ اس دنیا میں آئیں گے اور دشمنوں پر فتح پائیں گے، اور بعد میں طبعی طور پر آپ کی موت واقع ہوگی، اس طرح دوبارہ آسمان سے نازل ہونے اور دنیا پر فتح پانے کے بعد موت آنے کا واقعہ ایک معجزہ بھی تھا اور حضرت عیسیٰ ؑ کے اعزازو اکرام کی تکمیل بھی، نیز اس میں عیسائیوں کے عقیدہ الوہیت کا ابطال بھی تھا، ورنہ ان کے زندہ آسمان پر چلے جانے کے واقعہ سے ان کا یہ عقیدہ باطل اور پختہ ہوجاتا کہ وہ بھی اللہ تعالیٰ کی طرح حی وقیوم ہے، اس لئے پہلے متوفیک کا لفظ ارشاد فرما کر ان تمام خیالات کا ابطال کردیا پھر اپنی طرف بلانے کا ذکر فرمایا۔ اور حقیقت یہ ہے کہ کفار و مشرکین کی مخالفت و عداوت تو انبیاء (علیہم السلام) سے ہمیشہ ہی ہوتی چلی آئی ہے، اور عادۃ اللہ یہ رہی ہے کہ جب کسی نبی کی قوم اپنے انکار اور ضد پر جمی رہی پیغمبر کی بات نہ مانی، ان کے معجزات دیکھنے کے بعد بھی ایمان نہ لائی، تو دو صورتوں میں سے ایک صورت کی گئی ہے۔ یا تو اس قوم پر آسمانی عذاب بھیج کر سب کو فنا کردیا گیا، جیسے عاد و ثمون اور قوم لوط ؑ کے ساتھ معاملہ کیا گیا۔ یا پھر یہ صورت ہوتی کہ اپنے پیغمبر کو اس دار الکفر سے ہجرت کرا کے کسی دوسری طرف منتقل کیا گیا اور وہاں ان کو وہ قوت و شوکت دی گئی کہ پھر اپنی قوم پر فتح پائی۔ حضرت ابراہیم ؑ نے عراق سے ہجرت کر کے شام میں پناہ لی اسی طرح حضرت موسیٰ ؑ مصر سے ہجرت کر کے علاقہ شام میں تشریف لائے، اور آخر میں خاتم الانبیاء ﷺ مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ طیبہ تشریف لائے۔ پھر وہاں سے حملہ آور ہو کر مکہ فتح کیا۔ یہودیوں کے نرغہ سے بچانے کے لئے یہ آسمان پر بلالینا بھی درحقیقت ایک قسم کی ہجرت تھی، جس کے بعد وہ پھر دنیا میں واپس آکر یہودیوں پر مکمل فتح حاصل کریں گے۔ رہا یہ معاملہ کہ ان کی یہ ہجرت سب سے الگ آسمان کی طرف کیوں ہے ؟ تو حق تعالیٰ نے ان کے بارے میں خود فرمادیا ہے کہ ان کی مثال آدم ؑ کی سی ہے، جس طرح آدم ؑ کی پیدائش عام مخلوقات کے طریق پیدائش سے مختلف بغیر ماں باپ کے ہے، اسی طرح ان کی پیدائش عام انسانوں کی پیدائش سے مختلف صورت سے ہوئی اور موت بھی عجیب و غریب طریقہ سے صدہا سال کے بعد دنیا میں آکر عجیب ہوگی۔ تو اس میں کیا تعجب ہے کہ ان کی ہجرت بھی کسی ایسے عجیب طریقہ سے ہو۔
