Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - Yunus : 83
فَمَاۤ اٰمَنَ لِمُوْسٰۤى اِلَّا ذُرِّیَّةٌ مِّنْ قَوْمِهٖ عَلٰى خَوْفٍ مِّنْ فِرْعَوْنَ وَ مَلَاۡئِهِمْ اَنْ یَّفْتِنَهُمْ١ؕ وَ اِنَّ فِرْعَوْنَ لَعَالٍ فِی الْاَرْضِ١ۚ وَ اِنَّهٗ لَمِنَ الْمُسْرِفِیْنَ
فَمَآ
: سو نہ
اٰمَنَ
: ایمان لایا
لِمُوْسٰٓى
: موسیٰ پر
اِلَّا
: مگر
ذُرِّيَّةٌ
: چند لڑکے
مِّنْ
: سے
قَوْمِهٖ
: اس کی قوم
عَلٰي خَوْفٍ
: خوف کی وجہ سے
مِّنْ
: سے (کے)
فِرْعَوْنَ
: فرعون
وَمَلَا۟ئِهِمْ
: اور ان کے سردار
اَنْ
: کہ
يَّفْتِنَھُمْ
: وہ آفت میں ڈالے انہیں
وَاِنَّ
: اور بیشک
فِرْعَوْنَ
: فرعون
لَعَالٍ
: سرکش
فِي
: میں
الْاَرْضِ
: زمین
وَاِنَّهٗ
: اور بیشک وہ
لَمِنَ
: البتہ۔ سے
الْمُسْرِفِيْنَ
: حد سے بڑھنے والے
پس نہیں ایمان لائے موسیٰ (علیہ السلام) پر مگر کچھ نوجوان ان کی قوم سے ڈرتے ہوئے فرعون سے اور ان کے سرداروں سے کہ کہیں وہ ان کو فتنے میں مبتلا نہ کر دے۔ اور بیشک فرعون البتہ مغرور تھا زمین میں ۔ اور بیشک وہ حد سے بڑھنے والا تھا
ربط آیات سرکش لوگوں کے سلسلے میں اللہ تعالیٰ نے پہلے حضرت نوح (علیہ السلام) اور ان کی قوم کا حال بیان کیا۔ پھر موسیٰ اور ہارون (علیہما السلام) اور ان کے مخالفین اور متکبرین فرعون اور اس کی قوم کا ذکر کیا۔ دراصل یہ مشرکین عرب اور ان کے بعد آنے والوں کو تنبیہ کی جارہی ہے کہ اگر وہ بھی سابقہ اقوام کی طرح غرور اور تکبر کو اختیار کریں گے ، حق کے خلاف بغاوت کریں گے تو ان کا انجام بھی فرعون اور اس کے سرداروں سے مختلف نہیں ہوگا۔ فرعون کا واقعہ مختصرا پہلے بیان ہوچکا ہے۔ جب موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون کے سامنے خدا تعالیٰ کا پیغام پیش کیا تو اس نے اور اس کے ساتھیوں نے اسے سحر کہہ کر رد کردیا ، اور کہنے لگا کہ تم ہمیں ہمارے آبائو اجداد کے طریقے سے ہٹانا چاہتے ہو اور ہم سے ہمارا دین چھڑانا چاہتے ہو۔ اور ساتھ یہ بھی کہا کہ ہم اپنے جادوگروں کو تمہارے مقابلے کے لیے لے آئیں گے۔ چناچہ بڑے بڑے جادوگروں کو اکٹھا کرلیا گیا تو موسیٰ (علیہ السلام) نے انہیں اپنا کرتب پیش کرنے کی دعوت دی۔ جب انہوں نے اپنا کرتب دکھایا تو موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ یہ تو جادو ہے اور اللہ تعالیٰ جادو کو ضرور باطل کر دیگا اور یاد رکھو ! کہ اللہ تعالیٰ فسادیوں کے کام کو کبھی نہیں سنوارتا اور حق کو اپنے حکم سے ثابت کرتا ہے اگرچہ مجرم لوگ کتنا ہی ناپسند کیوں نہ کریں۔ چند اہل ایمان افراد اب اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لانے والوں کی کچھ کیفیت بیان فرمائی ہے۔ جس سے فرعون اور اس کی قوم کے مظالم کا نقشہ بھی کسی حد تک سامنے آتا ہے ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” فما امن لموسی “ اور نہ ایمان لائے موسیٰ (علیہ السلام) پر (آیت) ” الا ذریۃ من قومہ “ گر آپ کی قوم کے کچھ نوجوان۔ ذریت کا لفظی معنی۔۔ خواہ وہ لڑکے ہوں یا لڑکیاں۔ سورة آل عمران میں حضرت مریم (علیہ السلام) کے واقعہ میں آتا ہے (آیت) ” ذریۃ بعضھا من بعض “ یعنی اولاد کے بعض افراد بعض سے ہیں۔ اس آیت کریمہ میں ذریت کے لفظ کو مفسرین کرام نے دو مختلف معانی پر محمول کیا ہے ۔ اور اس کا ایک معنی افراد کی قلیل تعداد ہے۔ جب قومہ کی ضمیرفرعون کی طرف لوٹائی جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ قوم فرعون کے تھوڑے سے افراد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لائے جن کا ذکر قرآن واحادیث میں ملتا ہے۔ ان میں فرعون کی بیوی آسیہ ، فرعون کا ایک خزانچی ، فرعون کی بیٹی کو کنگھی وغیرہ کرنے والی خادمہ کا خاندان ، اور آل فرعون کا ایک مومن شامل ہیں۔ فرعون کی بیوی آسیہ کا ذکر سورة تحریم میں موجود ہے۔ اس نے بڑی تکالیف برداشت کیں اور بالآخر اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ وہ اسے قوم فرعون کے ظالم سے نجات دے۔ اسی طرح فرعون کی بیٹی کی خادمہ کے خاندان کو بھی فرعون نے بڑی سخت سزا دی۔ تانبے سے بنے ہوئے گھوڑے کے مجسمہ میں آگے جلا کر پورے خاندان کو اس میں جھونک دیا اور جلا ڈالا۔ آل فرعون کے ایک مومن کا ذکر سورة مومن میں موجود ہے ، بلکہ سورة کا نام مومن اسی مومن کے نام پر ہے۔ پہلے وہ شخص اپنے ایمان کو ظاہر نہیں کرتا تھا مگر کسی موقع پر اس نے اپنے ایمان کا اظہار کیا تو سخت آزمائش میں مبتلا ہوگیا ، بہرحال ذریت سے مراد یہی تھوڑے سے لوگ ہیں جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لائے۔ چند بنی اسرائیلی نوجوان بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ قومہ سے مراد موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم ہے اور ذریت سے مراد نوجوان ہیں اور اس طرح مطلب یہ ہوگا کہ موسیٰ (علیہ السلام) پر ان کی قوم کے چند نوجوان ہی ایمان لائے۔ اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل کی تعداد تو چھ لاکھ سے تجاوز کرچکی تھی جب انہوں نے بحرقلزم کو عبور کیا مگر یہاں صرف چند نوجوانوں کے ایمان کا ذکر آیا ہے۔ بات یہ ہے کہ بنی اسرائیل اپنی کثیرتعداد کے باوجود فرعون کے مظالم سے سہمے ہوئے تھے وہ اگرچہ موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان رکھتے تھے مگر اس کا اظہار نہیں کرتے تھے کہ کہیں کسی بڑی مصیبت میں گرفتار نہ ہوجائیں۔ فرعون قوم بنی اسرائیل کے خلاف ابتدا ہی سے تھا۔ اسے نجومیوں نے بتا دیا تھا کہ بنی اسرائیل میں ایک ایسا بچہ پیدا ہونے والا ہے جو تیری سلطنت کے زوال کا باعث بنے گا۔ لہٰذا اس نے بنی اسرائیل کے نو مولود بچوں کے قتل کا حکم دے دیا اور اسی طرح وہ نوے ہزار بچوں کے قتل کا مرتکب ہوا۔ چناچہ بنی اسرائیل فرعون کی طرف سے سخت سزا کے خوف سے اپنے ایمان کا اظہار نہ کرتے تھے حالانکہ ان میں یہ تصور پایا جاتا تھا کہ اللہ تعالیٰ کسی ایسی شخصیت کو بھیجے گا جو انہیں فرعون کے ظلم سے نجات دلائے گا۔ تا ہم وہ چند لوگ ہی تھے جنہوں نے اپنے ایمان کا برملا اظہار کیا اور پھر سخت ترین تکالیف برداشت کیں حتی کہ فرعون کی بیوی نے جام شہادت نوش کیا۔ اس لیے فرمایا کہ موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان نہ لائے مگر اس کی قوم کے چند جوان۔ فرعون کے مظالم اور اس کی وجہ یہ تھی (آیت) ” علی خوف من فرعون وملائھم “ انہیں فرعون اور اس کے سرداروں مظالم کا خوف تھا اس لیے وہ کھل کر اپنے ایمان کا اظہار نیں کرتے تھے۔ کہتے تھے (آیت) ” ان یفتنھم “ کہیں وہ انہیں کسی فتنہ میں مبتلا نہ کر دے۔ کیونکہ وہ جانتے تھے (آیت) ” وان فرعون لعال فی الارض “ کہ فرعون زمین پر مغرور تھا ، لہٰذا وہ کسی کو خاطر میں نہ لاتا تھا (آیت) ” وانہ لمن المسرفین “ اور بیشک وہ حد سے بڑھنے والا تھا۔ فرعون کی سرکشی ، اس کی من مانی کاروائی اور بنی اسرائیل کو ایذا رسانی سب کے سامنے تھی ، لہٰذا وہ اس ڈر سے ایمان کا اظہار نہیں کرتے تھے کہ کہیں فرعون کے مظالم کا شکار نہ ہوجائیں۔ چند نوجوانوں کے ایمان لانے میں اس حقیقت کا انکشاف کیا گیا ہے کہ نوجوانوں میں نیا خون ، نیا ولولہ اور نیا جوش ہوتا ہے اس لیے کسی انقلابی اقدام کی توقع انہیں سے کی جاسکتی ہے۔ اس کے برخلاف عمر رسیدہ لوگ مصلحت کوش ہوتے ہیں۔ کم وبیش چالیس سال میں بن جانے والی ذہینت کو بدلنا نہایت مشکل ہوتا ہے ، لہٰذا بوڑھے لوگوں میں سے شاذ ونادر ہی ایسے ہوتے ہیں جو اپنی پرانی ڈگر کو ترک کرسکیں۔ چناچہ حضور خاتم النبین ﷺ پر ایمان لانے والوں میں نوجوان طبقہ ہی پیش پیش تھا جب کہ بوڑھے آدمیوں کی تعداد نہایت قلیل تھی۔ خدا پر بھروسہ فرعون اور اس کے حواریوں کے مظالم کے پیش نظر (آیت) ” وقال موسیٰ “ موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم کے لوگوں سے کہا (آیت) ” یقوم ان کنتم امنتم باللہ “ اے میری قوم کے لوگو ! اگر تم حقیقت میں اللہ پر ایمان لائے ہو (آیت) ” فعلیہ توکلوا “ تو پھر بھروسہ بھی اسی پر کرو (آیت) ” ان کنتم مسلمین “ اگر تم فرمانبرداری کرنے والے ظاہری اسباب کو اختیار کرنا بھی ضروری ہے مگر ان اسباب کو ہی اول وآخر نہیں سمجھ لینا چاہیے بلکہ اسباب کو بروئے کار لاتے ہوئے بھروسہ اللہ پر ہی کرنا چاہیے کیونکہ اسباب کا پیدا کرنے والا اور ہر چیز کا متصرف اللہ تعالیٰ ہی ہے اگر وہ چاہے تو بےسروسامانی کی حالت میں بھی ایسے اسباب پیدا فرمادے گا جس سے تمہیں کامیابی نصیب ہو جائیگی اور وہ اس چیز پر بھی قادر ہے کہ تمام اسباب کی موجودگی میں بھی کسی چیز کو ناکام بنا دے ، لہٰذا بھروسہ اسی پر ہونا چاہیے۔ تو اس کے جواب میں معدودے چند اہل ایمان نے کہا (آیت) ” فقالوا علی اللہ توکلنا “ تو کہا انہوں نے ہم اللہ کی ذات پر ہی بھروسہ کرتے ہیں۔ اور ساتھ اللہ کی بارگاہ میں یہ دعا بھی کی۔ (آیت) ” ربنا لا تجعلنا فتنۃ للقوم الظلمین “ اے ہمارے پروردگار ! ہمیں ظالم قوم کے لیے آزمائش نہ بنا کر ہم ہر وقت ان کے تختہ مشق بنے رہیں۔ اہل ایمان کی آزمائش فرعون جیسے ظالم لوگ ہمیشہ کمزوروں پر دست درازی کرتے رہتے ہیں اور دین میں اختلاف رکھنے والے تو خاص طور پر ان کے مظالم کا نشانہ بنتے ہیں۔ قریش مکہ نے بھی غریب مسلمانوں کے ساتھ یہی سلوک کیا۔ اہل ایمان اور خود حضور ﷺ کو سخت اذیت پہنچاتے تھے حتی کہ جب ابو جہل جہنم واصل ہوا تو حضور ﷺ اللہ کی بارگاہ میں سجدہ شکر بجا لائے اللہ کے حضور دعا کی کہ مولا کریم ! ہمیں ظالم قوم کا تختہ مشق نہ بنا (آیت) ” ونجنا برحمتک من القوم الکفرین “ اور اپنی خاص رحمت سے ہمیں کافر قوم سے نجات دے۔ کافر ہمیشہ سے اہل ایمان پر ظلم وستم کرتے آئے ہیں۔ ہماری امت کے مسلمانوں کا بھی آجکل یہی حال ہے ساری دنیا کے مسلمان کافر قوموں کا تختہ مشق بنے ہوئے ہیں کہیں امریکہ ظلم ڈھا رہا ہے ، کہیں روس اور کہیں دوسرے اغیار۔ وہ جس طرح چاہتے ہیں مسلمانوں کو ذلیل و خوار کرتے ہیں مگر کوئی کسی کی مدد کو نہیں پہنچ سکتا۔ اور یہ آزمائش اس لیے آئی ہوئی ہے کہ مسلمان قوم اپنے مرکز سے ہٹ چکی ہے پوری دنیا میں مسلمانوں کے قتل اور لوٹ مار کی داستانیں سنی جاتی ہیں ، فلسطین ہو یا لبنان ، قبرص ہو یا افریقہ ، فلپائن ہو یا افغانستان ہر جگہ مسلمان ہی مصیبت ہیں لہٰذا اہل ایمان کو نہایت خلوص کے ساتھ اللہ رب العزت کی بارگاہ میں دعا کرنی چاہیے کہ وہ انہیں کفار کے مظالم کی آزمائش میں نہ ڈالے۔ ہندوستان کے ہندوئوں کی تنگ نظری بھی آپ کے سامنے ہے تقسیم ملک کے بعد ہندوستان میں چھبیس ہزار سے زیادہ ہندو مسلم فساد برپا کیے جا چکے ہیں جن میں لاکھوں انسان موت کے گھاٹ اتر چکے ہیں۔ یہ سب کچھ ہندوئوں کے ہاتھوں مسلمانوں کے خلاف ہو رہا ہے۔ جہاں بھی کسی کافر یا مشرکی کو موقع ملتا ہے وہ مسلمانوں کو ذلیل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ بہرحال اس زمانہ میں دنیا کے تمام خطوں میں مسلمان کڑی آزمائش میں مبتلا ہیں۔ صرف افغانستان میں بیس لاکھ آدمی موت کے گھاٹ اتر چکے ہیں مگر کوئی پرسانِ حال نہیں۔ قوم موسیٰ (علیہ السلام) کو علیحدگی کا حکم بنی اسرائیل کے ساتھ یہی سلوک ہو رہا تھا جب انہوں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی ہمیں ظالموں کا تختہ مشق نہ بنا اور اپنی خاص رحمت سے ان ظالموں سے نجات دے۔ ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” واوحینا الی موسیٰ واخیہ “ اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے بھائی ہارون (علیہ السلام) کی طرف وحی بھیجی (آیت) ” ان تبوا لقومکما بمصربیوتا “ کہ اپنی قوم کے لیے مصر کے اندار گھر مقرر کرو۔ شاہ عبدالقادر (رح) اور بعض دوسرے مفسرین فرماتے ہیں کہ جب فرعون کے مظالم بہت بڑھ گئے تو بنی اسرائیل کو حکم دیا گیا کہ وہ اپنے گھر قبطی قوم سے علیحدہ کرلیں۔ فرعونی قوم میں خلط ملط ہونے کی بجائے اپنی علیحدہ بستیاں آباد کریں اور وہاں سارے بنی اسرائیل مل جل کر رہیں تا کہ فرعون کے مظالم سے کسی حد تک محفوظ رہ سکیں۔ بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ فرعونی قوم تو کسی کا زبانی ایمان لانا بھی برداشت نہیں کرتے تھے۔ چہ جائیکہ اہل ایمان اپنے عبادت خانے تعمیر کر کے ان کے اندر نماز ادا کرتے اس زمانے میں عبادت صرف عبادت کے لیے مخصوص مقامات پر ہی ادا ہوسکتی تھی ، لہٰذا بنی اسرائیل کی قوم فرعون سے علیحدگی کی ایک وجہ یہ تھی کہ وہ اپنے گھروں میں نماز پڑھنے کے لیے مناسب جگہ بھی مخصوص کرسکیں۔ گھروں میں نماز کا حکم فرمایا مصر میں اپنے ٹھکانے بنائو (آیت) ” واجعلوا بیوتکم قبلۃ “ اور اپنے گھروں کے اندر ہی قبلہ بنائو۔ بعض فرماتے ہیں کہ اپنے گھروں میں ہی مسجدیں بنائو جن کا رخ قبلہ کی طرف ہو۔ اور پھر وہاں چھپ کر نمازیں ادا کرو۔ تا کہ فرعونیوں کو تمہارے ایمان کا پتہ نہ چل سکے۔ بہر حال اگر نماز کے لیے گھر میں بھی کوئی جگہ مخصوص کرلی جائے تو اس کا قبلہ رخ ہونا ضروری ہے تا کہ نماز ادا کرنے میں دقت نہ ہو اور پھر ایسی جگہ کو پاک صاف رکھنا بھی ضروری ہے کیونکہ یہ جگہ مسجد ہی کے حکم میں آتی ہے۔ ہماری امت کے لیے بھی حضور ﷺ کا فرمان ابودائود شریف میں موجود ہے کہ گھر میں جس جگہ کو نماز کے لیے مخصوص کرو اس کو پاک صاف رکھا کرو۔ سورة نور میں خدا تعالیٰ کا حکم بھی موجود ہے (آیت) ” فی بیوت اذن اللہ ان ترفع ویذکر فیھا اسمہ “ ایسے ہی گھروں کے متعلق اللہ نے فرمایا کہ ان کو بلند کیا جائے اور ان میں اللہ کا ذکر کیا جائے ، وہاں کوئی کوڑا کرکٹ یا ظاہری گردوغبار نہیں ہونا چاہیے اور نہ ہی باطنی گندگی یعنی کفر ، شرک ، بدعات اور شعر و شاعری ہونی چاہیے۔ مسجد کے آداب ہمارے ملک میں مساجد کے آداب کو قطعا ملحوظ نہیں رکھا جارہا۔ اللہ کی مسجدوں میں شرکیہ باتیں ہوتی ہیں۔ بدعات کو رواج دیا جاتا ہے شعر و شاعری اور شور شر برپا کیا جاتا ہے۔ حضور ﷺ کا ارشاد ہے کہ قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ بھی ہے کہ لوگ مساجد میں شور برپا کریں گے اب تو لاوڈ سپیکر ایک مصیبت بن کر آگیا ہے۔ اس کے فائدے سے اس کا نقصان زیادہ ہے۔ مسجد میں کوئی سننے والا موجود ہو یا نہ ہو ، سپیکر چل رہا ہے اور سارے محلے میں خلفشار برپا ہے۔ نہ کوئی سکون کے ساتھ نماز ادا کرسکتا ہے ، نہ تلاوت کرسکتا ہے ، بیمار کو آرام میسر نہیں ، طالب علم اپنی تیاری سے محروم ہے۔ کبھی صلوٰۃ وسلام ہو رہا ہے ، کبھی تلاوت ہو رہی ہے ، کبھی سپیکر پر بچوں کی درس و تدریس ہر وہی ہے ، نعت خوانی اور غزل گوئی چل رہی ہے ، یہ سب زیادتی اور غلط طریقہ ہے۔ اگر لاوڈ سپیکر کا استعمال واقعی ضروری ہے تو پھر اسے سامعین تک محدود رکھو ، ساری دنیا کو کیوں پریشان کرتے ہو۔ اگر مسجد میں کچھ لوگ بیٹھے ہیں اور وعظ وتبلیغ کے لیے سپیکر کی واقعی ضرورت ہے تو پھر اسے مسجد تک محدود رکھو۔ باقی لوگوں کو پریشان کرنا کہاں کا انصاف ہے اور کونسا دین ہے ؟ اس قباحت میں کوئی ایک گروہ نہیں بلکہ سارے کے سارے فرقے شامل ہیں اور ایک دوسرے سے بڑھ کر شور کرنے میں مصروف ہیں۔ نماز کی تلقین الغرض ! فرمایا ، اپنے گھروں کے اندر ہی مسجدیں بنائو اور ان کا رخ قبلہ کی طرف رکھو (آیت) ” واقیموا الصلوۃ “ اور پھر ان میں نماز بھی ادا کرو کیونکہ نماز کسی حالت میں بھی ترک نہیں کی جاسکتی۔ نماز کی برکت سے اللہ تعالیٰ تمہاری مشکلات کو آسان فرمائے گا اور تمہارا تعلق بھی اللہ تعالیٰ کے ساتھ درست رہے گا ، لہٰذا نماز پڑھا کرو۔ اور اس کے صلے کے طور ارشاد ہوا (آیت) ” وبشر المومنین “ ایمان والوں کو خوشخبری سنا دو کہ خواہ ان پر کتنے بھی مصائب آئیں ، بالآخر اللہ تعالیٰ انہیں ابدی راحتوں سے نوازے گا اور انہیں ابدی کامیابی نصیب ہوگی۔
Top