Maarif-ul-Quran - Yunus : 83
فَمَاۤ اٰمَنَ لِمُوْسٰۤى اِلَّا ذُرِّیَّةٌ مِّنْ قَوْمِهٖ عَلٰى خَوْفٍ مِّنْ فِرْعَوْنَ وَ مَلَاۡئِهِمْ اَنْ یَّفْتِنَهُمْ١ؕ وَ اِنَّ فِرْعَوْنَ لَعَالٍ فِی الْاَرْضِ١ۚ وَ اِنَّهٗ لَمِنَ الْمُسْرِفِیْنَ
فَمَآ : سو نہ اٰمَنَ : ایمان لایا لِمُوْسٰٓى : موسیٰ پر اِلَّا : مگر ذُرِّيَّةٌ : چند لڑکے مِّنْ : سے قَوْمِهٖ : اس کی قوم عَلٰي خَوْفٍ : خوف کی وجہ سے مِّنْ : سے (کے) فِرْعَوْنَ : فرعون وَمَلَا۟ئِهِمْ : اور ان کے سردار اَنْ : کہ يَّفْتِنَھُمْ : وہ آفت میں ڈالے انہیں وَاِنَّ : اور بیشک فِرْعَوْنَ : فرعون لَعَالٍ : سرکش فِي : میں الْاَرْضِ : زمین وَاِنَّهٗ : اور بیشک وہ لَمِنَ : البتہ۔ سے الْمُسْرِفِيْنَ : حد سے بڑھنے والے
تو موسیٰ پر کوئی ایمان نہ لایا مگر اس کی قوم میں سے چند لڑکے (اور وہ بھی) فرعون اور اس کے اہل دربار سے ڈرتے ڈرتے کہ کہیں وہ ان کو آفت میں نہ پھنسا دے اور فرعون ملک میں متکبر اور متغلب اور (کبر و کفر میں) حد سے بڑھا ہوا تھا۔
اسباب نجات از فرعون وقوم او قال اللہ تعالیٰ ٰ فما امن لموسی الا ذریۃ من قومہ۔۔۔ الی۔۔۔ وبشر ال مومن ین پس باوجود ان زبردست معجزات دیکھنے کے بھی ابتداء میں موسیٰ پر سوائے چند آدمیوں کے جو اس کی قوم سے تھے کوئی ایمان نہ لایا یعنی شروع شروع میں جب موسیٰ (علیہ السلام) مدین سے مصر آئے اور حق کی دعوت دینے لگے تو اس وقت ان کی قوم میں سے قدر قلیل لوگ ان پر ایمان لائے اور وہ بھی فرعون اور اپنے سرداروں سے ڈرتے ڈرتے کہ کہیں مبادا فرعون ان کے ایمان کی خبر پا کر ان کو مبتلائے مصیبت نہ کردے یعنی جو قدرے قلیل لوگ موسیٰ (علیہ السلام) پر ابتداء میں ایمان لائے وہ فرعون اور اپنے سرداروں سے ڈرتے ڈرتے ایمان لائے اطمینان اور امن ان کو بھی نہ تھا اور ان کا خوف بیجا بھی نہ تھا اس لیے کہ : تحقیقی فرعون اس زمین میں بڑا زور آور تھا اور اس میں شک نہیں کہ وہ بڑے بیباکوں اور حد سے گزرنے والوں میں سے تھا۔ کہ اس کا ظلم حد سے گزر چکا تھا یا یہ معنی ہیں کہ تکبر اور غرور میں حد سے گزر گیا اور خدائی کا دعوی کیا۔ مقصود اس سے آں حضرت ﷺ کو تسلی دینا ہے کہ یہی حال آپ ﷺ کے متبعین کا ہے قدر قلیل ہیں اور فرعون کی طرح کفار قریش مسلمانوں کو طرح طرح سے ستا رہے ہیں یہ سب تکبر اور غرور کا نشہ ہے لہذا آپ مسلمانون کی قلت سے رنجیدہ نہ ہوں منکروں کا دل مشکل سے پھرتا ہے۔ : تمام بنی اسرائیل موسیٰ (علیہ السلام) کی بعثت کو اگرچہ نعمت عظمی جانتے تھے اور دل سے ان کو سچا مانتے تھے مگر ابتداء میں ان کو غلبہ اور شوکت حاصل نہ تھی۔ فرعونیوں کا زور تھا۔ اس لیے لوگ ان سے خوفزدہ تھے اس بنا پر ابتداء بعثت میں چند نوجوانوں نے ہمت کی اور باوجود فرعون کے ڈر کے اپنے ایمان اور اسلام کا اعلان کردیا باقی لوگ منتظر رہے کہ جب حق کو غلبہ اور عزت حاصل ہوگی۔ اس وقت مسلمان ہوجائیں گے جیسا کہ بہت سے کفار قریش فتح مکہ کے منتظر تھے۔ پس جب آخر میں موسیٰ (علیہ السلام) کو غلبہ نصیب ہوا اور حق کا کلمہ بلند ہوا تب پوری قوم بنی اسرائیل کی ایمان لے آئی جو چھ لاکھ بالغ مردوں پر مشتمل تھی۔ اس آیت میں شروع شروع کا قصہ بیان کیا گیا ہے کہ ابتداء میں قدرے قلیل آدمی موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لائے باقی آخر میں تمام بنی اسرائیل مسلمان ہوگئے تھے اور بعض علماء تفسیر اس طرف گئے ہیں کہ من قومہ کی ضمیر فرعون کی طرف راجع ہے اور مطلب یہ ہے کہ باوجود موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات قاہرہ دیکھنے کے موسیٰ (علیہ السلام) پر قوم فرعون میں سے صرف چند آدمی ایمان لائے اور باقی سب نے تکذیب کی پس اے نبی ! اگر آپ کی قوم یہی معجزات قاھرہ دیکھنے کے بعد آپ ﷺ کی تکذیب کرے تو رنجیدہ نہ ہوں۔ ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں اسی قول کو اختیار کیا کہ من قومہ کی ضمیر فرعون کی طرف راجع ہے۔ اور امام ابن جریر نے قول اول کو اختیار کیا کہ من قومہ کی ضمیر موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف راجع ہے۔ اور موسیٰ (علیہ السلام) نے جب ان اہل ایمان کو فرعون سے خائف دیکھا تو ان سے یہ کہا کہ اے میری قوم ! اگر تم اللہ پر ایمان لائے ہو اور یہ جانتے ہو کہ نفع اور ضرر سب اسی کے قبضۂ قدرت میں ہے تو اسی پر بھروسہ کرو۔ وہ تم کو دشمن کے فتنہ سے بچائے گا۔ اگر تم اللہ کے فرمانبردار ہو۔ اور تم نے اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے حوالہ اور سپرد کردیا ہے تو پھر گھبرانے کی کیا ضرورت ہے۔ زندہ کنی عطائے تو دربکشی خدائے تو جاں شدہ مبتلائے تو ہر چہ کنی رضائے تو ایمان واسلام اور توکل صادق اگر جمع ہوگئے تو دیکھ لینا کہ تمہاری ذلت مبدل بہ عذت ہوجائے گی اور فرعون کی عزت مبدل بہ ذلت ہوجائے گی۔ ایمان کے معنی تصدیق اور یقین کے ہیں اور توکل کے معنی اعتماد اور بھروسہ کے ہیں اور اسلام کے معنی سپرد کردینے کے ہیں۔ سپردم تبومایہ خویش را تو دانی حساب کم وبیش را اور مطلب یہ ہے کہ اگر ایمان وایقان میں سچے ہو تو تم پر توکل (یعنی اللہ پر اعتماد کرنا) واجب ہے اور توکل کی علامت یہ ہے کہ اپنے آپ کو خدا کے حوالہ اور سپرد کرو اور اسباب ظاہری سے نظر کو ہٹا لواس لیے اس آیت میں ایک حکم (یعنی حکم توکل) کو دو شرطوں پر معلق فرمایا اور ایک حکم کو دو شرطوں کے درمیان میں اس لیے ذکر کیا کہ نفس توکل کا وجوب نفس ایمان پر موقوف اور معلق ہے اور صدق توکل کا ظہور اسلام یعنی تفویض و تسلیم پر موقوف اور معلق ہے خوب سمجھ لو۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی یہ کہے اگر تھے زید بلاوے تو چلاجان اگر ممکن ہو۔ پس انہوں نے موسیٰ (علیہ السلام) کے اس موعظت بلیغہ کے جواب میں عرض کی اے موسیٰ ہم نے اللہ پر بھروسہ کرلیا۔ وہی دشمن سے حفاظت کرے گا۔ اب ہماری نظر صرف پروردگار پر ہے۔ اور دعا کرتے ہیں اے پروردگا ہم کو ان ظالم لوگوں کے ظلم کا تختہ مشق نہ بنا تاکہ ایمان کی عزت ظاہر ہو اور ہم کو اپنی رحمت سے اس کافر قوم کے فتنہ کی ذلت سے نجات دے۔ یعنی کفر کا غلبہ ہم اٹھا لے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم نے ان کی دعا قبول کی اور موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے بھائی ہارون کی طرف وحی بھیجی کہ فتنہ کفر سے نکلنے کا سامان اس طرح کرو کہ تم دونوں اپنی قوم کے لیے مصر میں گھر بناؤ کہ وہی گھر تمہارے جائے سکونت ہوں اور ہی گھر تمہارے لیے جائے عبات ہوں۔ مطلب یہ ہے 1 کہ اندرون شہر گھر بناؤ بیرون شہر گھر نہ بناؤ تاکہ کسی عبادت یا اجتماع کے لیے تم کو بیرو شہر جانے کی ضرورت پڑے اور پھر مبادا تمہاری بات کی خبر تمہارے دشمن کو پہنچے یا یہ مطلب ہے کہ تم بدستور مکانوں میں ٹھہرے رہو اور قبطیوں کے خوف سے اپنے گھروں کو نہ چھوڑو ہم ان کے محافظ ہیں۔ بہرحال آیت میں دو احتمال ہیں یا تو مطلب یہ ہے کہ گذشتہ گھروں کو برقرار رکھو اور بدستور اپنے مکانوں میں ٹھہرے رہو۔ فرعون کے ڈر سے اپنے گھروں کو نہ چھوڑو اللہ تمہارا محافظ اور نگہبان ہے یا مطلب ہے کہ اپنی قوم کے لیے مصر میں نئے مکان تیار کرو جو قبلہ رخ ہو تاکہ سکونت اور عبادت دونوں کے لیے کام دے سکیں اور بیوتا چونکہ نکرہ ہے اس لیے بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ نئے گھروں کے بنانے کا حکم دینا مراد ہے اور مطلب یہ ہے کہ تم دونوں مصر میں اپنی قوم کے لیے کچھ اور مکان تیار کرو اور پنے ان گھروں کا رخ قبلہ کی طرف کرو یعنی ان گھروں کو قبلہ رخ بناؤ۔ بیت المقدس کے رخ پر یا کعبہ کے رخ پر کیونکہ ابن عباس اور مجاہد اور قتادہ سے مروی ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) خانہ کعبہ کی طرف نماز پڑھا کرتے تھے اور انہی گھروں میں نماز قائم رکھو۔ خوف کی وجہ سے مسجد کی حاضری معاف کردی گئی۔ لہذا اپنے گھروں ہی میں خفیہ نماز پڑھ لیا کرو۔ جیسے ابتداء اسلام میں مومنوں کو حکم ہوا۔ فرعونی بنی اسرائیل کو مساجد میں نماز پڑھنے سے روکتے تھے اس لیے بحالت مجبوری ان کو حکم دیا گیا کہ اپنے گھروں کو قبلہ کے رخ بنا لو اور انہی میں نماز پڑھ لیا کرو تاکہ فرعونیوں کو تمہاری نماز اور عبادت کی خبر نہ ہو اور جب بنی اسرائیل کو فرعونیوں کی طرف سے سخت بلائیں پہنچیں تو حکم ہو کہ کثرت سے نمازیں پڑھا کرو۔ اللہ تعالیٰ نماز کی برکت سے تمہاری یہ بلا اور مصیبت دور کردے گا۔ (1 ۔ آیت کا یہ مطلب ملا مخدوم مہایمی (رح) نے اپنی تفسیر میں بیان کیا ہے۔ اصل عبارت یہ ہے۔ واوحینا الی موسیٰ واخیلہ لحفظ قومھما من فتنۃ العدوان تبوا ای اتخذا مبارۃ لقومکمابمصر لا خارجہ لئلا یواخذکم بالخروج عن دینہ بیوتا۔ لئلا زموھا فلا تخرجوا عنھا لجتتمعوا للحکایات فیصل خبرھم الی العدو وتبصیر الرحمن ص 334 ج 1 اور دوسرا مطلب معروف ومشہور ہے۔ اور تبؤ کے معنی قرار پکڑنے کے ہیں۔ کما قال تعالیٰ ۔ والذین تبوء و الدار الزموھا۔ ) کما قال تعالیی۔ قال موسیٰ لقمہ استعینوا باللہ واصبرا۔ وقال اللہ تعالی۔ یا ایہا الذین انموا استعینوا بالصبر والصلوۃ۔ اور حدیث میں ہے کہ آں حضرت ﷺ کو جب کوئی پریشانی پیش آتی تو نماز پڑھتے (رواہ ابو داود کثر سے نمازیں پڑھنے سے بلائیں دور ہوتی ہیں) اور اہل ایمان کو بشارت سنا دیجئے کہ عنقریب تمہارا دشمن تباہ وبرباد ہوجائے گا اور تم کو اس مصیبت سے نجات ملے گی۔ حضرت شاہ عبدالقادر قدس اللہ سرہ اس آیت کا ایک اور مطلب یہ بیان فرماتے ہیں جو نہایت لطیف ہے فرماتے ہیں " جب فرعون کی ہلاکت کا وقت قریب آیا تو حکم ہوا کہ اپنی قوم یعنی بنی اسرائیل کو ان میں شامل نہ رکھو اپنا محلہ جدا بساؤ کہ آگے ان پر آفتیں آنے والی ہیں اس وقت تمہاری قوم ظاہری طور پر بھی ان آفتوں سے الگ تھلگ رہے اور آپ کی قوم ان کی آفت میں شریک نہ ہو " انتہی۔ موضح القرآن مطلب یہ ہے کہ جب فرعون اور اس کی قوم پر نزول عذاب کا زمانہ نزدیک آپہنچا تو اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) کو بذریعہ وحی یہ حکم دیا کہ اپنی قوم سمیت ان کفار ناہنجار سے علیحدہ ہوجاؤ اور مصر میں اپنی قوم کے لیے علیحدہ اور الگ گھر بناؤ اور اپنا محلہ ہی الگ اور جدا بسا لو اور اپنی قوم کو فرعونیوں میں شامل نہ رکھو تاکہ قوم فرعون پر جب کوئی آفت اور بلا نازل ہو تو تم اس میں شریک نہ ہو اور اپنے گھروں کو قبلہ رخ بنا لو تو قبلہ رخ ہونے سے قبلہ کے انوار وبرکات تمہارے گھروں میں پہنچیں گے۔ اور ان ہی میں کثرت سے نماز پڑھا کرو۔ نماز کی کثرت سے بلائیں دفع ہوتی ہیں۔ لہذا مسلمانوں کو چاہئے کہ اپنا محلہ جدا رکھیں اور اپنے مکانات قبلہ رخ بنائیں قبلہ رخ بیٹھنا بھی عبادت ہے۔ محاذات قبلہ، قبلہ کے انوار و تجلیات کو خوب جذب کرتی ہے جمہور مفسرین نے واجعلوا بیوتکم قبلۃ کے معنی یہ بیان کیے ہیں کہ اپنے گھروں کو قبلہ رخ بناؤ اور ابن عباس اور سعید بن جبیر اور قتادہ اور ضحاک فرماتے ہیں کہ اس آیت میں قبلۃ سے متقابلۃ کے معنی مراد ہیں۔ یعنی مسلمانوں کا ایک ایسا جدا محلہ بناؤ جن کے گھر ایک دوسرے کے مقابل یعنی آمنے سامنے ہوں۔ مسلمان کے سامنے مسلمان ہی کا گھر ہو تاکہ مسلمان کے گھر میں سامنے سے کفر اور شرک کی نجاست کی بدبو نہ آجائے اور اس گھر کی ایمانی آب وہوا کو خراب نہ کرے۔ قال اللہ تعالیٰ انما المشرکون نجس وقال النبی ﷺ ان ال مومن لاینجس جسمانی طبیب ظاہری نجاست کے جراثیم سے تحفظ اور احتیاط کا حکم دیتے ہیں کوڑی کے سامنے گھر بنانے کی اجازت نہیں اور روحانی طبیب یعنی انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام معنوی نجاست (کفر اور معصیت) کے جراثیم سے تحفظ کا حکم دیتے ہیں۔
Top