یہی عجائبات قدرت تو جاہل نصاری کے لئے اس عقیدہ میں مبتلا ہونے کا سبب بن گئے، کہ ان کو خدا کہنے لگے، حالانکہ انہی عجائب کے ہر قدم اور ہر چیز پر غور کیا جائے تو ہر ایک واقعہ میں ان کی عبدیت و بندگی اور تابع فرمان الہی ہونے اور بشری خصائص سے متصف ہونے کے دلائل ہیں، اور اسی لئے ہر ایسے موقع پر قرآن حکیم نے عقیدہ الوہیت کے ابطال کی طرف اشارہ کردیا ہے۔ آسمان پر اٹھانے سے یہ شبہ بہت قوی ہوجاتا، اس لئے متوفیک کو پہلے بیان کر کے شبہ کا قلع قمع کردیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ اس آیت میں یہود کی تردید تو مقصود ہی ہے کہ یہود جو حضرت عیسیٰ ؑ کو قتل کرنے اور سولی دینے کا عزم کر رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے عزائم کو خاک میں ملا دیا اس تقدیم و تاخیر الفاظ کے ذریعہ اسی کے ساتھ نصاری کی بھی تردید ہوگئی کہ وہ خدا نہیں جو موت سے بری ہوں، ایک وقت آئے گا جب ان کو بھی موت آئے گی۔
امام رازی ؒ نے تفسیر کبیر میں فرمایا کہ قرآن کریم میں اس طرح کہ تقدیم و تاخیر اسی طرح کے مصالح کے ماتحت بکثرت آئی ہے کہ جو واقعہ بعد میں ہونے والا تھا اس کو پہلے اور پہلے ہونے والے واقعہ کو بعد میں بیان فرمایا (تفسیر کبیر، صفحہ 481، جلد 2)
(ورافعک الی) اس کا مفہوم ظاہر ہے کہ عیسیٰ ؑ کو خطاب کر کے کہا گیا ہے کہ آپ کو اپنی طرف اٹھا لوں گا، اور سب جانتے ہیں کہ عیسیٰ نام صرف روح کا نہیں بلکہ روح مع جسم کا ہے، تو رفع عیسیٰ کا یہ مفہوم لینا کہ صرف رفع روحانی ہوا جسمانی نہیں اٹھا یا گیا بالکل غلط ہے، رہا یہ کہ لفظ رفع کبھی بلندی مرتبہ کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے جیسا کہ قرآن کریم میں رفع بعضکم فوق بعض درجات۔ (6: 166) اور یرفع اللہ الذین امنوا منکم والذین اوتوا العلم۔ (58: 11) وغیرہ آیات میں مذکور ہے۔
تویہ ظاہر ہے کہ لفظ رفع کو رفع درجہ کے معنی میں استعمال کرنا ایک مجاز ہے جو قرائن کی بنا پر مذکورہ آیات میں ہوا ہے، یہاں حقیقی معنی چھوڑ کر مجازی لینے کی کوئی وجہ نہیں، اس کے علاوہ اس جگہ لفظ رفع کے ساتھ لفظ الی استعمال فرما کر اس مجازی معنی کا احتمال بالکل ختم کردیا گیا ہے، اس آیت میں رافعک الی فرمایا، اور سورة نساء کی آیت میں بھی جہاں یہودیوں کے عقیدہ کا رد کیا گیا وہاں بھی یہی فرمایا وما قتلوہ یقینا بل رفع اللہ الیہ۔ (4: 158) یعنی یہودیوں نے یقینا حضرت عیسیٰ ؑ کو قتل نہیں کیا، بلکہ ان کو تو اللہ نے اپنی طرف اٹھا لیا، اپنی طرف اٹھا لینا روح مع جسد کے زندہ اٹھالینے ہی کے لئے بولا جاتا ہے۔ (یہاں تک الفاظ آیت کی تشریح ہوئی)
آیت مذکورہ میں حضرت عیسیٰ ؑ سے اللہ تعالیٰ کے پانچ وعدے
