Maarif-ul-Quran - An-Nisaa : 138
بَشِّرِ الْمُنٰفِقِیْنَ بِاَنَّ لَهُمْ عَذَابًا اَلِیْمَاۙ
بَشِّرِ : خوشخبری دیں الْمُنٰفِقِيْنَ : منافق (جمع) بِاَنَّ : کہ لَھُمْ : ان کے لیے عَذَابًا اَلِيْمَۨا : دردناک عذاب
خوش خبری سنا دے منافقوں کو کہ ان کے واسطے ہے عذاب دردناک،
خلاصہ تفسیر
منافقین کو خوش خبری سنا دیجئے اس امر کی کہ ان کے واسطے (اخرت میں) بڑی درد ناک سزا (تجویز کی گئی) جن کی یہ حالت ہے کہ (عقائد تو اہل ایمان کے نہ رکھتے تھے مگر وضع بھی اہل ایمان کی نہ رکھ سکے چنانچہ) کافروں کو دوست بناتے ہیں مسلمانوں کو چھوڑ کر کیا ان کے پاس (جا کر) عزت حاصل کرنا چاہتے ہیں سو (خوب سمجھ لو کہ) عزت تو ساری اللہ تعالیٰ کے قبضہ میں ہے (وہ جس کو چاہیں دیں، پس اگر اللہ تعالیٰ ان کو یا جن سے جاجا کر دوستی کرتے ہیں ان کو عزت نہ دیں تو کہاں سے معزز بن جاویں گے) اور (اے مسلمانودیکھو تم منافقین کی طرح کفار کے ساتھ خصوصیت مت رکھنا خاص کر جس وقت وہ کفریات کا تذکرہ کرتے ہوئے چناچہ اس سورة مدینہ کے قبل بھی) اللہ تعالیٰ تمہارے پاس یہ فرمان (سورة انعام (آیت نمبر 86) میں جو مکیہ ہے) بھیج چکا ہے (جس کا حاصل یہ ہے کہ جب (کسی مجمع میں) احکام الہیہ کے ساتھ استہزاء اور کفر ہوتا ہوا سنو تو ان لوگوں کے پاس مت بیٹھو جب تک کہ وہ کوئی اور بات شروع نہ کریں (اور یہ مضمون اس آیت کا حاصل ہے واذا رایت الذین یخوضون الخ سو یہ استہزاء کرنے والے مکہ میں مشرکین تھے اور مدینہ میں یہود تو علانیہ اور منافقین صرف غرباء، وضعفاء مسلمین کے روبرو پس جس طرح وہاں مشرکین کی مجالست ایسے وقت میں ممنوع تھی یہاں یہود اور منافقین کی مجالست سے نہی ہے اور یہ ممانعت ہم اس لئے کرتے ہیں) کہ اس حالت میں تم بھی (گناہ میں) انہی جیسے ہوجاؤ گے (گو دونوں کی نوعیت میں فرق ہو کہ ایک گناہ کفر کا ہے دوسرا فسق کا اور اس ممانعت مجالست میں کفار اور منافقین سب برابر ہیں، کیونکہ علت اس کی خوض فی الکفر یعنی کفر کی باتوں کا تذکرہ اور اس خوض کا منشاء کفر ہے، اور اس میں دونوں برابر ہیں، چناچہ سزائے کفر یعنی دوزخ کا ایندھن ہونے میں بھی دونوں برابر ہوں گے، کیونکہ) یقینا اللہ تعالیٰ منافقوں کو اور کافروں کو سب کو دوزخ میں جمع کردیں گے (اور) وہ (منافقین) ایسے ہیں کہ تم پر افتاد پڑنے کے منتظر (اور آرزو مند) رہتے ہیں پھر (ان کے اس انتظار کے بعد) اگر تمہاری فتح منجانب اللہ ہوگئی تو (تم سے آ کر) باتیں بناتے ہیں کہ کیا ہم تمہارے ساتھ (جہاد میں شریک) نہ تھے (کیونکہ نام و نمود کو تو مسلمانوں میں گھسے ہی رہتے تھے، مطلب یہ کہ ہم کو بھی غنیمت کا حصہ دو) اور اور اگر کافروں کو (غلبہ کا) کچھ حصہ مل گیا (یعنی وہ اتفاق سے غالب آئے) تو (ان سے جا کر) باتیں بناتے ہیں کہ کیا ہم تم پر غالب نہ آنے لگے تھے (مگر ہم نے قصداً تمہارے اور غالب کرنے کے لئے مسلمانوں کی مدد نہ کی اور ایسی تدبیر کی کہ لڑائی بگڑ گئی) اور کیا ہم نے (جب تم مغلوب ہونے لگے تھے) تم کو مسلمانوں سے بچا نہیں لیا (اس طرح کہ ان کی مدد نہ کی، اور تدبیر سے لڑائی بگاڑ دی، مطلب یہ کہ ہمارا احسان مانو اور جو کچھ تمہارے ہاتھ آیا ہے ہم کو بھی کچھ حصہ دلواؤ، غرض دونوں طرف سے ہاتھ مارتے ہیں) سو (دنیا میں گو اظہار اسلام کی برکت سے مسلمانوں کی طرح زندگی بسر کر رہے ہیں لیکن) اللہ تعالیٰ تمہارا اور ان کا قیامت میں (عملی) فیصلہ فرما دیں گے اور (اس فیصلہ میں) ہرگز اللہ تعالیٰ کافروں کو مسلمانوں کے مقابلہ میں غالب نہ فرمائیں گے (بلکہ کفار مجرم قرار پا کر دوزخ میں جاویں گے اور مسلمان اہل حق ثابت ہو کر جنت میں جائیں گے اور فیصلہ عملی یہی ہے)
معارف و مسائل
پہلی آیت میں منافقین کے لئے درد ناک عذاب کی خبر دی گئی ہے اور اس رنج دہ خبر کو لفظ بشارت سے تعبیر کر کے اس طرف اشارہ فرما دیا گیا کہ ہر انسان اپنے مستقبل کے لئے خوشخبری سننے کا منتظر رہا کرتا ہے، مگر منفاقین کے لئے اس کے سوا کئی خبر نہیں، ان کے لئے بشارت کے عوض میں یہی خبر ہے۔
Top