Urwatul-Wusqaa - Al-A'raaf : 186
مَنْ یُّضْلِلِ اللّٰهُ فَلَا هَادِیَ لَهٗ١ؕ وَ یَذَرُهُمْ فِیْ طُغْیَانِهِمْ یَعْمَهُوْنَ
مَنْ : جس يُّضْلِلِ : گمراہ کرے اللّٰهُ : اللہ فَلَا : تو نہیں هَادِيَ : ہدایت دینے والا لَهٗ : اس کو وَيَذَرُهُمْ : وہ چھوڑ دیتا ہے انہیں فِيْ : میں طُغْيَانِهِمْ : ان کی سرکشی يَعْمَهُوْنَ : بہکتے ہیں
جس پر اللہ راہ گم کر دے تو پھر اس کے لیے کوئی راہ دکھانے والا نہیں ، اللہ نے انہیں چھوڑ دیا ہے کہ اپنی سرکشی میں بھٹکتے رہیں
قانون الٰہی کے مطابق گمراہ ہونے والوں کو کوئی ہدایت دینے والا نہیں : 210: اللہ کا یہ قانون نہیں کہ جو خود بھٹکنا چاہے اسے زبردستی ہدایت دے اور کسی دوسری ہستی میں یہ طاقت نہیں کہ لوگوں کے دل بدل دے ۔ یعنی جس کی ضلالت پسندی اور ہت دھرمی کے سبب سے اللہ نے اس پر ہدایت کے دروازے بند کر دئیے ہوں اور جسے اللہ ہی نے ان گمراہیوں کی طرف دھکیل دیا ہو جن کی طرف وہ جانا چاہتا تھا تو اب کون ہے جو اس کو راہ راست پر لاسکے ؟ جس شخص نے سچائی سے منہ موڑ کر جھوٹ پر مطمئن ہونا چاہا اور جس کی اس خباثت کو دیکھ کر اللہ نے بھی اس کے لئے وہ اسباب فراہم کر دئیے جن سے سچائی کے خلاف اس کی نفرت میں اور جھوٹ پر اس کے اطمینان میں اور اضافہ ہوتا چلا جائے اسے آخر دنیا کی کونسی طاقت جھوٹ سے منحرف اور سچائی پر مطمئن کرسکتی ہے ؟ اس طرح نبی اعظم و آخر ﷺ کو تسلی دی جا رہی ہے کہ آپ ﷺ ان لوگوں کی ہٹ دھرمی اور قبول حق سے اعراض پر رنجیدہ نہ ہوں کیونکہ آپ ﷺ کا فرض منصبی صرف یہی تھا کہ حق بات کو صاف صاف موثر انداز میں پہنچا دیں وہ آپ ﷺ پورا کرچکے اور آپ ﷺ کی ذمہ داری ختم ہوچکی۔ اب کسی کا ماننا یا نہ ماننا اس کی مرضی ہے اس کے متعلق آپ سے پوچھا نہیں جائے گا اس لئے آپ ﷺ زیادہ غمگین نہ ہوں اور اس کے متعلق قانون الٰہی یہ ہے کہ جو خود گمراہی کو پسند کرے اس کا ہاتھ پکڑ کر روک نہیں لیا جاتا بلکہ اس کو اس میں دھکیل دیا جاتا ہے تاکہ وہ اپنی گمراہی میں بھٹکتا پھرے ۔ اس کی تفصیل عروۃ الوثقیٰ جلد دوم سورة النساء کی آیت 88 میں کردی گئی ہے ۔ وہاں سے ملاحظہ فرمالیں۔
Top