Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Yunus : 83
فَمَاۤ اٰمَنَ لِمُوْسٰۤى اِلَّا ذُرِّیَّةٌ مِّنْ قَوْمِهٖ عَلٰى خَوْفٍ مِّنْ فِرْعَوْنَ وَ مَلَاۡئِهِمْ اَنْ یَّفْتِنَهُمْ١ؕ وَ اِنَّ فِرْعَوْنَ لَعَالٍ فِی الْاَرْضِ١ۚ وَ اِنَّهٗ لَمِنَ الْمُسْرِفِیْنَ
فَمَآ
: سو نہ
اٰمَنَ
: ایمان لایا
لِمُوْسٰٓى
: موسیٰ پر
اِلَّا
: مگر
ذُرِّيَّةٌ
: چند لڑکے
مِّنْ
: سے
قَوْمِهٖ
: اس کی قوم
عَلٰي خَوْفٍ
: خوف کی وجہ سے
مِّنْ
: سے (کے)
فِرْعَوْنَ
: فرعون
وَمَلَا۟ئِهِمْ
: اور ان کے سردار
اَنْ
: کہ
يَّفْتِنَھُمْ
: وہ آفت میں ڈالے انہیں
وَاِنَّ
: اور بیشک
فِرْعَوْنَ
: فرعون
لَعَالٍ
: سرکش
فِي
: میں
الْاَرْضِ
: زمین
وَاِنَّهٗ
: اور بیشک وہ
لَمِنَ
: البتہ۔ سے
الْمُسْرِفِيْنَ
: حد سے بڑھنے والے
پس بات نہ مانی موسیٰ (علیہ السلام) کی مگر اس کی قوم کے تھوڑے سے لوگوں نے ڈرتے ہوئے فرعون اور خود اپنی قوم کے سربرآوردہ لوگوں کے ڈر سے۔ ایسا نہ ہو کہ فرعون ان کو کسی فتنہ میں ڈال دے اور بیشک فرعون زمین میں غالب تھا اور وہ حد سے بڑھ جانے والوں میں سے تھا۔
فَمَآ اٰمَنَ لِمُوْسٰٓی اِلاَّ ذُرِّیَّۃٌ مِّنْ قَوْمِہٖ عَلٰی خَوْفٍ مِّنْ فِرْعَوْنَ وَمَلَا ْ ئِہِمْ اَنْ یَّفْتِنَھُمْ ط وَاِنَّ فِرْعَوْنَ لَعَالٍ فِی الْاَرْضِ ج وَاِنَّہٗ لَمِنَ الْمُسْرِفِیْنَ ۔ (یونس : 83) (پس بات نہ مانی موسیٰ (علیہ السلام) کی مگر اس کی قوم کے تھوڑے سے لوگوں نے ڈرتے ہوئے فرعون اور خود اپنی قوم کے سربرآوردہ لوگوں کے ڈر سے۔ ایسا نہ ہو کہ فرعون ان کو کسی فتنہ میں ڈال دے اور بیشک فرعون زمین میں غالب تھا اور وہ حد سے بڑھ جانے والوں میں سے تھا۔ ) اس آیت کریمہ میں سلسلہ کلام کو آگے بڑھاتے ہوئے چند ایسے اشارات فرمائے گئے ہیں جو اگر ایک طرف نبی کریم ﷺ اور آپ کے متبعین میں سے دعوت الی اللہ کا فرض انجام دینے والوں کے لیے ایک ایسی ہدایت اور روشنی کا سامان ہیں جس سے ہٹ کر کبھی سوچا بھی نہیں جاسکتا اور دوسری طرف مشرکین مکہ میں سے جو لوگ آنحضرت ﷺ کی دعوت پر ایمان لائے تھے ان کے لیے ایک ایسی تائید ہے جو ان کے لیے باعث فخر بھی ہے اور حوصلہ کا سامان بھی اور تیسری طرف وقت کی غالب اور جابر حکومت کے لیے غور وفکر کا سامان ہے جس کے نتیجے میں وہ بڑی آسانی سے اپنا انجام دیکھ سکتے ہیں۔ اب ہم ان تینوں باتوں کی ایک ترتیب سے وضاحت کرتے ہیں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ابتدائی ساتھی سب سے پہلی بات نبی کریم ﷺ کو اور قیامت تک آنے والے مصلحین اور داعیوں کے لیے تسلی اور اطمینان کا باعث ہے کہ آپ کی شب وروز محنت اور آپ کا بےلوث دعوتی انذاز اور اس راستے میں پیش آنے والی مشکلات پر آپ کی استقامت یقینا ایک ایسا نخل رحمت ہے جسے برگ وبار لانے اور جس کے سائے کو گھنا ہونے اور جسے مثمرہونے میں کسی تاخیر سے سابقہ پیش نہیں آنا چاہیے بلکہ جس طرح ہر صالح بیج صالح زمین میں صالح اور محنتی کسان کے ہاتھوں جڑ پکڑتا اور تیزی سے برگ وبار لاتا ہے یہی حال اس نخل تمنا کا بھی ہونا چاہیئے چناچہ اس اشتباہ کو دور فرماتے ہوئے تسلی کے انذاز میں فرمایا جارہا ہے کہ تبلیغ و دعوت کے راستے کی بھی کچھ لازمی سنتیں ہیں اس کے اپنے موسم اور اس کا اپناماحول ہے ہر دور میں جب بھی اللہ کے نبی اس عظیم ذمہ داری کے لیے اٹھائے گئے ہیں انھیں ایسی ہی صورت حال سے دوچار ہونا پڑا ہے ایمان لانے والوں کی تعداد ہمیشہ کم رہی ہے اور ایمان بھی وہ لوگ لاتے رہے ہیں جو قوم کے کمسن اور نوجوان افراد تھے اس لیے اگر آپ کو اس صورت حال سے گزرنا پڑ رہا ہے تو یہ اس راستے کی لازمی سنت ہے موسیٰ اور ہارون (علیہما السلام) کو اگر ایک طرف قبطیوں سے واسطہ تھا تو دوسری طرف بنی اسرائیل سے۔ بنی اسرائیل ان کی اپنی قوم تھی ان کے آباؤ اجداد ایک تھے بااین ہمہ ایمان لانے والوں میں ان کی قوم کے گنے چنے نوجوان تھے اور یہ صورت حال ایسی ہے جو ہر دور میں اہل دعوت کو پیش آتی ہے نبی کریم ﷺ پر ایمان لانے والوں میں سن رسیدہ اور معمر لوگ نہیں تھے بلکہ بالکل نوخیز۔ بھرپور جوانیوں والے یا ڈھلتی ہوئی جوانیوں کے لوگ تھے مثلاً بالکل نوخیز لوگوں میں حضرت علی ابن ابی طالب، جعفر طیار، زبیر، طلحہ، سعدبن ابی وقاص، موسیٰ بن عمیر اور عبداللہ بن مسعود ( رض) جیسے نوخیز نوجوان تھے جن کی عمریں قبول اسلام کے وقت ابھی بیسویں سال کو بھی نہ پہنچی تھیں۔ عبدالرحمن بن عوف، بلال اور صہیب ( رض) کی عمریں بیس اور تیس سال کے درمیان تھیں۔ حضرت عبیدہ بن الجراح، زید بن حارثہ، عثمان بن عفان، عمر فاروق تیس اور پینتیس سال کی عمر کے درمیان تھے۔ سب سے پہلے ایمان لانے حضرت ابوبکر صدیق تھے جن کی عمر آنحضرت ﷺ سے دو سال کم تھی اور یہ ایک غیر معمولی واقعہ تھا لیکن حضرت صدیق اکبر سے اس سے مختلف بات کی توقع بھی نہیں کی جاسکتی تھی ابتدائی مسلمانوں میں صرف ایک صحابی ہیں جن کی عمر نبی کریم ﷺ سے زیادہ تھی یعنی حضرت عبیدہ بن حارث مطلبی اور یا پھر حضرت عمار بن یاسر تھے جو تمام صحابہ میں آنحضرت ﷺ کے ہم عمر تھے۔ اس پوری صورت حال پر غور کرنے سے جو بات سب سے پہلے ذہن میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ جب بھی اللہ کے دین کی دعوت انسانوں کے سامنے پیش کی جائے گی اس کا فطری انداز یہی ہوگا کہ اسے قبول کرنے والے تجربہ کار اور عمر رسیدہ لوگوں کی بجائے نوجوان ہوں گے کیونکہ ہر نبی کی دعوت زندگی کے رویے کو یکسر بدلنے کی دعوت ہے اس میں اگر ایک طرف اللہ کے آستانے کے سواء تمام آستانے چھوٹ جاتے ہیں تو دوسری طرف زندگی کے تمام معاملات میں اللہ کی شریعت کے سوا ہر قانون بےکار ہوجاتا ہے اس دعوت کو ماننے والا کسی بڑی سے بڑی قوت کے سامنے جھکنے کے لیے تیار نہیں ہوتا کسی سے خوف نہیں کھاتا اور کسی سے امیدیں نہیں باندھتا اور زندگی کا ہر فیصلہ کرنے سے پہلے صرف اللہ کی شریعت کو دیکھتا ہے نہ برادری کی طرف آنکھ اٹھاتا ہے اور نہ معاشرے کے رسم و رواج کی طرف اور نہ ملک کے وضعی قوانین کی طرف اور نہ جعلی تقدس و مشیخیت کے دعوے داروں کی طرف اس کے نتیجے میں زندگی میں ایک ایسی تبدیلی آتی ہے کہ زندگی کا ہر شعبہ ایک نئی جہت ایک نئی امنگ اور ایک نیا راستہ اختیار کرلیتا ہے اتنی بڑی تبدیلی قبول کرنے اور اس کا بوجھ اٹھانے کے لیے جس ہمت توانائی اولوالعزمی، جرأت، اقدامی قوت اور استقامت کی ضرورت ہے وہ سن رسیدہ لوگوں میں کبھی نہیں ہوسکتی۔ ان کے ساتھ تو مفادات کے سینکڑوں پتھر بندھے ہوئے ہوتے ہیں۔ مصلحتوں کی طویل زنجیریں ان کا مقدر بن چکی ہوتی ہیں۔ وہ اس دعوت کی طرف بڑھنے سے پہلے سو دفعہ نفع و نقصان کے دیہی کھاتے کھول کر بیٹھ جاتے ہیں اور بالآخریہ سوچ کر واپس پلٹ جاتے ہیں۔ یہ قدم قدم بلائیں یہ سواد کوئے جاناں وہ یہیں سے لوٹ جائے جسے زندگی ہو پیاری یہ اس راستہ کا پہلا سبق بھی ہے اور اس راستہ پر چلنے والوں کے لیے تسکین کا باعث بھی۔ مشرکین مکہ کو توجہ دلانا بھی مقصود ہے کہ ہر پیغمبر کی دعوت کے نتیجے میں معمر اور تجربہ کار لوگوں نے اپنی مصلحتوں اور اپنے مفادات کی دنیا کو بچا کر ہمیشہ اپنی عاقبت برباد کی۔ نتیجہ آخر یہ ہوا کہ جب اللہ کا عذاب آیا تو نہ وہ مفادات باقی رہے جسے ہاتھ سے چھوڑنا گوارا نہ تھا اور نہ عذاب سے بچائو کی کوئی صورت ہوسکی۔ موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم باوجود اس کے کہ آپ سے نسلی تعلق رکھتی تھی اور فرعون اور آل فرعون بنی اسرائیل کو غیر قوم ہونے کی مسلسل سزا بھی دے رہے تھے کیونکہ انھیں اندیشہ تھا کہ جس تیزی سے بنی اسرائیل کی افرادی قوت بڑھ رہی ہے ایسا نہ ہو کہ مصر میں دوسرے قبائل کو ساتھ لے کر یہ دوبارہ ہم پر غالب آجائیں اور ہماری حکومت چھین لی جائے۔ عرصہ دراز سے نسلی برتری اور سیاسی اندیشوں کی وجہ سے بنی اسرائیل ناگفتہ بہ صورتحال سے دوچار تھے۔ ایسی حالت میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اب موسیٰ اور ہارون (علیہما السلام) کی شکل میں جو انھیں مضبوط قیامت میسر آرہی تھی آگے بڑھ کر ان کا دامن تھامتے اور اپنے لیے ایک نئی تاریخ رقم کرتے۔ لیکن تاریخ کی وہ حقیقت جو عمرانیات کے ماہرین کے نزدیک کبھی تبدیل نہیں ہوتی۔ بنی اسرئیل اس کی گرفت میں تھے غلامی کی طویل رات نے ان کی آنکھوں کے سپنے چھین لیے تھے ان کے دلوں میں ولولوں کی بجائے محدود آرزوئیں جنم لیتی تھیں۔ مقاصد زندگی سے تہی دامن ہو کر ضروریات زندگی اوڑھنا بچھونا بن چکے تھے اور مزید ستم یہ کہ انھیں واسطہ ایک ایسے حکمران سے پڑا تھا کہ جو صرف حکمرانی ہی نہیں خدائی کے پندار میں بھی مبتلا تھا۔ چناچہ مذہبی طبقہ کی ملی بھگت کے ساتھ پورے ملک پر اس نے اپنا قاہرانہ تسلط قائم کر رکھا تھا اور اب ایک طویل عرصے سے نجومیوں کے کہنے پر وہ مستقبل کے اندیشوں میں بھی مبتلا تھا اب جیسے ہی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اللہ کا پیغام لے کر اس کے پاس پہنچے تو اس نے محسوس کیا کہ خطرہ میرے قریب پہنچ گیا ہے چناچہ اس کا پورا جسم اور دل و دماغ کا ایک ایک ریشہ دشمنی میں ڈھل کر پھنکارنے لگا۔ موسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کرنے کا ارادہ کیا لیکن پھر اپنے ہی اندیشوں نے اسے روک دیا لیکن بنی اسرائیل کے ساتھ اس کا معاملہ اب زیادہ ظالمانہ رویہ اختیار کرچکا تھا یوں تو بادشاہ بھی کسی اصول و ضابطہ کے پابند نہیں ہوتے وہ جو جی میں آتا ہے کر گزرتے ہیں لیکن ایسا بادشاہ جو رب ہونے کا دعویٰ بھی رکھتا ہو اس کے لیے تو یقینا کوئی روک ٹوک نہیں ہوسکتی اس لیے قرآن کریم کہتا ہے کہ اسے اپنی سلطنت میں پوری طرح غلبہ حاصل تھا اور اپنے مخالفین کو سزائیں دینے میں وہ ایسا بےدریغ واقع ہوا تھا کوئی ضابطہ کوئی لحاظ کوئی مروت کوئی رحم اور کوئی انصاف اس کا راستہ نہیں روک سکتا تھا۔ ایک غلط فہمی کا ازالہ اس آیت کریمہ میں یہ پڑھ کر کہ موسیٰ (علیہ السلام) پر ان کی قوم میں سے چند نوجوان ایمان لائے تھے۔ بعض لوگ غلط فہمی کا شکار ہوئے ہیں ان کا خیال یہ ہے کہ اس آیت سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی قوم بنی اسرائیل تمام کی تمام کی کافر تھی ان میں صرف چند نوجوانوں نے ایمان قبول کرنے کے لیے ہمت کی کیونکہ وہ جانتے تھے کہ فرعون کے مصائب کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا ہے لیکن اگر آیت کے الفاظ پر غور کریں تو معلوم ہوتا ہے اس غلط فہمی کا کوئی جواز نہیں ہے۔ قرآن کریم نے ” اٰمَنَ “ کا لفظ کبھی لام کے صلہ کے ساتھ استعمال کیا ہے اور کبھی با کے ساتھ۔ صِلہ بدلنے سے ” اٰمَنَ “ کے معنی میں تبدیلی آجاتی ہے ” اٰمن لہ “ کا معنی ہے تسلیم وانقیاد اور غیر مشروط اطاعت اور اٰمن بہ کا معنی ہے دل میں کسی کو تسلیم کرلینا چاہے اس کے احکام سے کوئی سروکار نہ رکھا جائے۔ اس آیت کریمہ میں ” اٰمن لموسیٰ “ کہہ کر یہ بتلانا مقصود ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کی ساری قوم آپ کو اور ہارون (علیہ السلام) کو اللہ کا رسول مانتی تھی آپ کی حقانیت کی قائل تھی لیکن زندگی کے معاملات نے ان کی رہنمائی کو قبول کر کے ان کی اطاعت کرنے کے لیے تیار نہ تھی ان کی زندگی فرعون کے اقتدار میں اسکے احکام کی اطاعت میں گزر رہی تھی۔ دل میں وہ موسیٰ کو مانتے تھے لیکن زندگی کے معاملات فرعون کے قانون کے مطابق سرانجام پا رہے تھے۔ نمازیں چھپ چھپ کر اپنے اللہ کے لیے پڑھتے تھے لیکن گردن ہمیشہ فرعون کے سامنے جھکتی تھی۔ موسیٰ (علیہ السلام) کی دعوت پر چند نوجوانوں نے حقیقی ایمان کا راستہ اختیار کیا انھوں نے اس بات کو سمجھا کہ جس کو ہم نے اپنے دل سے مانا ہے اطاعت بھی اسی کی کی جائے۔ احکام بھی اسی کے مانے جائیں اللہ پر ایمان دو عملی کو پسند نہیں کرتا۔ باطل دوئی پسند ہے حق لاشریک ہے شرکت میانہ حق و باطل نہ کر قبول اس صورتحال کو سمجھنے کے لیے آج امت مسلمہ کے مجموعی طرز عمل کو دیکھ لینا کافی ہے۔ مسجدوں میں نمازیں بھی پڑھی جا رہی ہیں رمضان آتا ہے تو روزے بھی رکھے جاتے ہیں اور اللہ کا قرآن بھی مسجدوں میں سنا جاتا ہے۔ عیدین میں پوری امت اللہ کے سامنے جھکتی ہے کوئی مسلمان ملک ایسا نہیں ہے جس میں خوبصورت مسجدیں تعمیر نہ کی جاتی ہوں۔ لیکن امت کا مجموعی طرز عمل یکسر اللہ سے بغاوت پر مشتمل ہے کسی ملک میں اللہ کی حاکمیت قائم نہیں ہے۔ شعائر اسلام کی توہین جا بجا ہو رہی ہے اسلام کی سطوت قصہ پارینہ بنتی جارہی ہے۔ اللہ اور اس کے دین کے ساتھ اخلاص اللہ کے رسول کے ساتھ محبت اس کی سنت کی اتباع کا جذبہ بنیاد پرستی کا نام اختیار کرچکا ہے۔ دین کی سربلندی کے لیے کی جانے والی کوششیں دہشت گردی بن چکی ہیں لیکن ان تمام خرابیوں کے باوجود ہم مسلمان ہیں اور ہمارے اسلام کو کوئی ہدف نہیں بنا سکتا۔ اگلی آیت کریم میں موسیٰ (علیہ السلام) نے اسی بنیادی خرابی کے ازالے کی طرف توجہ دلائی ہے۔
Top