Tafseer-e-Madani - Al-Hajj : 48
اَوَ لَمْ یَرَوْا اِلٰى مَا خَلَقَ اللّٰهُ مِنْ شَیْءٍ یَّتَفَیَّؤُا ظِلٰلُهٗ عَنِ الْیَمِیْنِ وَ الشَّمَآئِلِ سُجَّدًا لِّلّٰهِ وَ هُمْ دٰخِرُوْنَ
اَوَ : کیا لَمْ يَرَوْا : انہوں نے نہیں دیکھا اِلٰى : طرف مَا خَلَقَ : جو پیدا کیا اللّٰهُ : اللہ مِنْ شَيْءٍ : جو چیز يَّتَفَيَّؤُا : ڈھلتے ہیں ظِلٰلُهٗ : اس کے سائے عَنِ : سے الْيَمِيْنِ : دائیں وَالشَّمَآئِلِ : اور بائیں سُجَّدًا : سجدہ کرتے ہوئے لِّلّٰهِ : اللہ کے لیے وَهُمْ : اور وہ دٰخِرُوْنَ : عاجزی کرنے والے
کیا یہ لوگ اللہ کی پیدا کی ہوئی کسی بھی چیز کو نہیں دیکھتے ؟ کہ (کس طرح) جھکتے ہیں اس کے سائے، دائیں اور بائیں سجدہ کرتے ہوئے اللہ کے حضور، سراپا عجز (و نیاز) بن کر،
95۔ خلق خدا کے احوال میں غور وفکر کی دعوت : سو ارشاد فرمایا گیا کہ کیا یہ لوگ سوچتے اور غور نہیں کرتے اللہ کی پیدا کردہ کسی بھی چیز کے بارے میں۔ اور اس بات میں کہ کس طرح ہر چیز کا سایہ بھی اللہ کے حضور جھکتا ہے ؟ اور خود ان لوگوں کے اپنے سائے بھی جو کہ ان کے پاؤں میں زمین پر پڑے رہتے ہیں اور عاجزانہ طور پر اپنے رب کے حضور جھکے رہتے ہیں۔ تو جب اس کی قدرت کاملہ اور استحقاق عبودیت کا یہ عالم ہے کہ ہر چیز اس کے حضور اس طرح سراپا وعجز ونیاز بن کر جھکی ہوئی ہے تو یہ انسان ضعیف البنیان اپنے اختیار و ارادہ سے اس کے آگے کیوں نہیں جھکتا ؟ تاکہ اس سے ایک طرف تو اس وحدہ لاشریک کی عبادت و بندگی کا حق ادا ہوسکے اور دوسری طرف یہ انسان اس کے حضور سجدہ ریز ہوکردارین کی سعادت و سرخروئی سے بہرہ وروسرفراز ہوسکے۔ سو اس ارشاد ربانی میں انسانی ضمیر کے لئے ایک دستک اور مہمیز ہے کہ وہ صدق دل سے اپنے رب کے حکم پر اس کے حضور جھک کر اپنے خالق ومالک کا حق بندگی ادا کرے اور اپنے لئے دارین کی سعادت و سرخروئی کا سامان کرے۔ وباللہ التوفیق لمایحب ویرید وعلی مایحب ویرید بکل حال من الاحوال۔
Top