Tafseer-e-Madani - Yunus : 83
فَمَاۤ اٰمَنَ لِمُوْسٰۤى اِلَّا ذُرِّیَّةٌ مِّنْ قَوْمِهٖ عَلٰى خَوْفٍ مِّنْ فِرْعَوْنَ وَ مَلَاۡئِهِمْ اَنْ یَّفْتِنَهُمْ١ؕ وَ اِنَّ فِرْعَوْنَ لَعَالٍ فِی الْاَرْضِ١ۚ وَ اِنَّهٗ لَمِنَ الْمُسْرِفِیْنَ
فَمَآ : سو نہ اٰمَنَ : ایمان لایا لِمُوْسٰٓى : موسیٰ پر اِلَّا : مگر ذُرِّيَّةٌ : چند لڑکے مِّنْ : سے قَوْمِهٖ : اس کی قوم عَلٰي خَوْفٍ : خوف کی وجہ سے مِّنْ : سے (کے) فِرْعَوْنَ : فرعون وَمَلَا۟ئِهِمْ : اور ان کے سردار اَنْ : کہ يَّفْتِنَھُمْ : وہ آفت میں ڈالے انہیں وَاِنَّ : اور بیشک فِرْعَوْنَ : فرعون لَعَالٍ : سرکش فِي : میں الْاَرْضِ : زمین وَاِنَّهٗ : اور بیشک وہ لَمِنَ : البتہ۔ سے الْمُسْرِفِيْنَ : حد سے بڑھنے والے
پھر بھی موسیٰ پر کوئی ایمان نہ لایا بجز آپ کی قوم کے کچھ نوجوانوں کے فرعون اور خود اپنی قوم کے بڑے سرداروں (اور کھڑ پینچوں) کے ڈر سے کہ کہیں وہ انھیں کسی مصیبت میں نہ ڈال دیں، اور واقعی فرعون اس ملک میں تھا بھی بڑا زور دار اور وہ یقینی (اور قطعی) طور پر حد سے نکل جانے والوں میں سے تھا،
138 ۔ پھر بھی ان کی قوم کے کچھ ہی لوگ ایمان لائے : یعنی حق کی اس قدر توضیح کے باوجود ان کی قوم کے کچھ ہی لوگ ایمان لائے۔ یہاں پر (قومہ) کی ضمیر مجرور کے مرجع میں دو احتمال ہیں۔ راجح قول کے مطابق جو کہ جمہور کا قول ہے اور جس کو ابن جریر نے اختیار کیا ہے (قومہ) کی ضمیر کا مرجع حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ہیں کہ وہی اقرب مذکور ہیں۔ اور آپ کی قوم اگرچہ نبیوں کی اولاد میں سے تھی اور وہ فی الجملہ ایمان بھی رکھتی تھی مگر انہوں نے چونکہ آسمانی کتابوں اور اپنے نبیوں کی تعلیمات میں طرح طرح سے تاویلات و تحریفات کرکے ان کو بدل دیا تھا اور انہوں نے اپنے ایمان و عقائد میں طرح طرح کی شرکیات کی آمیزش کردی تھی اس لئے ان کا یہ ایمان و عقیدہ معتبر نہ تھا تاوقتیکہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی تعلیمات کے مطابق نئے سرے سے اور سچے دل سے ایمان لاتے۔ سو اس سے معلوم ہوا کہ ایمان وہی معتبر اور قابل قبول ہے جو آسمانی تعلیمات کے عین مطابق ہو۔ ورنہ اگر ان میں اپنی طرف سے بدعات و خرافات کے اضافے کرکے ان پر ایمان لائے تو وہ ایمان نہ ہونے کے برابر ہے کہ وہ ایمان دراصل اپنی خواہشات اور اغراض و اہواء پر ہوتا ہے نہ کہ اللہ تعالیٰ کے دین خالص پر۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ اور دوسرا قول اس میں یہ ہے کہ اس ضمیر کا مرجع فرعون ہے۔ یعنی فرعون کی قوم کے کچھ ہی نوجوان حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لائے۔ مگر راجع اور مشہور قول پہلا ہی ہے جو جمہور کا قول ہے اور جس کو ابن جریر نے ترجیح دی ہے۔ مطلب بہرحال دونوں صورتوں میں صحیح اور دل کو لگنے والا ہے کہ فرعون اور فرعونیوں کے ڈر اور خوف کی وجہ سے شروع شروع میں کچھ نوجوان ہی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لانے کی ہمت کرسکے (ابن جریر، ابن کثیر، المراغی، صفوۃ التفاسیر، معارف القرآن اور محاسن التاویل وغیرہ وغیرہ) سو یہاں سے بھی اس حقیقت کی تاکید ہوتی ہے کہ عوام کی اکثریت بےایمانوں اور غلط کاروں ہی کی ہوتی ہے۔ ایماندار اور سچے لوگ کم ہی ہوتے ہیں۔ کل بھی یہی تھا اور آج بھی یہی ہے۔ لہذا عوام الناس کی قلت یا کثرت معیار حق و باطل نہیں بن سکتی۔ جیسا کہ جہلاء کا کہنا ماننا ہے۔ 139 ۔ قوت شباب اور خطرات کا مقابلہ : سو ارشاد فرمایا گیا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر آپ کے قوم کچھ نوجوانوں کے سوا کوئی ایمان نہ لایا۔ سو قوت شباب قدرت کی ایک عظیم الشان نعمت ہے جو انسان کو خطرات کے مقابلے پر ابھارتی ہے اور اس سے یہ حقیقت بھی واضح ہوجاتی ہے کہ انقلاب عموما جواں خون ہی کا مرہون منت ہوتا ہے۔ پس انقلاب لانے کا کام عموما جواں خون (Young Blood) نے ہی انجام دیا۔ تاریخ و عمرانیات کی شہادت بھی یہی ہے۔ خود حضرت خاتم الانبیاء ﷺ پر سب سے پہلے ایمان لانے والے جاں نثاروں کی غالب اکثریت بھی ایسے ہی نوجوانوں کی تھی۔ سبحان اللہ۔ قرآن حکیم کا اعجاز ملاحظہ ہو کہ عمرانیات وغیرہ کے نئے علوم صدیوں کی بحث و تمحیص اور تجربات و تحقیقات کے بعد جس نقطہ عروج پر پہنچ سکے ہیں قرآن حکیم نے صدیوں پہلے ہی اس حقیقت کو اس طرح واضح اور آشکارا فرما دیا۔ اور وہ بھی اس قدر اختصار کے ساتھ اور ضمنی طور پر۔ فللہ الحمد رب العلمین۔ بہرکیف دعوت حق کو اس کے ابتدائی مراحل میں جبکہ خطرات ہی خطرات ہوتے ہیں نوجوان نسل ہی نے آگے بڑھ کر قبول کیا۔ اللہ ہمارے جوانوں کو ہمیشہ راہ حق و صواب پر رکھے۔ آمین۔ 140 ۔ کفر و باطل کے سرغنہ راہ حق و ہدایت میں رکاوٹ۔ والعیاذ باللہ۔ سو اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ اہل کفر و باطل کے سرداروں اور بڑوں کی مخالفت ہمیشہ راہ حق میں رکاوٹ بنی۔ والعیاذ باللہ۔ اور کفر و باطل کے سرغنوں اور ایسے بڑوں اور سرداروں کا کام بالعموم ہر انقلابی تحریک میں رکاوٹ بننا اور اس کا راستہ روکنا ہوتا ہے اور بس۔ سو ایسے لوگ عموما مصلحت پسند اور راحت طلب لوگ ہوتے ہیں۔ اس لیے وہ ہر انقلابی تحریک کا راستہ روکنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس کو وہ اپنے آرام و سکون اور دنیاوی فوائد و منافع کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔ الا ماشاء اللہ۔ چناچہ ایسے لوگوں نے نوجوانوں اور حق کے علمبرداروں کی قوت کو کچلنے کے لیے ہمیشہ طرح طرح کے مظالم ڈھائے اور آج تک ڈھا رہے ہیں۔ اور آج بھی اس قماش کا برسر اقتدار طبقہ نوجوانوں کو کچلنے اور ان کے جذبہ جہاد کو مٹانے اور ٹھنڈا کرنے کے جگہ جگہ اور طرح طرح سے ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رہا ہے اور مجاہدین کو دہشت گرد قرار دے کر ان کے خلاف طرح طرح کا شیطانی پروپیگنڈا کرتا ہے۔ خذلہم اللہ وقاتلہم وجعل کیدھم فی نحورہم۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین۔ اللہ تعالیٰ مجاہدین حق کی نصرت و امداد فرمائے وہ جہاں کہیں بھی ہوں اور ان کی تائید وتقویت غیبی قوتوں سے فرمائے۔ آمین ثم آمین۔ 141 ۔ فرعون ملک مصر کا ڈکٹیڑ : سو ارشاد فرمایا گیا کہ فرعون اس ملک میں تھا بھی سرکش اور زور آور۔ یعنی مصر میں، جہاں کا وہ مطلق العنان حکمران تھا۔ (المحاسن۔ المراغی وغیرہ) ۔ قوت و طاقت کے سب ذرائع و وسائل اسے قبضہ قدرت و اختیار میں تھے۔ کوئی اس کے خلاف آواز اٹھانے کے لائق نہیں تھا۔ بھلا گنجے کو جب ناخن مل جائیں تو اس کے سر کی خیر کس طرح ہوسکتی ہے اور اس کی کھوپڑی کو اس کے ہاتھوں کی دسترس اور اس کے ناخنوں کی چیرہ دستیوں سے آخر کون اور کس طرح بچا سکتا ہے ؟ طاقت وقدرت کے بعد اور ذرائع و وسائل کی موجودگی کے باوجود انسان کو لگام دینے والی اور اس کے ہاتھوں کو ظلم و زیادتی سے روکنے والی چیز ایک ہی ہوسکتی ہے۔ یعنی خوف خداوندی۔ ورنہ وہ نرا ظالم بن کر رہ جاتا ہے۔ کہ اس کے سامنے ظلم و زیادتی اور بربریت روکنے کے لیے کوئی چیز موجود نہیں ہوتی۔ اس لیے وہ ظلم و جبر اور سفاکی و خونریزی کی راہ ہی کو اپناتا ہے۔ 142 ۔ فرعون حد سے نکلنے والا شخص تھا : سو ارشاد فرمایا گیا کہ وہ یقینی طور پر حد سے نکلنے والوں میں سے تھا۔ خود طبیعت میں فرعونی تکبر و اسراف اور شیطنت و سرکشی۔ اور پھر مصر جیسے دور کے بڑے ترقی یافتہ ملک کی مطلق العنان حکمرانی اور ڈکٹیڑ شب اور ملکی ذرائع و وسائل پر بلاشرکت غیرے تصرف کے اختیارات وغیرہ۔ سرکشی اور تمردو طغیان کے سب ہی عوامل وہاں موجود تھے۔ تو ایسے میں اس شخص کے کبر و غرور اور اسراف و خرمستی کے کیا کہنے ؟ سو انہی اسباب و عوامل کی بناء پر فرعون حدود عبدیت سے نکل کر خدائی کا دعویدار بن گیا تھا اور اس نے صاف اور صریح طور پر یہ اعلان کردیا تھا (اَنَا رَبُّكُمُ الْاَعْلٰى) کہ میں ہی تم سب کا سب سے بڑا رب ہوں تو ایسے میں اس کے خلاف کوئی آواز اٹھائے تو کس طرح اور کیونکر ؟ اس لیے اس کے دور میں اس کے خوف و رعب اور اس کے مظالم کے ڈر کی وجہ سے کچھ نوجوانوں کے سوا کوئی ایمان لانے کی ہمت و جراءت نہ کرسکا۔ سو جب وہ ظلم کرنے پر آتا تو کسی حد کا پاس ولحاظ اور اس کی پرواہ نہ کرتا اور طرح طرح کے مظالم ڈھاتا۔ اللہ تعالیٰ ہر ظالم اور ہر قسم کے ظلم سے ہمیشہ اپنی پناہ میں رکھے۔ آمین۔
Top