اس آیت میں حق تعالیٰ نے یہودیوں کے مقابلہ میں حضرت عیسیٰ ؑ سے پانچ وعدے فرمائےسب سے پہلا وعدہ یہ تھا کہ ان کی موت یہودیوں کے ہاتھوں قتل کے ذریعہ نہیں ہوگی، طبعی طور سے وقت موعود پر ہوگی، اور وہ وقت موعود قرب قیامت میں آئے گا، جب عیسیٰ ؑ آسمان سے زمین پر نازل ہوں گے، جیسا کہ احادیث صحیحہ متواترہ میں اس کی تفصیل موجود ہے، اور اس کا کچھ حصہ آگے آئے گا۔
دوسرا وعدہفی الحال عالم بالا کی طرف اٹھا لینے کا تھا، یہ اسی وقت پورا کردیا گیا جس کے پورا کرنے کی خبر سورة نساء کی آیت میں اس طرح دے دیگئی۔ (وما قتلوہ یقینا بل رفعہ اللہ الیہ۔ (4: 158) " یقینا ان کو یہودیوں نے قتل نہیں کیا بلکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف اٹھا لیا "۔
تیسرا وعدہان کو دشمنوں کی تہمتوں سے پاک کرنے کا تھا (ومطھرک من الذین کفروا) میں وہ اس طرح پورا ہوا کہ خاتم الانبیاء ﷺ تشریف لائے، اور یہود کے سب غلط الزامات کو صاف کردیا۔ مثلا یہود حضرت عیسیٰ ؑ کے بغیر باپ کے پیدا ہونے کی وجہ سے ان کے نسب کو مطعون کرتے تھے، قرآن کریم نے اس الزام کو یہ فرما کر صاف کردیا کہ وہ محض اللہ کی قدرت اور اس کے حکم سے بلا باپ کے پیدا ہوئے، اور یہ کوئی تعجب کی چیز نہیں۔ حضرت آدم ؑ کی پیدائش اس سے زیادہ تعجب کی چیز ہے کہ ماں اور باپ دونوں کے بغیر پیدا ہوئے۔
یہودی حضرت عیسیٰ ؑ پر خدائی کے دعوے کا الزام لگاتے تھے، قرآن کریم کی بہت سی آیات میں حضرت عیسیٰ ؑ کا اس کے خلاف اپنی عبدیت اور بندگی اور بشریت کا اقرار نقل فرمایا۔
چوتھا وعدہ(وجاعل الذین اتبعوک) میں ہے کہ آپ کے متبعین کو آپ کے منکرین پر قیامت تک غالب رکھا جائے گا، یہ وعدہ اس طرح پورا ہوا کہ یہاں اتباع سے مراد حضرت عیسیٰ ؑ کی نبوت کا اعتقاد اور اقرار مراد ہے۔ ان کے سب احکام پر ایمان و اعتقاد کی شرط نہیں، تو اس طرح نصاری اور اہل اسلام دونوں اس میں داخل ہوگئے کہ وہ حضرت عیسیٰ ؑ کی نبوت و رسالت کے معتقد ہیں، یہ دوسری بات ہے کہ صرف اتنا اعتقاد نجات آخرت کے لئے کافی نہیں، بلکہ نجات آخرت اس پر موقوف ہے کہ عیسیٰ ؑ کے تمام احکام پر اعتقاد و ایمان رکھے، اور حضرت عیسیٰ ؑ کے قطعی اور ضروری احکام میں سے ایک یہ بھی تھا کہ ان کے بعد خاتم الانبیاء ﷺ پر بھی ایمان لائیں، نصاری نے اس پر اعتقاد و ایمان اختیار نہ کیا، اس لئے نجات آخرت سے محروم رہے، مسلمانوں نے اس پر بھی عمل کیا، اس لئے نجات آخرت کے مستحق ہوگئے۔ لیکن دنیا میں یہودیوں پر غالب رہنے کا وعدہ صرف عیسیٰ ؑ کی نبوت پر موقوف تھا، وہ دنیا کا غلبہ نصاری اور مسلمانوں کو بمقابلہ یہود ہمیشہ حاصل رہا اور یقینا قیامت تک رہے گا۔
