Maarif-ul-Quran - Al-A'raaf : 186
مَنْ یُّضْلِلِ اللّٰهُ فَلَا هَادِیَ لَهٗ١ؕ وَ یَذَرُهُمْ فِیْ طُغْیَانِهِمْ یَعْمَهُوْنَ
مَنْ : جس يُّضْلِلِ : گمراہ کرے اللّٰهُ : اللہ فَلَا : تو نہیں هَادِيَ : ہدایت دینے والا لَهٗ : اس کو وَيَذَرُهُمْ : وہ چھوڑ دیتا ہے انہیں فِيْ : میں طُغْيَانِهِمْ : ان کی سرکشی يَعْمَهُوْنَ : بہکتے ہیں
جس کو اللہ بچلائے اس کو کوئی نہیں راہ دکھلانے والا، اور اللہ چھوڑے رکھتا ہے ان کو ان کی شرارت میں سرگرداں،
خلاصہ تفسیر
جس کو اللہ تعالیٰ گمراہ کرے اس کو کوئی راہ پر نہیں لاسکتا (پھر غم لاحاصل) اور اللہ تعالیٰ ان کو ان کی گمراہی میں بھٹکتے ہوئے چھوڑ دیتا ہے (تاکہ ایک دفعہ ہی پوری سزا دے دے) لوگ آپ سے قیامت کے متعلق سوال کرتے ہیں کہ اس کا وقوع کب ہوگا، آپ فرما دیجئے کہ اس کا (یہ) علم (کہ کب واقع ہوگی) صرف میرے رب ہی کے پاس ہے (دوسرے کسی کو اس کی اطلاع نہیں) اس کے وقت پر اس کو سوا اللہ کے کوئی اور ظاہر نہ کرے گا (اور وہ ظاہر کرنا یہ ہوگا کہ اس کو واقع کردے گا اس وقت سب کو پوری خبر ہوجائے گی اس کے قبل ویسے کسی کو بتلانے کے طور پر بھی اس کو ظاہر نہ کیا جائے گا کیونکہ) وہ آسمانوں اور زمین میں بڑا بھاری حادثہ ہوگا (اس لئے) وہ تم پر محض اچانک (بےخبری میں) آپڑے گی (تاکہ وہ جس طرح اجسام پر ان کو متغیر و متفرق کردینے میں بھاری ہے اسی طرح قلوب پر بھی اس کا بھاری اثر ہوگا اور پہلے سے بتلادینے میں یہ بات نہیں رہتی اور پوچھنا بھی تو ان کا معمولی طور پر نہیں بلکہ) وہ آپ سے اس طرح (اصرار و مبالغہ سے) پوچھتے ہیں جیسے گویا آپ اس کی تحقیقات کرچکے ہیں (اور تحقیقات کے بعد آپ کو اس کا پورا احاطہ ہوگیا ہے) آپ فرما دیجئے کہ اس کا علم (مذکور) خاص اللہ ہی کے پاس ہے لیکن اکثر لوگ (اس بات کو) نہیں جانتے (کہ بعض علوم حق تعالیٰ نے اپنے خزانہ علم میں مکنون رکھے ہیں انبیاء کو بھی تفصیلا اطلاع نہیں دی، پس اس کے نہ جاننے سے کسی نبی کے عدم اطلاع تعین قیامت کو معاذ اللہ دلیل نفی نبوت کی سمجھتے ہیں، اس طرح سے کہ نبوت کے لئے یہ علم لازم ہے اور انتفاء لازم مستلزم انتفاء ملزوم ہے، حالانکہ مقدمہ محض غلط ہے)

معارف و مسائل
ان سے پہلی آیات میں کفار و منکرین کی ضد و ہٹ دھرمی اور کھلی ہوئی آیت قدرت کے ہوتے ہوئے ایمان نہ لانے کا ذکر تھا، یہ مضمون رسول اللہ ﷺ کیلئے امت اور عام مخلوق کے ساتھ غایت شفقت و رحمت کی بناء پر انتہائی رنج و غم کا سبب ہوسکتا تھا، اس لئے متذکرہ تین آیات میں سے پہلی آیت میں آپ کو تسلی دینے کے لئے ارشاد فرمایا کہ
جس کو اللہ تعالیٰ گمراہ کردے اس کو کوئی راہ پر نہیں لاسکتا اور اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو گمراہی میں بھٹکتے ہوئے چھوڑ دیتا ہے۔
مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں کی ہٹ دھرمی اور قبول حق سے اعراض پر آپ رنجیدہ نہ ہوں کیونکہ آپ کا فریضہ منصبی اتنا ہی تھا کہ حق بات کو صاف صاف مؤ ثر انداز میں پہنچا دیں وہ آپ پورا کرچکے، آپ کی ذمہ داری ختم ہوچکی اب کسی کا ماننا یا نہ ماننا یہ ایک تقدیری امر ہے جس میں آپ کو دخل نہیں پھر آپ غمگین کیوں ہوں۔
اس سورت کے مضامین میں سے تین مضمون بہت اہم تھے، تو حید، رسالت، آخرت، اور یہی تین چیزیں ایمان اور اسلام کی اصل بنیادیں ہیں، ان میں سے توحید و رسالت کا مضمون پچلھی آیتوں میں تفصیل کے ساتھ آچکا ہے، مذکورہ آیتوں میں سے آخری دو آیتیں مضمون آخرت و قیامت کے بیان میں ہیں جن کے نزول کا ایک خاص واقعہ ہے جو امام تفسیر ابن جریر اور عبد بن حمید نے بروایت قتادہ نقل کیا ہے کہ قریش مکہ نے رسول اللہ ﷺ سے بطور استہزاء و تمسخر کے دریا فت کیا کہ آپ قیامت کے آنے کی خبریں دیتے اور لوگوں کو اس سے ڈراتے ہیں اگر آپ سچے ہیں تو متعین کرکے بتلا یئے کہ قیامت کس سن اور کس تاریخ میں آنے والی ہے تاکہ ہم اس کے آنے سے پہلے کچھ تیاری کرلیں، آپ کے اور ہمارے درمیان جو تعلقات رشتہ داری ہیں ان کا تقاضہ بھی یہ ہے کہ اگر آپ عام طور سے لوگوں کو بتلانا نہیں چاہتے تو کم ازکم ہمیں بتلا دیجئے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی
Top