Maarif-ul-Quran - Al-A'raaf : 185
اَوَ لَمْ یَنْظُرُوْا فِیْ مَلَكُوْتِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ مَا خَلَقَ اللّٰهُ مِنْ شَیْءٍ١ۙ وَّ اَنْ عَسٰۤى اَنْ یَّكُوْنَ قَدِ اقْتَرَبَ اَجَلُهُمْ١ۚ فَبِاَیِّ حَدِیْثٍۭ بَعْدَهٗ یُؤْمِنُوْنَ
اَوَ : کیا لَمْ يَنْظُرُوْا : وہ نہیں دیکھتے فِيْ : میں مَلَكُوْتِ : بادشاہت السَّمٰوٰتِ : آسمان (جمع) وَالْاَرْضِ : اور زمین وَمَا : اور جو خَلَقَ : پیدا کیا اللّٰهُ : اللہ مِنْ شَيْءٍ : کوئی چیز وَّاَنْ : اور یہ کہ عَسٰٓي : شاید اَنْ : کہ يَّكُوْنَ : ہو قَدِ اقْتَرَبَ : قریب آگئی ہو اَجَلُهُمْ : ان کی اجل (موت) فَبِاَيِّ : تو کس حَدِيْثٍ : بات بَعْدَهٗ : اس کے بعد يُؤْمِنُوْنَ : وہ ایمان لائیں گے
کیا انہوں نے نظر نہیں کی سلطنت میں آسمان اور زمین کی اور جو کچھ پیدا کیا ہے اللہ نے ہر چیز سے اور اس میں کہ شاید قریب آگیا ہو ان کا وعدہ، سو اس کے پیچھے کس بات پر ایمان لائیں گے۔
پانچویں آیت میں ان کو دو چیزوں کی طرف دعوت فکر دی گئی ہے، اول اللہ تعالیٰ کی مخلوقات آسمان و زمین اور ان کے درمیان کی بیشمار مصنوعات عجیبہ میں غور و فکر۔ دوسرے اپنی مدت عمر اور فرصت پر نظر۔
مصنوعات قدرت میں ذرا بھی عقل و فہم کے ساتھ غور کیا جائے تو ایک موٹی سمجھ والے انسان کو بھی اللہ تعالیٰ کی شان قدرت کی معرفت اور نظارہ ہونے لگتا ہے، اور ذرا گہری نظر کرنے والے کے لئے تو عالم کا ذرہ ذرہ قادر مطلق اور حکیم کی حمد و ثنا کا تسبیح خوان نظر آنے لگتا ہے، جس کے بعد اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا ایک فطری تقاضہ بن جاتا ہے۔
اور اپنی مدت عمر میں غور و فکر کا یہ نتیجہ ہے کہ جب انسان یہ سمجھ لے کہ موت کا وقت معلوم نہیں کب آجائے تو ضروری کاموں کے پورا کرنے میں غفلت سے باز آجاتا ہے، اور مستعدی سے کام کرنے لگتا ہے، موت سے غفلت ہی انسان کو تمام خرافات اور جرائم میں مبتلا رکھتی ہے، اور موت کا استحضار ہی وہ چیز ہے جو انسان کو بہت سے جرائم سے بچنے پر آمادہ کردیتا ہے۔ اسی لئے آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا اکثروا ذکر ھاذم اللذات الموت یعنی تم اس چیز کو کثرت سے یاد کیا کرو جو سب لذتوں کو ختم کردینے والی ہے یعنی موت۔
اسی لئے آیت مذکورہ میں فرمایا گیا (آیت) اَوَلَمْ يَنْظُرُوْا فِيْ مَلَكُوْتِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَا خَلَقَ اللّٰهُ مِنْ شَيْءٍ ۙ وَّاَنْ عَسٰٓي اَنْ يَّكُوْنَ قَدِ اقْتَرَبَ اَجَلُهُمْ ، لفظ ملکوت ملک کے معنی میں مبالغہ کے لئے بولا جاتا ہے اس کے معنی ہیں ملک عظیم، معنی آیت کے یہ ہیں کہ ان منکرین نے کیا اللہ تعالیٰ کے ملک عظیم میں غور نہیں کیا جو آسمانوں اور زمینوں اور بیشمار اشیاء پر محیط ہے، اور کیا اس پر نظر نہیں کی کہ یہ ہوسکتا ہے کہ ان کی موت قریب ہو جس کے بعد ایمان و عمل کی فرصت ختم ہوجائے گی۔
آخر آیت میں فرمایا (آیت) فَبِاَيِّ حَدِيْثٍۢ بَعْدَهٗ يُؤ ْمِنُوْنَ ، یعنی جو لوگ قرآن کریم کی ایسی واضح نشانیوں سے بھی ایمان نہیں لاتے وہ اور کس چیز پر ایمان لائیں گے۔
Top