جب سے اللہ تعالیٰ نے یہ وعدہ فرمایا تھا اس وقت سے آج تک ہمیشہ مشاہدہ یہی ہوتا چلا آیا ہے کہ بمقابلہ یہود ہمیشہ نصاری اور مسلمان غالب رہے، انہیں کی حکومتیں دنیا میں قائم ہوئیں اور رہیں۔
اسرائیل کی موجودہ حکومت سے اس پر کوئی شبہ نہیں ہوسکتا
کیونکہ اول تو اس حکومت کی حقیقت اس کے سوا نہیں کہ وہ روس اور یورپ کے نصاری کی مشترکہ چھاؤ نی ہے جو انہوں نے مسلمانوں کے خلاف قائم کر رکھی ہے، ایک دن کے لئے بھی اگر حکومت روس و امریکہ و دیگر ممالک یورپ اپنا ہاتھ اس کے سر سے ہٹالیں تو دنیا کے نقشہ سے اس کا وجود مٹتا ہوا ساری دنیا مشاہدہ کرلے، اس لئے یہود یا اسرائیل کی یہ حکومت حقیقت شناس لوگوں کی نظر میں ایک مجاز تو ہوسکتا ہے اس سے زیادہ کوئی حقیقت نہیں اور بالفرض اس کو ان کی اپنی ہی حکومت تسلیم کرلیا جائے تو بھی نصاری اور اہل اسلام کے مجموعہ کے مقابلہ میں اس کے مغلوب و مقہور ہونے سے کون سا صحیح العقل انسان انکار کرسکتا ہے، اس سے بھی قطع نظر کرو تو قریب قیامت میں چند روزہ یہود کے غلبہ کی خبر تو خود اسلام کی متواتر روایات میں موجود ہے، اگر اس دنیا کو اب زیادہ باقی رہنا نہیں، اور قیامت قریب آچکی ہے تو اس کا ہونا بھی اسلامی روایات کے منافی نہیں اور ایسی چند روزہ شورش کو سلطنت یا حکومت نہیں کہہ سکتے۔
پانچواں وعدہقیامت کے روز ان مذہبی اختلافات کا فیصلہ فرمانے کا تو وہ وعدہ بھی اپنے وقت پر ضرور پورا ہوگا، جیسا کہ آیت میں ارشاد ہے (ثم الی مرجعکم فاحکم بینکم)۔
مسئلہ حیات و نزول عیسیٰ ؑ
دنیا میں صرف یہودیوں کا یہ کہنا ہے کہ عیسیٰ ؑ مقتول و مصلوب ہو کر دفن ہوگئے اور پھر زندہ نہیں ہوئے، اور ان کے اس خیال کی حقیقت قرآن کریم نے سورة نساء کی آیت میں واضح کردی ہے، اور اس آیت میں بھی (ومکروا ومکر اللہ) میں اس کی طرف اشارہ کردیا گیا ہے کہ حق تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ ؑ کے دشمنوں کے کید اور تدبیر کو خود انہی کی طرف لوٹا دیا کہ جو یہودی حضرت عیسیٰ ؑ کے قتل کے لئے مکان کے اندر گئے تھے، اللہ تعالیٰ نے انہی میں سے ایک شخص کی شکل و صورت تبدیل کر کے بالکل عیسیٰ ؑ کی صورت میں ڈھال دیا، اور حضرت عیسیٰ ؑ کو زندہ آسمان پر اٹھا لیا۔ آیت کے الفاظ یہ ہیں
(وما قتلوہ وماصلبوہ ولکن شبہ لھم۔ 4: 157) " نہ انہوں نے عیسیٰ ؑ کو قتل کیا نہ سولی چڑھایا لیکن تدبیر حق نے ان کو شبہ میں ڈال دیا (کہ اپنے ہی آدمی کو قتل کر کے خوش ہولئے) "۔ اس کی مزید تفصیل سورة نساء میں آئے گی۔
