Maarif-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 92
لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ١ؕ۬ وَ مَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَیْءٍ فَاِنَّ اللّٰهَ بِهٖ عَلِیْمٌ
لَنْ تَنَالُوا : تم ہرگز نہ پہنچو گے الْبِرَّ : نیکی حَتّٰى : جب تک تُنْفِقُوْا : تم خرچ کرو مِمَّا : اس سے جو تُحِبُّوْنَ : تم محبت رکھتے ہو وَمَا : اور جو تُنْفِقُوْا : تم خرچ کروگے مِنْ شَيْءٍ : سے (کوئی) چیز فَاِنَّ : تو بیشک اللّٰهَ : اللہ بِهٖ : اس کو عَلِيْمٌ : جاننے والا
ہرگز نہ حاصل کرسکو گے نیکی میں کمال جب تک نہ خرچ کرو اپنی پیاری چیز سے کچھ اور جو چیز خرچ کرو گے سو اللہ کو معلوم ہے۔
ربط آیات مع تشریح
اس سے پہلی آیت میں کفار و منکرین کے صدقات و خیرات کا اللہ تعالیٰ کے نزدیک غیر مقبول ہونا بیان کیا گیا تھا، اس آیت میں مومنین کو صدقہ مقبولہ اور اس کے آداب بتلائے گئے ہیں، اس آیت کے الفاظ میں سب سے پہلے لفظ بر کے معنی اور اس کی حقیقت کو سمجھئے، تاکہ آیت کا پورا مفہوم صحیح طور پر ذہن نشین ہوسکے۔
لفظ بر کے لفظی اور حقیقی معنی ہیں کسی شخص کے حق کی پوری ادائیگی اور اس سے کامل سبکدوشی اور احسان اور حسن سلوک کے معنی میں بھی آتا ہے، بر بالفتح اور بار اس شخص کے لئے استعمال ہوتا ہے جو اپنے ذمہ عائد ہونے والے حقوق کو پوری طرح ادا کردے۔ قرآن کریم میں برا بوالدتی۔ 19: 32) اور برا بوالدیہ۔ 19: 14) اسی معنی میں استعمال ہوا ہے، ان حضرات کے لئے یہ لفظ استعمال کیا گیا ہے جو اپنے والدین کے حقوق کو مکمل طور پر ادا کرنے والے تھے۔
اسی لفظ بر بالفتح کی جمع ابرار ہے، جو قرآن کریم میں بکثرت استعمال ہوئی ہے، ارشاد ہے (ان الابرار یشربون من کاس کان مزاجھا کافورا۔ 76: 5) اور دوسری جگہ ارشاد ہے (ان الابرار لفی نعیم علی الارائک ینظرون۔ 83: 22، 23) اور ایک جگہ ارشاد ہے (ان الابرار لفی نعیم وان الفجار لفی جحیم۔ 82: 13، 14) اس آخری آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ " بر " کا مقابل اور ضد " فجور " ہے۔
امام بخاری ؒ کے ادب المفرد میں اور ابن ماجہ اور مسند احمد میں حضرت صدیق اکبر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ سچ بولنے کو لازم پکڑو، کیونکہ " صدق "، " بر " کا ساتھی ہے، اور وہ دونوں جنت میں ہیں، اور جھوٹ سے بچو، کیونکہ وہ فجور کا ساتھی ہے، اور یہ دونوں دوزخ میں ہیں۔
اور سورة بقرہ کی آیت میں مذکور ہے کہ (لیس البر ان تولوا وجوھکم قبل المشرق والمغرب ولکن البر من امن باللہ والیوم الاخر۔ 2: 177) اس آیت میں نیک اعمال کی ایک فہرست دے کر ان سب کو " بر " فرمایا گیا ہے، مذکورہ آیت سے معلوم ہوا کہ اعمال بر میں افضل ترین بر یہ ہے کہ اپنی محبوب چیز اللہ کی راہ میں خرچ کی جائے، آیت مذکورہ میں ارشاد ہے کہ تم ہرگز " بر " کو حاصل نہیں کرسکتے جب تک اپنی پیاری چیزوں میں سے کچھ خرچ نہ کرو، تو معنی یہ ہوئے کہ اللہ تعالیٰ کے حق کی مکمل ادائیگی اور اس سے پوری سبکدوشی اس وقت تک نہیں ہوسکتی جب تک اپنی محبوب اور پیاری چیزوں سے اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ نہ کریں، اسی مکمل ادائیگی کو خیرکامل یا نیکی میں کمال ثواب عظیم سے ترجمہ کیا گیا ہے، اور مراد یہ ہے کہ ابرار کی صفت میں داخل ہونا اس پر موقوف ہے کہ اپنی محبوب چیزیں اللہ کی راہ میں قربان کی جائیں۔
