Ruh-ul-Quran - An-Nisaa : 138
بَشِّرِ الْمُنٰفِقِیْنَ بِاَنَّ لَهُمْ عَذَابًا اَلِیْمَاۙ
بَشِّرِ : خوشخبری دیں الْمُنٰفِقِيْنَ : منافق (جمع) بِاَنَّ : کہ لَھُمْ : ان کے لیے عَذَابًا اَلِيْمَۨا : دردناک عذاب
منافقوں کو مژدہ سنائو کہ ان کے لیے ایک دردناک عذاب ہے
بَشِّرِالْمُنٰفِقِیْنَ بِاَنَّ لَہُمْ عَذَابًا اَلِیْمَانِ لا الَّذِیْنَ یَتَّخِذُوْنَ الْکٰفِرِیْنَ اَوْلِیَآئَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ ط اَیَبْتَغُوْنَ عِنْدَہُمُ الْعِزَّۃَ فَاِنَّ الْعِزَّۃَ لِلّٰہِ جَمِیْعًا ط وَقَدْ نَزَّلَ عَلَیْکُمْ فِی الْکِتٰبِ اَنْ اِذَا سَمِعْتُمْ اٰیٰتِ اللّٰہِ یُکْفَرُبِہَا وَ یُسْتَہْزَأُ بِہَا فَلَا تَقْعُدُوْا مَعَہُمْ حَتّٰی یَخُوْضُوْا فِیْ حَدِیْثٍ غَیْرِہٖٓ صلے ز اِنَّکُمْ اِذًا مِّثْلُہُمْ ط اِنَّ اللّٰہَ جَامِعُ الْمُنٰفِقِیْنَ وَالْکٰفِرِیْنَ فِیْ جَہَنَّمَ جَمِیْعَانِ لا الَّذِیْنَ یَتَرَبَّصُوْنَ بِکُمْ ج فَاِنْ کَانَ لَکُمْ فَتْحٌ مِّنَ اللّٰہِ قَالُوْٓا اَلَمْ نَکُنْ مَّعَکُمْ صلے ز وَاِنْ کَانَ لِلْکٰفِرِیْنَ نَصِیْبٌ لا قَالُوْٓا اَلَمْ نَسْتَحْوِذْ عَلَیْکُمْ وَ نَمْنَعْکُمْ مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ ط فَاللّٰہُ یَحْکُمُ بَیْنَکُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ ط وَلَنْ یَجْعَلَ اللّٰہُ لِلْکٰفِرِیْنَ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ سَبِیْلاً ع ” منافقوں کو مژدہ سنائو کہ ان کے لیے ایک دردناک عذاب ہے جو کافروں کو دوست بناتے ہیں مسلمانوں کے مقابلے میں۔ یا وہ تلاش کرتے ہیں ان کے پاس عزت ؟ تو بیشک عزت سب کی سب اللہ کے لیے ہے۔ اللہ نازل کرچکا ہے تم پر کتاب میں یہ حکم کہ جب تم سنو اللہ کی آیتوں کے خلاف کفر بکا جا رہا ہے اور ان کا مذاق اڑایا جا رہا ہے تو مت بیٹھو ان لوگوں کے ساتھ یہاں تک کہ وہ کسی دوسری بات میں مشغول ہوجائیں۔ ورنہ تم بھی انہی کی طرح ہو گے۔ بیشک اللہ تعالیٰ اکٹھا کرنے والا ہے سب منافقوں اور سب کافروں کو جہنم میں۔ وہ منافق جو انتظار کر رہے ہیں تمہارے لیے گردشوں کا۔ اگر تمہیں اللہ کی طرف سے فتح حاصل ہوتی ہے تو کہتے ہیں کیا ہم تمہارے ساتھ نہ تھے ؟ اور کافروں کو کوئی جیت ہوجائے تو کہتے ہیں کیا ہم تم پر چھائے نہیں رہے اور ہم نے مسلمانوں سے تم کو بچایا نہیں ؟ تو اللہ ہی فیصلہ کرے گا تمہارے درمیان قیامت کے دن اور اللہ کافروں کو مومنوں پر کوئی راہ نہیں دے گا۔ “ (النسآء : 138 تا 141) گزشتہ آیات کریمہ میں جن لوگوں پر تنقید کی گئی اور جنھیں حقیقی ایمان لانے کی دعوت دی گئی پیش نظر آیت کریمہ نے واضح کردیا کہ مراد اس سے منافقین ہیں۔ ان کے بارے میں فرمایا کہ اللہ نے ان کے لیے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔ اس کے بعد ان کی علامتیں بیان فرمائی ہیں۔ ہم آج کسی کے بارے میں ختمی طور پر نہیں کہہ سکتے کہ وہ منافق ہے۔ لیکن ان علامتوں کے ذکر نے منافقین کی پہچان آسان کردی ہے۔ ہم کسی پر منافق ہونے کا فتویٰ نہ بھی دیں جب بھی مسلمان ایسے منافقین کو پہچان کر اپنی صفوں کو درست کرسکتے ہیں۔ اور اجتماعی پالیسیاں بناتے ہوئے اور قومی معاملات کا فیصلہ کرتے ہوئے ایسے لوگوں کے بارے میں ہوشیار اور چوکنا رہ سکتے ہیں۔ جب تک وہ مسلمانوں کے مشترکہ مطالبات کا ساتھ دیں تو انھیں ساتھ لیا جائے لیکن نہایت بیدار مغزی سے ان کی ایک ایک حرکت کا مطالعہ کیا جائے۔ بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایسے ہوشیار منافق ساتھ چلتے چلتے مسلمانوں کی سادگی سے اس طرح فائدہ اٹھاتے ہیں کہ اندازہ ہی نہیں ہو پاتا کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ کیا ہاتھ کر گئے ؟ اور کچھ نہیں تو مسلمانوں کے باہمی فیصلوں اور ان کے اندر کے احساسات سے باخبر ہو کر دشمن کو اپنے دفاعی اقدامات کرنے میں مدد بہم پہنچاتے ہیں۔ منافقین کی پہلی علامت سب سے پہلی علامت یہ بیان فرمائی گئی کہ تم ایسے منافقین کو دیکھو گے جن کا رجحان اور جن کی دوستیاں مسلمانوں کے مقابلے میں کافروں یعنی مسلمانوں کے دشمنوں سے ہوتی ہیں۔ جب بھی انھیں موقع ملتا ہے یہ ان کی صحبتوں میں شریک ہوتے ہیں ‘ بہانے بہانے سے ان سے راہ و رسم پیدا کرتے ہیں۔ آنحضرت ﷺ کے ہمعصر منافقین زیادہ تر یہود سے تعلقات رکھنے اور بڑھانے کی کوشش کرتے تھے۔ عبداللہ بن ابی ٔ نے تو ایک دفعہ صاف کہہ بھی دیا کہ ہم یہود سے تعلقات توڑ کر کسی مصیبت کا شکار نہیں ہونا چاہتے۔ کیونکہ ابھی یہ بات واضح نہیں ہے کہ حق و باطل کی اس کشمکش میں اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ ممکن ہے مسلمانوں کو غلبہ مل جائے اور ممکن ہے یہود یا مشرکین ان پر غالب آجائیں تو ہم صرف مسلمانوں کے ساتھ نتھی ہو کر اپنا مستقبل مخدوش نہیں بنانا چاہتے۔ بلکہ اس آیت کریمہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ منافقین بظاہر اللہ اور رسول پر ایمان کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن کافروں کی ایسی مجالس میں شریک ہوتے ہیں جہاں اللہ کی آیات کے خلاف بکواس کی جاتی ہے اور اللہ کے دین کا تمسخر اڑایا جاتا ہے۔ اور یہ ان کے پاس صرف اس لیے جاتے ہیں کہ ان کے ساتھ راہ و رسم کو اپنے لیے عزت کی علامت سمجھتے ہیں۔ وہ چونکہ مدینہ اور اطرافِ مدینہ میں اپنی ایک حیثیت اور ایک اثر رکھتے ہیں۔ اس لیے یہ اپنے آپ کو ان سے وابستہ رکھ کر یہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے بڑے لوگوں کی پناہ لے رکھی ہے۔ عربی زبان میں ” عزۃ “ کا لفظ ذلت کے متضاد کے طور پر ہی استعمال نہیں ہوتا ‘ بلکہ اس میں عزت کا مفہوم کسی شخص کو ایسی حیثیت کا مالک سمجھنا ہے جب کہ کوئی اس کا کچھ نہ بگاڑ سکے۔ منافقین یہ سمجھتے تھے کہ ہمیں یہ تحفظ انہی کے ساتھ رہ کر حاصل ہوسکتا ہے۔ پروردگار فرماتے ہیں کہ اگر یہ واقعی مومن ہیں تو انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ عزت ‘ دبدبہ اور غلبہ سراسر اللہ کی ذات کے لیے ہے۔ یہ دولت جسے بھی ملتی ہے اسی کی عطا سے ملتی ہے۔ اور مزید فرمایا کہ ہم اس سے پہلے سورة الانعام کی آیت نمبر 68 میں یہ حکم نازل کرچکے ہیں کہ ایمان کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ آدمی کا جذباتی رشتہ بھی اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے ساتھ جڑ جائے۔ اس کی حمیت و غیرت کبھی گوارا نہ کرے کہ کوئی اللہ اور اس کے رسول ﷺ اور اس کے دین سے متعلق نازیبا بات کہنے کی جرأت کرسکے۔ اور اگر کوئی ایسی حرکت کرے تو اگر طاقت میسر ہو تو کہنے والی زبان نہیں رہنی چاہیے۔ اور طاقت میسر نہ ہو تو پھر ایمانی غیرت و حمیت کا کم سے کم تقاضا یہ ہے کہ ایسی مجلسوں میں شرکت کا تصور بھی نہ کیا جائے۔ اور اگر کبھی بھول کر ایسی کسی مجلس میں بیٹھنے کا اتفاق ہو ہی جائے تو یاد آنے پر فوراً اٹھ جائے۔ لیکن اس واضح حکم کے باوجود ان کا رویہ یہ تھا کہ یہ یہود یا دوسرے منافقین کی مجالس میں جاتے ‘ وہاں آنحضرت ﷺ اور قرآن کے بارے میں نامناسب باتیں کہی جاتیں اور مذاق اڑایا جاتا ‘ لیکن ان کے سر پر جوں تک نہ رینگتی۔ اگر ان میں ایمان کی رتی بھی ہوتی تو یہ کبھی ایسی مجالس میں بیٹھنا گوارا نہ کرتے۔ لیکن ان کی ایسی مجالس میں شرکت اور پھر ایسی باتوں کا برداشت کرنا اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کی زبانوں پر ایمان کا اقرار ضرور موجود ہے ‘ لیکن ان کے دلوں میں بالکل ایمان نہیں۔ اس لیے فرمایا کہ اگر تم یہ سب کچھ سن کر برداشت کرتے ہو تو پھر تم انہی میں سے ہو۔ جیسے وہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے دشمن ہیں تم بھی دشمن ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر زمانہ میں منافقین کی یہی خصوصیت رہی ہے کہ وہ اپنے مومن اور مسلم ہونے کا دعویٰ صرف اس لیے کرتے ہیں تاکہ مسلمان معاشرے سے جو فوائد اٹھائے جاسکتے ہیں ان میں کمی نہ آنے پائے۔ ورنہ ان کا قلبی رشتہ اور ان کا دماغی رجحان چونکہ مفادات کے تابع ہے اس لیے وقت کی غالب قوت چاہے وہ اسلام اور مسلمانوں کی کیسی ہی بدترین دشمن کیوں نہ ہو یہ ان سے اپنا تعلق عزت اور فخر کی علامت سمجھتے ہیں۔ ان کی مجلسوں میں شریک ہوتے ہیں اور ان کو یہ یقین دلاتے ہیں کہ ہمیں آپ متعصب مسلمان نہ سمجھیں ‘ اسلام سے ہمارا محض نام کا رشتہ ہے ‘ ہماری دلچسپیاں اور وفاداریاں تو سب آپ کے ساتھ ہیں۔ اسلام اور کفر کی کشمکش میں آپ دیکھیں گے کہ ہمارا وزن آپ کے پلڑے میں ہوگا۔ ہمیں آپ کا قرب عزیز ہے۔ اس کے لیے ہمیں مسلمانوں کو خون میں بھی نہلانا پڑے اور ان کی عزت و حرمت کا سودا کرنا پڑے تو ہمیں اس سے بھی دریغ نہیں ہے۔ غلامی کے زمانے میں بھی ہمارے جاگیردار ‘ ہمارے و ڈیرے ‘ حتیٰ کہ بعض علماء اور بعض گدی نشین بھی اسی نفاق کا شکار تھے۔ اور انہی کی وجہ سے انگریز تعداد کے اعتبار سے محدود ہونے کے باوجود دو سو سال تک حکومت کرتا رہا۔ ظفر علی خان نے اسی صورت حال سے آزردہ ہو کر کہا تھا : نکل جاتی ہو سچی بات جس کے منہ سے مستی میں فقیہِ مصلحت بیں سے وہ رند بادہ خوار اچھا تمسخر کرنے والے دین سے ہی گر مہذب ہیں تو ان تہذیب کے پتلوں سے مجھ جیسا گنوار اچھا اور آج مسلمان جس صورت حال سے دوچار ہیں اس میں بھی ہمارے نام نہاد حکمران ‘ ہمارا طبقہ امراء ‘ ہمارے سیاستدانوں کی اکثریت ‘ ہمارے بعض علماء و مشائخ یہی کردار ادا کرتے نظر آتے ہیں۔ قرآن کریم کی اتنی واضح تنقید اور تنبیہ کے بعد بھی ان مسلمان کہلانے والے منافقین پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ منافقین کی دوسری علامت منافقین کی دوسری علامت یہ بیان فرمائی ہے کہ ان کی ہمدردیاں اور خیرخواہیاں مسلمانوں کے ساتھ نہیں بلکہ اپنے اولیائِ نعمت کے ساتھ ہوتی ہیں۔ یعنی اس قوت کے ساتھ جو علاقے کی غالب کافر قوت ہے۔ اور مسلمان جن کے ساتھ حق و باطل کی کشمکش میں مصروف ہیں۔ یہ ہمیشہ اس کے انتظار میں رہتے ہیں کہ مسلمانوں کو کوئی نقصان پہنچے اور ہم مسلمانوں کے دشمن اور اپنے آقائوں کے پاس جا کر انھیں یقین دلائیں کہ مسلمانوں کو جو شکست ہوئی ہے اور آپ کو فتح ہوئی ہے اس میں ہمارا بھی ایک کردار ہے ؟ اگر ہم پیچھے رہ کر تمہارے لیے یہ یہ کام نہ کرتے اور مسلمانوں سے تمہیں محفوظ نہ رکھتے تو یقینا تمہارے لیے فتح حاصل کرنا مشکل ہوتا۔ اور اگر مسلمانوں کو فتح نصیب ہوتی ہے تو مسلمانوں کے پاس آ کر مال غنیمت میں حصہ بٹانے کے لیے بار بار یقین دلاتے ہیں کہ ہم تو اس معرکے میں قدم قدم پر آپ کے معاون و مددگار رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم ایسے منافقین اور کفار کو جہنم میں جمع کریں گے۔ اور اسی دن اللہ ان کے تمام کرتوتوں سے پردہ اٹھائے گا اور ہر دیکھنے والی نگاہ دیکھے گی کہ یہ لوگ حقیقت میں کس قدر مسلمانوں کے دشمن تھے۔
Top