Mualim-ul-Irfan - An-Nisaa : 138
بَشِّرِ الْمُنٰفِقِیْنَ بِاَنَّ لَهُمْ عَذَابًا اَلِیْمَاۙ
بَشِّرِ : خوشخبری دیں الْمُنٰفِقِيْنَ : منافق (جمع) بِاَنَّ : کہ لَھُمْ : ان کے لیے عَذَابًا اَلِيْمَۨا : دردناک عذاب
آپ منافقوں کو خوشخبری سنا دیں کہ بیشک ان کے لیے درد ناک عذاب ہے
ربط آیات : گزشتہ درس میں ایمان کی تفصیلات بیان ہوئی تھیں۔ اللہ نے ان اجزائے ایمان کا ذکر کیا جن پر ایمان لانا اور دل سے ان کی تصدیق کرنا ضروری ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے مرتدین کا ذکر کیا ، جو ایمان لانے کے بعد پھر کفر اختیار کرلیتے ہیں۔ بعض لوگ بار بار ایمان لاتے اور بار بار پھرجاتے ہیں ، ایسے لوگ اکثر محروم رہتے ہیں ان کی لغزشیں معاف نہیں ہوتیں اور نہ ہی صحیح راستہ ملتا ہے ویسے اسلامی حکومت میں مرتد کے لئے حکم یہ ہے کہ اس پر اسلام پیش کیا جائے ، علماء کو جمع کرکے اگر کوئی غلط فہمی ہے تو اسے دور کیا جائے ، اگر وہ مان جائے تو اس سے توبہ کرا کے دوبارہ اسلام میں داخل کیا جائے اور اگر اس کے باوجود ایمان لانے پر آمادہ نہ ہو ، تو ایسے غدار ملت کے لئے سزائے موت واجب ہوجاتی ہے۔ صحابہ کرام ؓ کے زمانہ میں ایسے کئی کیس آئے جن میں سزائے موت دی گئی۔ مرتدین کے بعد آج کے درس میں اللہ تعالیٰ نے منافقین کا تذکرہ فرمایا ہے۔ منافقوں کی دو قسمیں ہیں یعنی اعتقادی منافق اور عملی منافق۔ اعتقادی منافق وہ ہوتا ہے جو زبان سے ایمان کا اقرار کرے مگر دل کفر سے لبریز ہو ، اعتقادی منافق کافروں کی بدترین قسم ہے۔ حقیقت میں یہ کافر ہی ہوتے ہیں۔ مگر انہیں منافق اس لئے کہتے ہیں کہ یہ زبان سے اقرار ایمان کرتے ہیں۔ منافقوں کے ساتھ سلوک بھی کفار سے مختلف ہوتا ہے۔ کفار کے ساتھ تو علی الاعلان جہاد کا حکم ہے مگر منافق چونکہ بظاہر کلمہ گو ہوتے ہیں لہذا ان کے متعلق حکم ہے واعلظ علیھم یعنی ان پر زبانی طور پر سختی کی جائے تاکہ لوگ ان سے محتاط ہوجائیں ، یہ لوگ ریشہ دوانیاں کرتے ہیں اور دین کو نقصان پہنچاتے ہیں ، بہرحال آج کے درس میں اللہ نے انہی منافقوں کا ذکر کیا ہے۔ ان کی کارگزاری بیان کرکے ان کی مذمت بیان فرمائی ہے اور پھر ان کے انجام کا تذکرہ کیا ہے۔ منافقوں کے لئے بشارت ارشاد ہوتا ہے۔ بشر المنفقین منافقوں کو بشارت سنا دیجئے ، بشارت کا معنی عام طور پر خوشخبری ہوتا ہے اور یہ خوشی کے موقع پر دی جاتی ہے مگر یہاں پر تو عذاب الیم کی خبر دی جارہی ہے۔ بشارت کا لفظ یہاں خاص طور پر منافقوں کے لئے استعمال کیا گیا ہے۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ اس مقام پر بشارت کا لفظ بطور تحکم استعمال ہوا ہے۔ چونکہ منافق بدترین قسم کے لوگ ہوتے ہیں انہیں استہزاء کی شکل میں خطاب کیا گیا ہے۔ کہ ذرا نہیں دردناک عذاب کی خوشخبری سنا دیجئے۔ بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ یہاں بشارت کا معنی روایتی خوشخبری نہیں بلکہ محض خبر ہے اور مراد یہ ہے کہ ان منافقین کو خبردار کردیا جائے کہ وہ بدترین انجام سے دوچار ہونے والے ہیں۔ چناچہ فرمایا ، کہ منافقین کو خوشخبری دے دیجئے۔ بان لھم عذابا ایما کہ ان کیلئے دردناک عذاب تیار ہے ، انہیں ان کے نفاق کا بدلہ مل کر رہے گا۔ کفار کی درستی فرمایا منافقین وہ لوگ ہیں الذین یستخدون الکفرین اولیآء من دون المومنین جو مومنوں کے علاوہ کافروں کو اپنا دوست بناتے ہیں منافقوں کا کام یہی ہوتا ہے کہ کبھی ادھر سازباز کی کبھی ادھر ، کبھی ایک رخ اختیار کیا کبھی دوسرا رخ ، ادھر کی بات ادھر چلا دی ، ان کی کارگزاری ایسی ہی ہے۔ حالانکہ دوستی تو ہمیشہ ۔۔۔۔۔۔ مومنوں کے ساتھ ہونی چاہئے۔ ایک مومن کی دوستی کافر اور منافق کے ساتھ نہیں ہوسکتی۔ کیونکہ دونوں کا نصب العین مختلف ہے ان کی منزل مقصود جدا جدا ہے۔ اس مسئلے کو اللہ تعالیٰ نے سورة آل عمران میں تفصیل کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ اہل ایمان منافقوں کے ساتھ خوش اخلاقی اور رواداری سے تو پیش آسکتے ہیں مگر ان کے ساتھ دلی دوستی نہیں کرسکتے۔ اگر ایسا کریں گے تو ان کے اپنے ایمان میں خلل واقع ہونے کا خدشہ ہے۔ اسی لئے فرمایا کہ مومنوں کے علاوہ منافقوں کو دوست نہ بنائو۔ عزت کی تلاش فرمایا ایبتغون عندھم العزۃ اے گروہ منافقین ! کیا تم کفار کے پاس عزت کی تلاش میں جاتے ہو ، عزت کا معنی قوت اور غلبہ ہوتا ہے۔ عزیز اللہ تعالیی کی صفت ہے ، جس کا معنی قوت والا اور کمال قدرت کا مالک ہے۔ عربی مقولہ ہے من عزیز جو غالب ہوتا ہے وہ دوسرے پر چھا جاتا ہے۔ الغرض ! منافقوں کو فرمایا کیا تم کافروں کے ہاں عزت چاہتے ہو ، بلکہ حقیقت حال یہ ہے فان العزۃ للہ جمیعا ساری کی ساری عزت تو اللہ کے پاس ہے۔ العزیز تو خدا تعالیٰ ہے۔ تم عزت کی تلاش میں کہاں مارے مارے پھرتے ہو ، اللہ تعالیٰ خود بندے کی زبان سے کہلاتے ہیں وتعزمن نشآء وتزل من تشآئ۔ اے مولا کریم ! تو ہی جسے چاہے عزت دے دے اور جسے چاہے ذلیل و خوار کردے۔ المعز والمذل بھی اللہ تعالیٰ کی صفات ہیں۔ وہ جسے چاہے غلبہ عطا کردے اور جسے چاہے مغلوب کرکے رسوا کردے۔ تو فرمایا عزت حقیقت میں اللہ تعالیٰ کے لئے اس کے رسول کے لئے اور پھر اہل ایمان کے لئے ہے۔ عزت ایمان اور نیکی کی وجہ سے حاصل ہوتی ہے مگر منافق اس کی تلاش میں کافروں سے دوستی کرتے ہیں ، انہیں کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ اہل باطل کی مجلس فرمایا منافقین اپنے مذموم مقصد کے حصول کے لئے اہل باطل کی مجلس میں جاتے ہیں اور ان کی خوشامد کرتے ہیں ، حالانکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان یہ ہے۔ وقد نزل علیکم فی الکتب کہ اس نے کتاب یعنی قرآن پاک میں تمہارے لئے یہ حکم نازل فرمایا ہے۔ ان اذا سمعتم ایت اللہ یکفربھا ویستھزا بھا کہ جب تم اللہ کی آیات کے ساتھ کفر اور استہزا کو سنو۔ فلا تقعدوا معھم تو ان لوگوں کے پاس مت بیٹھو۔ حتی یخوضوا فی حدیث غیرہ یہاں تک کہ وہ کسی دوسری بات میں مشغول ہوجائیں۔ مقصد یہ ہے کہ جب کفار کی مجلس میں آیات الٰہی اور شعائر دین کا انکار کیا جارہا ہو اور ان کے ساتھ ٹھٹا کیا جارہا ہو تو ایسی مجلس میں ہرگز نہ بیٹھو کہ یہ غیرت اسلامی کے خلاف ہے اور اگر وہاں دین پر طعن وتشنیع کرنے کی بجائے کوئی دوسری بات ہورہی ہو تو پھر تمہیں وہاں بیٹھنے کی اجازت ہے۔ حضرت مولانا شاہ اشرف علی تھانوی اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ اہل باطل کی مجلس میں جانے کی مختلف صورتیں ہیں۔ اگر ایسی مجلس میں احکام الٰہی اور آیات اللہ کے ساتھ مذاق کیا جارہا ہو اور وہاں بیٹھنے والا اس کو پسند کررہا ہے تو وہ بھی کافر ہوگیا اور اگر وہ شخص دین کی توہین کو دل سے تو پسند نہیں کرتا مگر وہاں پر بلاوجہ بیٹھا بھی رہتا ہے تو وہ فاسق ہے۔ البتہ اگر وہ کسی مقصد کی خاطر وہاں بیٹھا ہے۔ مجبور ہے ، مگر دل سے توہین آمیز باتوں کو برا سمجھتا ہے تو ایسی صورت میں اس کا بیٹھنا مباح ہے اور چوتھی صورت یہ ہے کہ بیٹھنے والا شخص اس نیت سے ایسی مجلس میں بیٹھا ہے کہ دین کے حق میں تبلیغ کرے تو پھر اس کا بیٹھنا عبادت میں شمار ہوگا۔ بہرحال فرمایا کہ کافروں کے پاس بلاوجہ مت بیٹھو ، کیونکہ اگر ایسا کروگے۔ انکم اذ مثلھم تو تم بھی انہی کی طرح ہوجائوگے۔ وہ قرآن پاک اور اللہ کے نبی کا استہزا کرتے ہیں اور تم ان کی مجلس میں شریک ہوتے ہو تو تم بھی ان کی طرح سخت گنہگار ہوگے ، حالانکہ مومن کیلئے حضور ﷺ کا فرمان ہے من کان یومن باللہ والیوم الاخر ولا یجلس علی مائدۃ یدار علیھا الخیر جو شخص اللہ پر اور قیامت پر ایمان رکھتا ہے اسے ایسی جگہ بیٹھنا درست نہیں جہاں شراب کا دور چل رہا ہے اگرچہ یہ خود نہیں پیتا مگر شرابیوں کی مجلس میں بیٹھنے سے بھی منع فرمادیا۔ مقصد یہ کہ جہاں برائی کا کام ہورہا ہو ، اس کے قریب نہیں جانا چاہئے۔ اس لئے اہل باطل کی مجالس میں بلاوجہ جانے کا حکم نہیں ہے۔ اسلام کے ساتھ استہزاء باطل قوتیں اسلام کے ساتھ استہزاء کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتیں۔ جہاں اللہ کی آیتوں کے ساتھ ٹھٹا ہورہا ہو ، مومن کی شان نہیں ہے کہ وہاں جائے مگر اب تو ایسی مجلسوں میں جانا فیشن بن چکا ہے۔ کفار خصوصاً یہود ، ہنود اور نصاریٰ نے اسلام کی تذلیل کے لئے کئی طریقے نکالے ہیں۔ خاص طور پر یہودی اس معاملہ میں بہت آگے ہیں۔ تقریباً پانچ سال پہلے اخبارات میں یہ خبر چھپی تھی کہ یورپ کی منڈیوں میں عورتوں کے لئے ایسے انڈرویر (زیرجامہ) موجود ہیں جن پر کلمہ طیبہ لکھا ہوا ہے۔ بعض خبیثوں نے ایسی قمیضیں تیار کیں جن کے پچھلے حصے پر آیت الکرسی لکھی ہوئی ہے اور جب آدمی بیٹھتا ہے تو آیت الکرسی والا حصہ نیچے آجاتا ہے یہ یہودیوں کی سازش ہے تاکہ اہل ایمان کو اذیت پہنچے۔ گزشتہ دنوں ایسی ماچس تیار کی گئی جس پر کلمہ طبع تھا۔ لوگ ماچس استعمال کرکے ڈبیہ پھینک دیتے اور اس طرح کلمہ طیبہ کی توہین ہوتی۔ شکیب ارسلان مرحوم نے اپنی کتاب حاضر العالم الاسلامی میں لکھا ہے کہ گزشتہ صدیوں کے دوران انگریزوں اور امریکیوں نے اسلام کے خلاف چھ لاکھ کتابیں شائع کیں۔ شکیب ارسلان جرمن میں مقیم تھا ، وہ یورپ کے حالات سے واقف تھا ، اور ان کے خلاف لکھتا رہتا تھا۔ انگریز کا سخت مخالف تھا ، جلاوطن بھی رہا ، ترکوں کے زمانے میں ہسپتالوں کا انچارج تھا۔ جنگ عظیم میں شکست کے بعد یورپ میں پھرتا رہا ، بڑا جاگیردار تھا مگر مسلمان ہونے کی وجہ سے مشکلات کا شکار رہا۔ مسلمانوں کی ایذا رسائی کے لئے ایک انگریز نے اپنے کتے کا نام احمد رکھا۔ دنیا بھی میں احتجاج ہوا تو اس نے معذرت کرلی کہ اسے علم نہیں تھا ، غلطی سے ایسا ہوا۔ اسی طرح ایک یہودی نے حضرت علی ؓ کے متعلق (العیاذ باللہ) لنگور کا لفظ استعمال کیا تھا۔ یہ سب اسلام اور مسلمانوں کے استہزا کے طریقے ہیں جو اغیار استعمال کرتے رہتے ہیں۔ اللہ نے فرمایا ، یاد رکھو ! ان اللہ جامع المنفقین والکفرین فی جھنم جمیعا۔ اللہ تعالیٰ ان منافقوں اور کافروں سب کو جہنم میں اکٹھا کرنے والا ہے۔ اعتقادی منافقوں کا ٹھکانا لازماً جہنم ہے۔ ان کے دل ایمان سے خالی ہیں اور ان کا گٹھ جوڑ کفار کے ساتھ ہے۔ دوغلی پالیسی ان منافقین کی خباثتوں کا پردہ چاک کرتے ہوئے فرمایا الذین یتربصون بکم یہ لوگ تمہارے بارے میں گردشوں کا انتظار کرتے ہیں فان کان لکم فتح من اللہ قالوا الم تکن معکم اگر تمہیں فتح حاصل ہوجائے اللہ تعالیٰ کی طرف سے تو فوراً بول اٹھتے ہیں ، کیا ہم تمہارے ساتھ نہیں تھے۔ یعنی ہم تو تمہاری ہی پارٹی کے آدمی ہیں۔ وان کان للکفرین نصیب اور اگر کافروں کو کچھ حصہ مل جائے ، ان کو کہیں غلبہ حاصل ہوجائے۔ قالوا تو کہتے ہیں۔ الم نستحوذ علیکم کیا ہم تم پر غالب نہیں آگئے تھے ؟ کافروں سے کہتے ہیں کہ ہم نے مسلمانوں کے ساتھ مل کر تمہیں زیر کرلیا تھا پھر ہم نے چکر چلایا ونمنعکم من المومنین اور مسلمانوں سے بچایا ورنہ تمہیں سخت نقصان پہنچتا۔ دیکھو ! ہم نے تمہارے اوپر احسان کیا کہ مسلمانوں سے تمہاری جان چھڑائی۔ اس طرح وہ کافروں کی ہمدردی حاصل کرتے ہیں۔ فرمایا منافقوں کی یہ سازشیں ادھر ہی رہ جائینگی فاللہ یحکم بینکم یوم القیمۃ اللہ تعالیٰ تمہارے درمیان قیامت کے دن فیصلہ کرے گا۔ اس دن پتہ چلے گا کہ منافقین کیسی کیسی سازشیں کرتے تھے اور اہل ایمان کا طرز عمل کیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اصول کے طور پر سمجھا دیا۔ ولن یجعل اللہ للکفرین علی المومنین سبیلاً اللہ تعالیٰ نے کافروں کے لئے مومنوں پر کوئی راستہ نہیں بنایا۔ مطلب یہ ہے کہ مومن اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں ہیں اور کفار انہیں زک نہیں پہنچا سکیں گے بلکہ وہ خود ہی ذلیل و خوار ہو کر رہ جائیں گے اور اسلام ہی غالب رہے گا۔ غلبہ اسلام بعض مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ اس غلبے سے مراد دلیل کے اعتبار سے غلبہ ہے۔ اللہ نے اہل ایمان کو دلائل کے لحاظ سے کفر پر ہمیشہ غالب رکھا ہے۔ بعض دوسرے مفسرین فرماتے ہیں کہ دلیل کے اعتبار سے تو اسلام ہمیشہ کفر پر غالب ہے مگر یہاں پر پولٹیکل غلبہ ہی مراد ہے اور اس سے مقصود یہ ہے کہ ایمان والوں کو چاہئے کہ وہ کافروں کو غلبہ کا کبھی موقع نہ دیں ، کیونکہ اگر کفار کو غلبہ حاصل ہوگیا تو اسلام کو سخت نقصان پہنچے گا۔ مگر افسوس کا مقام ہے کہ آج مسلمان ان احکام سے غافل ہو کر اغیار کا مغلوب ہوچکا ہے۔ اس میں حب مال اور حب جاہ جیسی بیماری پیدا ہوگئی ہے جس کی وجہ سے اس میں ضعف آگیا۔ دنیا طلبی نے مسلمان کو کفار کا مغلوب کردیا۔ اس وقت دنیا کی سیاست پر یہودیوں ، عیسائیوں اور دہریوں کا قبضہ ہے اور مسلمان ہر طرف ذلیل و خوار ہو رہے ہیں۔ بزرگان دین کا مقولہ ہے الدنیا جیفۃ وطالبھا کلاب یعنی دنیا ایک مردار ہے اور اس کے طالب کہتے ہیں جو لوگ دنیا کے پیچھے بھاگتے ہیں ان کی حیثیت کتوں جیسی ہے اللہ تعالیٰ کا حکم تو یہ ہے کہ دنیا میں اسلام کا غلبہ ہو مگر ہم نے اس سبق کو فراموش کردیا ہے۔ آج مسلمان عیاشی اور فحاشی میں مبتلا ہو کر قرآن کا پروگرام فراموش کرچکا ہے جس کی وجہ سے کفار کا دست نگر بن گیا ہے۔ مسلمانوں کی یہ حالت تاتاریوں کے زمانہ سے شروع ہوئی اور اب بحیثیت مجموعی اہل اسلام کا قدم پھسل چکا ہے اب مشرق والے مغرب والوں کی خوشامد پر امید لگائے بیٹھے ہیں۔ ان کی طرف سے امداد کے منتظر رہتے ہیں۔ مگر جب تک اللہ تعالیٰ خود امداد نہ کردے ، نہ کوئی مدد کرسکتا ہے اور نہ عزت دے سکتا ہے۔ عزت و ذلت تو اس مالک الملک کے ہاتھ میں ہے۔ تمہاری عزت تو دین میں تھی جسے تم نے خود اپنے ہاتھوں سے گنوا دیا۔ مرتد اور نکاح ” الرجال قومون علی النسآئ “ کے مصداق مرد عورتوں کے نگران ، محافظ اور سرکردہ ہوتے ہیں۔ اس لحاظ سے خاوند غالب اور بیوی مغلوب یا ماتحت ہوتی ہے۔ امام بو حنیفہ (رح) اس آیت سے استدلال کرتے ہیں۔ کہ اگر خاوند مرتد ہوجائے ، تو بیوی اس کے نکاح میں نہیں رہ سکتی۔ اصول یہ ہے کہ مسلمان کافر کا مغلوب نہیں ہوسکتا۔ بیوی چونکہ مسلمان ہے لہذا وہ مرتد یعنی کافر آدمی کی مغلوب یعنی بطور بیوی نہیں رہ سکتی۔ یہ الگ بات ہے کہ مرتد پر دوبارہ اسلام پش کیا جائے گا۔ اگر وہ ایمان لے آئے تو ٹھیک ہے ورنہ عورت جدا ہوجائیگی۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مومنین پر کافروں کے لئے کوئی راستہ نہیں بنایا۔ بہرحال اہل ایمان کو کوشش کرنی چاہئے کہ وہ غیرمسلموں کے مغلوب نہ ہوں۔ یہ مقصد قربانی اور آخرت طلبی سے حاصل ہوگا۔ مگر افسوس کہ آج مسلمان دنیا کے طالب ہو کر آخرت کو بھول چکے ہیں۔ آخرت کا طالب کوئی خال خال ہی نظر آتا ہے ، وگرنہ سب کھیل تماشے اور لہو و لعب میں مشغول ہیں۔ آج جو چند لوگ دین کی تعلیم حاصل بھی کرتے ہیں وہ بھی دنیا کے پیچھے بھاگتے ہیں اور نوکری کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں۔ دین کو غالب کرنے کی ” تڑپ ختم ہوچکی ہے۔ اسلام کو سیاسی غلبہ جنگ صفین تک حاصل رہا مگر اس کے بعد اہل اسلام کا زوال شروع ہوگیا۔ بہرحال اللہ تعالیٰ نے منافقین کا راستہ اختیار کرنے سے منع فرمایا ہے۔ اب اگلی آیات میں منافقین کی مزید مذمت اور ان کے انجام کا ذکر ہے اور اہل ایمان کے لئے مزید تبلیغ ہے۔
Top