خلاصہ تفسیر
(اے مسلمانو) تم خیر کامل (یعنی اعظم ثواب) کو کبھی حاصل نہ کرسکو گے یہاں تک کہ اپنی (بہت) پیاری چیز کو (اللہ کی راہ میں) خرچ نہ کرو گے اور (یوں) جو کچھ بھی خرچ کرو گے (گو غیر محبوب چیز ہو) اللہ تعالیٰ اس کو خوب جانتے ہیں (مطلق ثواب اس پر بھی دیدیں گے، لیکن کمال ثواب حاصل کرنے کا وہی طریقہ ہے)
معارف و مسائل
آیت مذکورہ اور صحابہ کرام ؓ کا جذبہ عمل
صحابہ کرام ؓ جو قرآنی احکام کے اولین مخاطب اور رسول کریم ﷺ کے بلا واسطہ شاگرد اور احکام قرآنی کی تعمیل کے عاشق تھے، اس آیت کے نازل ہونے پر ایک ایک نے اپنی محبوب چیزوں پر نظر ڈالی، اور ان کو اللہ کی راہ میں خڑچ کرنے کے لئے آنحضرت ﷺ کے سامنے درخواستیں ہونے لگیں، انصار مدینہ میں سب سے زیادہ مالدار حضرت ابو طلحہ ؓ تھے، مسجد نبوی کے بالکل مقابل اور متصل ان کا باغ تھا، جس میں ایک کنواں بیر حاء کے نام سے موسوم تھا، اب اس باغ کی جگہ تو باب مجیدی کے سامنے اصطفا منزل کے نام سے ایک عمارت بنی ہوئی ہے جس میں زائرین مدینہ قیام کرتے ہیں، مگر اس کے شمال مشرق کے گوشے میں یہ بیر حاء اسی نام سے اب تک موجود ہے۔ رسول کریم ﷺ کبھی کبھی اس باغ میں تشریف لے جاتے اور بیرحاء کا پانی پیتے تھے، آپ ﷺ کو اس کنویں کا پانی پسند تھا، حضرت طلحہ ؓ کا یہ باغ بڑا قیمتی اور زرخیز اور ان کو اپنی جائیداد میں سب سے زیادہ محبوب تھا، اس آیت کے نازل ہونے پر وہ حضرت رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ میرے تمام اموال میں بیر حاء مجھے سب سے زیادہ محبوب ہے، میں اس کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنا چاہتا ہوں، آپ جس کام میں پسند فرمائیں اس کو صرف فرماویں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ وہ تو عظیم الشان منافع کا باغ ہے، میں مناسب یہ سمجھتا ہوں کہ اس کو آپ اپنے اقرباء میں تقسیم کردیں، حضرت ابو طلحہ ؓ نے آنحضرت ﷺ کے اس مشورہ کو قبول فرماکر اپنے اقرباء اور چچازاد بھائیوں میں تقسیم فرمادیا۔ (یہ حدیث بخاری و مسلم کی ہے) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ خیرات صرف وہ نہیں جو عام فقراء اور مساکین پر صرف کی جائے، اپنے اہل و عیال اور عزیز و رشتہ داروں کو دینا بھی بڑی خیرات اور موجب ثواب ہے۔
حضرت زید بن حارثہ ؓ اپنا ایک گھوڑا لئے ہوئے حاضر خدمت ہوئے، اور عرض کیا کہ مجھے اپنی املاک میں یہ سب سے زیادہ محبوب ہے میں اس کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنا چاہتا ہوں، آپ ﷺ نے اس کو قبول فرمالیا، لیکن ان سے لے کر انہی کے صاحبزادے اسامہ ؓ کو دیدیا، زید بن حارثہ ؓ اس پر کچھ دلگیر ہوئے کہ میرا صدقہ میرے ہی گھر میں واپس آگیا، لیکن آنحضرت ﷺ نے ان کی تسلی کے لئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارا یہ صدقہ قبول کرلیا ہے۔ (تفسیر مظہری، بحوالہ ابن جریر و طبری وغیرہ)