نصاری کا کہنا یہ تھا کہ عیسیٰ ؑ مقتول ومصلوب تو ہوگئے مگر پھر دوبارہ زندہ کر کے آسمان پر اٹھا لئے گئے، مذکورہ آیت نے ان کے اس غلط خیال کی بھی تردید کردی، اور بتلادیا کہ جیسے یہودی اپنے ہی آدمی کو قتل کر کے خوشیاں منا رہے تھے اس سے یہ دھوکہ عیسائیوں کو بھی لگ گیا کہ قتل ہونے والے عیسیٰ ؑ ہیں اس لئے شبہ لھم کے مصداق یہود کی طرح نصاری بھی ہوگئے۔ ان دونوں گروہوں کے بالمقابل اسلام کا وہ عقیدہ ہے جو اس آیت اور دوسری کئی آیتوں میں وضاحت سے بیان ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو یہودیوں کے ہاتھ سے نجات دینے کے لئے آسمان پر زندہ اٹھا لیا نہ ان کو قتل کیا جاسکا نہ سولی پر چڑھا یا جاسکا، وہ زندہ آسمان پر موجود ہیں اور قرب قیامت میں آسمان سے نازل ہو کر یہودیوں پر فتح پائیں گے اور آخر میں طبعی موت سے وفات پائیں گے۔ اسی عقیدہ پر تمام امت مسلمہ کا اجماع و اتفاق ہے، حافظ ابن حجر ؒ نے تلخیص الجیر صفحہ 319 میں یہ اجماع نقل کیا ہے۔ قرآن مجید کی متعدد آیات اور حدیث کی متواتر روایات سے یہ عقیدہ اور اس پر اجماع امت سے ثابت ہے، یہاں اس کی پوری تفصیل کا موقع بھی نہیں اور ضرورت نہیں، کیونکہ علماء امت نے اس مسئلہ کو مستقل کتابوں اور رسالوں میں پورا پورا واضح فرمادیا ہے، اور منکرین کے جوابات تفصیل سے دیئے ہیں، ان کا مطالعہ کافی ہے۔ مثلا حضرت حجۃ الاسلام مولانا سید محمد انور شاہ کشمیری ؒ کی تصنیف بزبان عربی عقیدۃ الاسلام فی حیات عیسیٰ ؑ ، حضرت مولانا بدر عالم صاحب مہاجر مدنی ؒ کی تصنیف بزبان اردو حیات عیسیٰ ؑ ، مولانا سید محمد ادریس صاحب ؒ کی تصنیف حیات مسیح ؑ ، اور بھی سینکڑوں چھوٹے بڑے رسائل اس مسئلہ پر مطبوع و مشتہر ہوچکے ہیں، احقر نے بامر استاذ محترم حضرت مولانا سید محمد انور شاہ صاحب کشمیری ؒ سو سے زائد احادیث جن سے حضرت عیسیٰ ؑ کا زندہ اٹھایا جانا اور پھر قرب قیامت میں نازل ہونا بتواتر ثابت ہوتا ہے ایک مستقل کتاب التصریح بما تواتر فی نزول المسیح میں جمع کردیا ہے، جس کو حال میں حواشی و شرح کے ساتھ حلب شام کے ایک بزرگ علامہ عبدالفتاح ابو غدہ ؒ نے بیروت میں چھپوا کر شائع کیا ہے۔
اور حافظ ابن کثیر ؒ نے سورة زخرف کی آیت وانہ لعلم للساعۃ (43: 61) کی تفسیر میں لکھا ہے(وقد تواترت الاحادیث عن رسول اللہ ﷺ انہ اخبر بنزول عیسیٰ ؑ قبل یوم القیامۃ اماما عادلا الخ۔) " یعنی رسول اللہ ﷺ کی احایث اس معاملے میں متواتر ہیں کہ آپ ﷺ نے حضرت عیسیٰ ؑ کے قبل قیامت نازل ہونے کی خبردی ہے "۔ حضرت عیسیٰ ؑ کے زندہ آسمان پر اٹھائے جانے اور زندہ رہنے پھر قرب قیامت میں نازل ہونے کا عقیدہ قرآن کریم کی نصوص قطعیہ اور احادیث متواترہ سے ثابت ہے جن کو علماء امت نے مستقل کتابوں، رسالوں کی صورت میں شائع کردیا ہے جن میں سے بعض کے نام اوپر درج ہیں، مسئلہ کی مکمل تحقیق کے لئے تو انہی کی طرف رجوع کرنا چاہئے۔
