Maarif-ul-Quran - An-Nisaa : 27
وَ مَاۤ اَنْزَلْنَا عَلٰى قَوْمِهٖ مِنْۢ بَعْدِهٖ مِنْ جُنْدٍ مِّنَ السَّمَآءِ وَ مَا كُنَّا مُنْزِلِیْنَ
وَمَآ اَنْزَلْنَا : اور نہیں اتارا عَلٰي : پر قَوْمِهٖ : اس کی قوم مِنْۢ بَعْدِهٖ : اس کے بعد مِنْ جُنْدٍ : کوئی لشکر مِّنَ : سے السَّمَآءِ : آسمان وَمَا كُنَّا : اور نہ تھے ہم مُنْزِلِيْنَ : اتارنے والے
اور نہیں اتاری ہم نے اس کو قوم پر اس کے پیچھے کوئی فوج آسمان سے اور ہم (فوج) نہیں اتارا کرتے
وما انزلنا علیٰ قومہ من بعدہ من جند من السماء وما کنا منزلین، ان کانت الا صیحة واحدة فاذا ھم خامدون، یہ اس قوم پر آسمانی عذاب کا ذکر ہے جس نے رسولوں کی تکذیب کی اور حبیب نجار کو مار مار کر شہید کردیا تھا۔ اور عذاب کی تمہید میں یہ فرمایا کہ اس قوم کو عذاب میں پکڑنے کے لئے ہمیں آسمان سے کوئی فرشتوں کا لشکر بھیجنا نہیں پڑا اور نہ ایسا لشکر بھیجنا ہمارا دستور ہے۔ کیونکہ اللہ کا تو ایک ہی فرشتہ بڑی بڑی قوی بہادر قوموں کو تباہ کرنے کے لئے کافی ہے، اس کو فرشتوں کا لشکر بھیجنے کی کیا ضرورت ہے۔ پھر ان پر آنے والے عذاب کو بیان فرمایا کہ بس اتنا ہوا کہ فرشتے نے ایک زور کی آواز لگائی جس سے یہ سب کے سب ٹھنڈے ہو کر رہ گئے۔
روایات میں ہے کہ جبرئیل امین نے شہر کے دروازے کے دونوں بازو پکڑ کر ایک سخت ہیبت ناک آواز لگائی جس کے صدمہ کو کسی کی روح برداشت نہ کرسکی سب کے سب مرے رہ گئے۔ ان کے مر جانے کو قرآن نے خامدون کے لفظ سے تعبیر کیا ہے۔ خمود آگ بجھ جانے کے معنی میں آتا ہے، جاندار کی حیات حرارت غریزی پر موقوف ہے، جب یہ حرارت ختم ہوجائے تو اسی کا نام موت ہے۔ خامدون یعنی بجھنے والے ٹھنڈے ہوجانے والے۔
Top