حضرت فاروق اعظم ؓ کے پاس ایک کنیز سب سے زیادہ محبوب تھی، آپ نے اس کو لوجہ اللہ آزاد کردیا۔ الغرض آیت متذکرہ کا حاصل یہ ہے کہ حق اللہ کی مکمل ادائیگی اور خیر کامل اور نیکی کا کمال جب ہی حاصل ہوسکتا ہے جب کہ آدمی اپنی محبوب چیزوں میں سے کچھ اللہ کی راہ میں خرچ کرے، آیت مذکورہ میں چند مسائل قابل نظر اور یاد رکھنے کے قابل ہیں۔ اس آیت میں لفظ بر تمام صدقات واجبہ اور نفلیہ کو شامل ہےاول یہ کہ اس آیت میں اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی ترغیب ہے اس سے مراد بعض حضرات مفسرین کے نزدیک صدقات واجبہ زکوٰۃ وغیرہ ہیں، اور بعض کے نزدیک صدقات نافلہ ہیں، لیکن جمہور محققین نے اس کے مفہوم کو صدقات واجبہ اور نفلیہ دونوں میں عام قرار دیا ہے، اور صحابہ کرام ؓ کے واقعات متذکرہ بالا اس پر شاہد ہیں کہ ان کے یہ صدقات، صدقات نفلیہ تھے۔ اس لئے مفہوم آیت کا یہ ہوگیا کہ اللہ کی راہ میں جو صدقہ بھی ادا کرو خواہ زکوٰۃ فرض ہو یا کوئی نفلی صدقہ و خیرات ان سب میں مکمل فضیلت اور ثواب جب ہے کہ اپنی محبوب اور پیاری چیز کو اللہ کی راہ میں خرچ کرو، یہ نہیں کہ صدقہ کو تاوان کی طرح سر سے ٹالنے کے لئے فالتو، بیکار، یا خراب چیزوں کا انتخاب کرو۔ قرآن کریم کی دوسری ایک آیت میں اس مضمون کو اور زیادہ واضح اس طرح بیان فرمایا گیا ہے
(یایھا الذین امنوا انفقوا من طیبت ما کسبتم ومما اخرجنا لکم من الارض و لا تیمموا الخبیث منہ تنفقون ولستم باخذیہ الا ان تغمضوا فیہ۔ 2: 268) " یعنی اے ایمان والو اپنی کمائی میں سے اور جو کچھ ہم نے تمہارے لئے زمین سے نکالا ہے اس میں سے عمدہ چیزوں کو چھانٹ کر اس میں سے خرچ کرو اور ردی چیز کی طرف نیت مت لے جایا کرو کہ اس میں سے خرچ کردو حالانکہ دو چیزیں اگر تمہارے حق کے بدلے میں تمہیں دی جائیں تو تم ہرگز قبول نہ کرو گے، بجز اس کے کہ کسی وجہ سے چشم پوشی کر جاؤ "۔
اس کا حاصل یہ ہوا کہ خراب اور بےکار چیزوں کا انتخاب کر کے صدقہ کرنا مقبول نہیں، بلکہ صدقہ مقبولہ جس پر مکمل ثواب ملتا ہے وہی ہے جو محبوب اور پیاری چیزوں میں سے خرچ کیا جائے۔
صدقہ کرنے میں اعتدال چاہئے
دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ آیت میں لفظ مما سے اشارہ کردیا گیا ہے کہ یہ مقصود نہیں ہے کہ جتنی چیزیں اپنے نزدیک محبوب اور پیاری ہیں ان سب کو اللہ کی راہ میں خرچ کردیا جائے، بلکہ مقصود یہ ہے کہ جتنا بھی خرچ کرنا ہے اس میں اچھی اور پیاری چیز دیکھ کر خرچ کریں تو مکمل ثواب کے مستحق ہوں گے۔
تیسرا مسئلہ یہ کہ محبوب چیز خرچ کرنا صرف اسی کا نام نہیں کہ کوئی بڑی قیمت کی چیز خرچ کی جائے، بلکہ جو چیز کسی کے نزدیک عزیز اور محبوب ہے، خواہ کتنی ہی قلیل اور قیمت کے اعتبار سے کم ہو، اس کے خرچ کرنے سے بھی اس " بر " کا مستحق ہوجائے گا، حضرت حسن بصری ؒ نے فرمایا کہ جو چیز آدمی اخلاص کے ساتھ اللہ کی رضا کے لئے خرچ کرے وہ اگرچہ کھجور کا ایک دانہ بھی ہو اس سے بھی انسان اس ثواب عظیم اور بر کامل کا مستحق ہوجاتا ہے جس کا آیت میں وعدہ کیا گیا ہے۔ چوتھا مسئلہ یہ ہے کہ اس آیت سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس میں جس خیر عظیم اور بر کا ذکر ہے اس سے وہ غریب لوگ محروم رہیں گے جن کے پاس خرچ کرنے کے لئے مال نہیں، کیونکہ آیت میں یہ فرمایا گیا ہے کہ یہ خیر عظیم بغیر محبوب مال خرچ کئے حاصل نہیں کی جاسکتی، اور فقراء و مساکین کے پاس مال ہی نہیں جس کے ذریعہ ان کی یہاں تک رسائی ہو، لیکن غور کیا جائے تو آیت کا یہ مقصد پورا نہیں ہوسکتا، بلکہ بات یہ ہے کہ یہ خیر عظیم کسی دوسرے ذریعہ سے مثلا عبادت، ذکر اللہ، تلاوت قرآن، کثرت نوافل سے بھی حاصل کی جاسکتی ہے۔ اس لئے فقراء و غرباء کو بھی یہ خیر عظیم دوسرے ذرائع سے حاصل ہوسکتی ہے، جیسا کہ بعض روایات حدیث میں صراحۃ بھی یہ مضمون آیا ہے۔
