Mutaliya-e-Quran - Al-A'raaf : 186
مَنْ یُّضْلِلِ اللّٰهُ فَلَا هَادِیَ لَهٗ١ؕ وَ یَذَرُهُمْ فِیْ طُغْیَانِهِمْ یَعْمَهُوْنَ
مَنْ : جس يُّضْلِلِ : گمراہ کرے اللّٰهُ : اللہ فَلَا : تو نہیں هَادِيَ : ہدایت دینے والا لَهٗ : اس کو وَيَذَرُهُمْ : وہ چھوڑ دیتا ہے انہیں فِيْ : میں طُغْيَانِهِمْ : ان کی سرکشی يَعْمَهُوْنَ : بہکتے ہیں
جس کو اللہ رہنمائی سے محروم کر دے اُس کے لیے پھر کوئی رہنما نہیں ہے، اور اللہ اِنہیں اِن کی سرکشی ہی میں بھٹکتا ہوا چھوڑے دیتا ہے
[ مَنْ : جس کو ] [ يُّضْلِلِ : گمراہ کرے ] [ اللّٰهُ : اللہ ] [ فَلَا هَادِيَ : تو کوئی بھی ہدایت دینے والا نہیں ہے ] [ لَهٗ ۭ : اس کے لیے ] [ وَيَذَرُهُمْ : اور وہ چھوڑ دیتا ہے ان کو ] [ فِيْ طُغْيَانِهِمْ : ان کی سرکشی میں ] [ يَعْمَهُوْنَ : بھٹکتے ہوئے ] نوٹ ۔ 2: آیت نمبر ۔ 2:7 کے نوٹ ۔ 3 میں ہم سماعت اور بصارت کی وضاحت کرچکے ہیں ۔ لیکن مناسب ہے کہ اس مقام پر ہم اس بات کو ذرا وضاحت سے سمجھ لیں کیونکہ آیت ۔ 179 میں اس Process کی نشاندہی کی گئی ہے جس سے گزر کر انسان فیصلہ کرتا ہے اور اپنے اختیار کو استعمال کرتا ہے ۔ مذکورہ نوٹ ۔ 3 میں ہم سمجھ چکے ہیں کہ جب آنکھ اپنی حاصل کردہ معلومات کو ذہن تک پہنچاتی ہے تو اس کی اس صلاحیت کو بصارت کہتے ہیں ۔ اسی طرح جب کان اپنی حاصل کردہ معلومات کو ذہن تک پہنچاتا ہے تو اس کی یہ صلاحیت سماعت کہلاتی ہے ۔ اب سمجھنے والی بات یہ ہے کہ آیت زیر مطالعہ میں بصارت اور سماعت کا ذکر کس حوالہ سے کیا گیا ہے ۔ اس سلسلہ میں یہ بات پھر یاد کرلیں کہ قرآن مجید کا یہ ایک خاص انداز ہے کہ کبھی وہ کسی چیز کے جز کی طرف اشارہ کرکے پوری چیز مراد لیتا ہے ۔ ( آیت ۔ 2:112، نوٹ ۔ 1) ۔ اس بات کو ذہن میں رکھ کر مذکورہ آیت پر غور کریں تو یہ بات آسانی سے سمجھ میں آجاتی ہے کہ یہاں دراصل ہمارے حواس خمسہ اور ان کی ذہن تک معلومات پہنچانے کی صلاحیت کی بات ہو رہی ہے ۔ پھر انسانی ذہن حاصل شدہ معلومات کو ذخیرہ (Store ) کرنے سے پہلے ان کا تجزیہ کرکے کوئی فیصلہ کرتا ہے ، جسے ہم عقل کہتے ہیں ۔ اس طرح یہاں بصارت اور سماعت کے ذکر میں عقل کا استعمال از خود شامل ہے۔ عقل کے ضمن میں قرآن مجید کے طالب علم اور جدید تعلیم یافتہ افراد کے نکتہ نظر میں فرق ہے۔ کیونکہ کچھ عرصہ پہلے تک ماہرین نفسیات کا کہنا تھا کہ حاصل شدہ معلومات سے ذہن کوئی نتیجہ اخذ کرتا ہے اور انسانی جسم میں موجود موٹر سنٹر کو حکم دیتا ہے تو انسان کا عمل اس کے مطابق ہوتا ہے ۔ لیکن قرآن مجید کے مطالعہ سے یہ بات ہمارے علم میں آتی ہے کہ ذہن کے فیصلے اور عمل کے درمیان میں ایک مرحلہ اور بھی ہے اور وہ کہ ذہن کے فیصلے کو انسان کا دل یا تو قبول کرتا ہے یا رد کرتا ہے ۔ پھر انسان کا عمل عقل کے نہیں بلکہ اس کے دل کے فیصلے کے مطابق ہوتا ہے ۔ مثلا ہم کہتے ہیں کہ بات تو ٹھیک ہے، پر کیا کریں دل نہیں مانتا ۔ یعنی ذہن اس بات کو قبول کررہا اور اس کا فیصلہ ہے کہ یہ کام کیا جائے لیکن دل قبول نہیں کر رہا ہے۔ اس لیے میں یہ کام نہیں کرسکتا ۔ اس کے برعکس جب کسی بات پر ہمارا دل ٹھک جاتا ہے تو ہو کام ہم کتنے شوق اور لگن سے کرتے ہیں ، یہ بات سب لوگ خوب جانتے ہیں ۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ آخر میں فیصلہ دل کا ہوتا ہے ۔ اور اب تو ماہرین نے بھی اپنی اصلاح کرلی ہے ۔ جدید مینجمنٹ سائنس کا اصول یہ ہے کہ عمل کے لیے تنہا Conviction (ذہن کا قائل ہونا ) کافی نہیں ہے ۔ بلکہ اس کے ساتھ Motivation (شوق اور لگن ) کا ہونا بھی ضروری ہے ۔ اب یہ بات بہت واضح ہے کہ (Motivation) کا تعلق عقل سے نہیں ہے بلکہ جذبہ سے ہے ۔ جس کا مقام دل ہے اور دل کے فیصلہ کرنے کو قرآن تفقہہ کہتا ہے ۔ اسی لیے آیت زیر مطالعہ میں فرمایا کہ ان کے دل ہیں لیکن ان سے وہ تفقہہ نہیں کرتے۔ اب سوال یہ ہے کہ عقل کا فیصلہ تو حواس خمسہ کی فراہم کردہ معلومات کی بنیاد پر ہوتا ہے لیکن دل کے فیصلے کی بنیاد کیا ہے ؟ تو یہ بات نوٹ کرلیں کہ دل کا فیصلہ ان ” معلومات ‘ ‘ کی بنیاد پر ہوتا ہے جنہیں انسان کی فطرت میں ڈال کر اسے کمرہ امتحان میں بھیجا جاتا ہے، جس میں سرفہرست اللہ کی معرفت اور نیکی وبدی کی شعور ہے اور جس کی وضاحت آیت نمبر ۔ 7:172 کے نوٹ ۔ 1 میں کی جا چکی ہے ۔ جب تک دل یہ کام کرتا رہتا ہے کہ عقل کے فیصلے کو اگر وہ اپنی فطرت کے مطابق پائے تو اسے قبول کرلے ، ورنہ رد کردے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ تفقہہ کررہا ہے ۔ اور جب دل یہ کام شروع کردیتا ہے کہ عقل کے فیصلے کو اپنی خواہشات اور امنگوں کے مطابق پائے تو قبول کرے ورنہ رد کردے اور اپنی فطرت کی پکاری کا گلا گھونٹتا رہے ، تو اس کا مطلب ہے کہ اس نے تفقہہ کرنا چھوڑ دیا ہے ۔ اسی کو گزشتہ آیت نمبر ۔ 176 مٰں اپنی خواہشات کی پیروی کرنا کہا گیا ہے اور اس کا سبب اخلد الی الارض کا مرض بتایا گیا ہے ۔ ایسے لوگ اس دنیا میں اس عذاب میں خود کو مبتلا کرلیتے جس میں ایک کتا مبتلا ہوتا ہے اور آخرت کے لیے اپنا نام جہنم میں جانے والوں کی فہرست میں لکھوا لیتے ہیں ۔ ان نوٹ کے شروع میں ہم نے فیصلہ کرنے کے Process کی بات کی تھی ۔ اس کی فطری ترتیب یہ ہے کہ اس کی ابتدا حواس خمسہ سے ہوتی ہے اور اختتام دل پر ہوتا ہے ۔ لیکن اس Process کے معطل ہونے یا منقطع ہونے کی ابتدا دل سے ہوتی ہے اور اختتام حواس خمسہ پر ہوتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آیت زیر مطالعہ میں پہلے یہ فرمایا کہ ان کے دل وہ ان سے تفقہہ نہیں کرتے ۔ اس کے بعد فرمایا کہ ان کی آنکھیں ہیں لیکن ان سے وہ بصارت نہیں کرتے اور کان سے سماعت نہیں کرتے ۔
Top