یہاں صرف ایک بات کی طرف توجہ دلاتا ہوں جس پر نظر کرنے سے ذرا بھی عقل و انصاف ہو تو اس مسئلہ میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں رہتی، وہ یہ ہے کہ سورة آل عمران کے چوتھے رکوع میں حق تعالیٰ نے انبیاء سابقین (علیہم السلام) کا ذکر فرمایا تو حضرت آدم، حضرت نوح، آل ابراہیم، آل عمران علیہم السلام۔ سب کا ذکر ایک ہی آیت میں اجمالا کرنے پر اکتفا فرمایا۔ اس کے بعد تقریبا تین رکوع اور بائیس آیتوں میں حضرت عیسیٰ ؑ اور ان کے خاندان کا ذکر اس بسط و تفصیل کے ساتھ کیا گیا کہ خود خاتم الانبیاء ﷺ جن پر قرآن نازل ہوا ان کا ذکر بھی اتنی تفصیل کے ساتھ نہیں آیا، حضرت عیسیٰ ؑ کی نانی کا ذکر، ان کی نذر کا بیان، والدہ کی پیدائش، ان کا نام، ان کی تربیت کا تفصیلی ذکر، حضرت عیسیٰ ؑ کا بطن مادر میں آنا، پھر ولادت کا مفصل حال، ولادت کے بعد ماں نے کیا کھایا پیا اس کا ذکر، اپنے خاندان میں بچے کو لے کر آنا، ان کے طعن وتشنیع، اولا ولادت میں ان کو بطور معجزہ گویائی عطا ہونا، پھر جوان ہونا اور قوم کو دعوت دینا، ان کی مخالفت، حواریین کی امداد، یہودیوں کا نرغہ، ان کو زندہ آسمان پر اٹھایا جانا وغیرہ۔ پھر احادیث متواترہ میں ان کی مزید صفات، شکل و صورت، ہیئت، لباس وغیرہ کی پوری تفصیلات، یہ ایسے حالات ہیں کہ پورے قرآن و حدیث میں کسی نبی و رسول کے حالات اس تفصیل سے بیان نہیں کئے گئے۔ یہ بات ہر انسان کو دعوت فکر دیتی ہے کہ ایسا کیوں اور کس حکمت سے ہوا۔
ذرا بھی غور کیا جائے تو بات صاف ہوجاتی ہے کہ حضرت خاتم الانبیاء ﷺ چونکہ آخری نبی و رسول ہیں کوئی دوسرا نبی آپ ﷺ کے بعد آنے والا نہیں، اس لئے آپ ﷺ نے اپنی تعلیمات میں اس کا بڑا اہتمام فرمایا کہ قیامت تک جو جو مراحل امت کو پیش آنے والے ہیں ان کے متعلق ہدایات دیدیں، اس لئے آپ ﷺ نے ایک طرف تو اس کا اہتمام فرمایا کہ آپ ﷺ کے بعد قابل اتباع کون لوگ ہوں گے، ان کا تذکرہ اصولی طور پر عام اوصاف کے ساتھ بھی بیان فرمایا، بہت سے حضرات کے نام متعین کر کے بھی امت کو ان کے اتباع کی تاکید فرمائی، اس کے بالمقابل ان گمراہ لوگوں کا بھی پتہ دیا جن سے امت کے دن کو خطرہ تھا۔