مال محبوب سے کیا مراد ہے
پانچواں مسئلہ یہ ہے کہ مال کے محبوب ہونے سے کیا مراد ہے ؟ قرآن کی دوسری آیت سے معلوم ہوا کہ محبوب ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ چیز اس کے کام میں آرہی ہو اور اس کو اس چیز کی حاجت ہو، فالتو اور بیکار نہ ہو، قرآن کریم کا ارشاد ہے(ویطعمون الطعام علی حبہ مسکینا۔ 76: 8) " یعنی اللہ کے مقبول بندے وہ ہیں جو حاجت مندوں کو کھانا کھلاتے ہیں، باوجود اس کے کہ اس کھانے کی خود ان کو بھی ضرورت ہے "۔
اسی طرح دوسری آیت میں اسی مضمون کی اور زیادہ وضاحت اس طرح فرمائی(ویوثرون علی انفسھم ولوکان بھم خصاصۃ۔ 59: 9) " یعنی اللہ کے مقبول بندے اپنے اوپر دوسروں کو مقدم رکھتے ہیں اگرچہ خود بھی حاجت مند ہوں "۔
فالتو سامان اور حاجت سے زائد چیزیں اللہ کی راہ میں خرچ کرنا بھی ثواب سے خالی نہیںچھٹا مسئلہ یہ ہے کہ آیت میں یہ بتلایا گیا ہے کہ خیر کامل اور ثواب عظیم اور وصف ابرار میں داخلہ اس پر موقوف ہے کہ اپنی محبوب چیز اللہ کی راہ میں خرچ کریں، مگر اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ ضرورت سے زائد فالتو مال خرچ کرنے والے کو کوئی ثواب ہی نہ ملے، بلکہ آیت کے آخر میں جو یہ ارشاد ہے (وما تنفقوا من شیء فان اللہ بہ علیم) " یعنی تم جو کچھ مال خرچ کرو گے اللہ تعالیٰ اس سے باخبر ہے "۔ آیت کے اس جملہ کا مفہوم یہ ہے کہ اگرچہ خیر کامل اور صف ابرار میں داخلہ خاص محبوب چیز خرچ کرنے پر موقوف ہے، لیکن مطلق ثواب سے کوئی صدقہ خالی نہیں، خواہ محبوب چیز خرچ کریں یا زائد اور فالتو اشیاء۔ ہاں مگر وہ اور ممنوع یہ ہے کہ کوئی آدمی اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے لئے یہی طریقہ اختیار کرلے کہ جب خرچ کرے فالتو اور خراب چیز ہی کا انتخاب کر کے خرچ کیا کرے، لیکن جو شخص صدقہ خیرات میں اپنی محبوب اور عمدہ چیزیں بھی خرچ کرتا ہے، اور اپنی ضرورت سے زائد چیزیں، بچا ہوا کھانا یا پرانے کپڑے، عیب دار برتن یا استعمالی چیزیں بھی خیرات میں دیدیتا ہے، وہ ان چیزوں کا صدقہ کرنے سے کسی گناہ کا مرتکب نہیں بلکہ اس کو ان پر بھی ضرور ثواب ملے گا، اور محبوب چیزوں کے خرچ کرنے پر اس کو خیر عظیم بھی حاصل ہوگی، اور صف ابرار میں اس کا داخلہ بھی ہوگا۔
آیت کے اس آخری جملہ میں یہ بھی بتلایا گیا ہے کہ آدمی جو کچھ خرچ کرتا ہے اس کی اصلی حقیقت اللہ پر روشن ہے کہ وہ اس کے نزدیک محبوب ہے یا نہیں۔ اور اخلاص کے ساتھ اللہ کی رضا کے لئے خرچ کر رہا ہے یا ریا وشہرت کے لئے، محض کسی کا زبانی دعوے اس کے لئے کافی نہیں کہ میں اپنی محبوب چیز کو اللہ کے لئے خرچ کر رہا ہوں، بلکہ علیم وخبیر جو دل کے پوشیدہ رازوں سے واقف ہے، دیکھ رہا ہے کہ واقع میں اس کے لئے خرچ کا کیا درجہ ہے۔
Top