بعد کے آنے والے گمراہوں میں سب سے بڑا شخص مسیح دجال تھا، جس کا فتنہ گمراہ کن تھا اس کے اتنے حالات وصفات بیان فرمادیئے کہ اس کے آنے کے وقت امت کو اس کے گمراہ ہونے میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہ رہے، اسی طرح بعد کے آنے والے مصلحین اور قابل اقتداء بزرگوں میں سب سے زیادہ بڑے حضرت عیسیٰ ؑ ہیں، جن کو حق تعالیٰ نے نبوت و رسالت سے نوازا، اور فتنہ دجال میں امت مسلمہ کی امداد کے لئے ان کو آسمان میں زندہ رکھا اور قرب قیامت میں ان کو قتل دجال کے لئے مامور فرمایا، اس لئے ضرورت تھی کہ ان کے حالات وصفات بھی امت کو ایسے واشگاف بتلائے جائیں جن کے بعد نزول عیسیٰ ؑ کے وقت کسی انسان کو ان کے پہچاننے میں کوئی شک و شبہ نہ رہ جائے۔ اس میں بہت سی حکم و مصالح ہیں۔ اول یہ کہ اگر امت کو ان کے پہچاننے ہی میں اشکال پیش آیا تو ان کے نزول کا مقصد ہی فوت ہوجائے گا، امت مسلمہ ان کے ساتھ نہ لگے گی تو وہ امت کی امداد و نصرت کس طرح فرمائیں گے۔ دوسرے یہ کہ حضرت عیسیٰ ؑ اگرچہ اس وقت فرائض نبوت و رسالت پر مامور ہو کر دنیا میں نہ آئیں گے، بلکہ امت محمدیہ کی قیادت و امامت کے لئے بحیثیت خلیفہ رسول ﷺ تشریف لائیں گے۔ مگر ذاتی طور پر جو ان کو منصب نبوت و رسالت حاصل ہے اس سے معزول بھی نہ ہوں گے، بلکہ اس وقت ان کی مثال اس گورنر کی سی ہوگی جو اپنے صوبہ کا گورنر ہے، مگر کسی ضرورت سے دوسرے صوبہ میں چلا گیا ہے، تو وہ اگرچہ صوبے میں گورنر کی حیثیت پر نہیں مگر اپنے عہدہ گورنری سے معزول بھی نہیں، خلاصہ یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ ؑ اس وقت بھی صفت نبوت و رسالت سے الگ نہیں ہوں گے، اور جس طرح ان کی نبوت سے انکار پہلے کفر تھا اس وقت بھی کفر ہوگا، تو امت مسلمہ جو پہلے سے ان کی نبوت پر قرآنی ارشادات کی بناء پر ایمان لائے ہوئے ہے، اگر نزول کے وقت ان کو نہ پہچانے تو انکار میں مبتلا ہوجائے گی، اس لئے ان کی علامات وصفات کو بہت زیادہ واضح کرنے کی ضرورت تھی تیسرے یہ کہ نزول عیسیٰ ؑ کا واقعہ تو دنیا کی آخری عمر میں پیش آئے گا، اگر ان کی علامات و حالات مبہم ہوتے تو بہت ممکن ہے کہ کوئی دوسرا آدمی دعوی کر بیٹھے کہ میں مسیح عیسیٰ ابن مریم ہوں، ان علامات کے ذریعہ اس کی تردید کی جاسکے گی، جیسا کہ ہندوستان میں مرزا قادیانی نے دعوی کیا کہ میں مسیح موعود ہوں، اور علماء امت نے انہی علامات کی بناء پر اس کے قول کو رد کیا۔ خلاصہ یہ ہے کہ اس جگہ اور دوسرے مواقع میں حضرت عیسیٰ ؑ کے حالات وصفات کا اتنی تفصیل کے ساتھ بیان ہونا خود ان کے قرب قیامت میں نازل ہونے اور دوبارہ دنیا میں تشریف لانے ہی کی خبر دے رہا ہے۔ احقر نے اس مضمون کو پوری وضاحت کے ساتھ اپنے رسالہ مسیح موعود کی پہچان میں بیان کردیا ہے اس کو دیکھ لیا جائے۔
Top