Maarif-ul-Quran - Az-Zukhruf : 64
وَ الطُّوْرِۙ
وَالطُّوْرِ : قسم ہے طور کی
( کوہ) طور کی قسم
تہدید وتوبیخ منکرین معاد وعید عذاب برائے اہل عناد : قال اللہ تعالیٰ : (آیت) ” والطور وکتب مسطور ....... الی ....... ما کنتم تعملون “۔ (ربط) سورة والذاریات کا اختتامی مضمون جن وانس کی تخلیق بغرض عبادت خداوندی تھا اسی کے ساتھ جو قومیں اللہ تعالیٰ کی خالقیت اور وحدانیت کو نہیں تسلیم کرتیں اور بلاحجت و دلیل نافرمانی اور بغاوت پر قائم ہیں ان کو عذاب خداوندی کی دھمکی دی گئی ارشاد فرمایا۔ قسم ہے طور (پہاڑ) کی اور اس کتاب کی جو کھلے ورق میں لکھی ہوئی ہے اور قسم ہے بیت معمور کی اور قسم ہے ایک بلند چھت کی اور قسم ہے ابلتے ہوئے سمندر کی یقیناً آپ کے رب کا عذاب ضرور واقع ہو کر رہے گا جس کا کوئی ٹلانے والا نہیں اور یہ عذاب اس روز واقع ہوگا جس دن کہ آسمان تھر تھرانے لگے گا لرزے کے ساتھ اور ہٹ جائیں گے پہاڑ اپنی جگہ سے حرکت کرتے ہوئے پس ہلاکت و بربادی ہے ان لوگوں کے واسطے جو جھٹلانے والے ہیں اس عذاب خدواندی، روز قیامت، حساب و کتاب اور جزاء وسزا کو جو اپنی اس بیہودگی میں منہمک لہو ولعب میں پڑے ہوئے ہیں اور باوجود ان حقائق اور دلائل کے نہ ان کو خدا پر یقین آتا ہے اور نہ وہ خدا کی باتوں کو مانتے ہیں، انسانی عقل اور فطرت سے یہ بات بہت بعید ہے کہ اس طرح ان حقائق و دلیل سے غفلت چشم پوشی برتے یہ بدنصیب اپنی بدبختی کے باعث اسی غفلت میں پڑے رہیں گے یہاں تک کہ وہ دن آجائے جب کہ انکو دھکے دے دیکر جہنم کی آگ کی طرف دھکیلا جارہا ہوگا اس وقت کہا جائے گا یہی ہے وہ جہنم جس کو تم جھٹلایا کرتے تھے، اب بتاؤ کیا یہ جادو ہے جیسا کہ تم دنیاوی زندگی میں ان باتوں کو گھڑ لیا کرتے تھے یا یہ کہ اب بھی تم کو نظر نہیں آرہا ہے۔ اب بھی بتاؤ کیا تمہیں یہ عذاب جہنم نظر آرہا ہے یا نہیں اگر ہمت ہے تو اب انکار کرو اچھا اب اس میں داخل ہوجاؤ پھر تم صبر کرو یا نہ کرو برابر ہے تم پر دونوں نہ تو تمہارے واویلا سے جہنم سے چھٹکار امل سکے گا اور نہ ہو یہ ہوگا کہ اگر تم سکوت وانقیاد اختیار کرلو تو تم پر کچھ رحم کردیا جائے نہیں بلکہ عذاب جہنم ہر طرح برقرار رہے گا اصل بات یہ ہے کہ تم کو بدلہ اسی چیز کا دیا جائے گا جو تم کیا کرتے تھے تم دنیا کی زندگی میں اپنے ہوش و حواس اور اپنے کسب واختیار سے کفر کرتے رہے جو اللہ کی سب سے بڑی معصیت ہے اور کبھی تم کو اس کا احساس نہ ہوا کہ اب بہت ہوچکا اس بغاوت ونافرمانی کو چھوڑ دیا جائے تو جب تم دنیا میں کبھی کفر سے باز نہ آئے اور اللہ کی بغاوت ومعصیت کو نہ چھوڑا تو پھر اب اس کی سزا بھی یہی ہے کہ بس تم ہمیشہ عذاب جہنم میں رہو جس طرح کہ ہمیشہ کفر کیا اس کی سزا بھی دوام وہمیشگی کی صورت میں ہوگی اس وجہ سے آہ وواولا سے بھی کوئی کام نہ چلے گا اور سکوت وخاموشی بھی کوئی مفید نہ ہوگی ، کلمات قسم اور جواب قسم میں ربط ومناسبت : اس موقعہ پر حق تعالیٰ نے ایک عظیم الشان مضمون یعنی (آیت ) ” ان عذاب ربک لواقع “۔ کہ اے مخاطب تیرے رب کا عذاب یقیناً واقع ہونے والا ہے اور قیامت ضرور آئے گی حساب اور جزاء وسزا کا مرحلہ انسان سے ٹل نہیں سکتا تو اس مضمون کی اہمیت کے پیش نظر اس خبر اور بیان کے لئے پانچ عظیم الشان چیزوں یعنی (1) کوہ طور، (2) کتاب مسطور، (3) بیت معمور، (4) سقف مرفوع اور (5) بحرمسجور، کی قسم کھائی کہ ان عظیم الشان مخلوقات کی عظمت کا مخاطب اپنے ذہن میں استحضار کرتے ہوئے آئندہ بیان کی جانے والی خبر پر نہ حیرت کرے نہ اس میں تردد کرے بلکہ بلاجھجک اور تامل اس پر ایمان لائے یہ دیکھتے ہوئے کہ جس خدا نے اس عظیم الشان اور فکر انسانی کی پرواز سے بڑھ کر چیزوں کو پیدا کردیا وہ قادر مطلق قیامت اور حشرونشر پر بلاشبہ قادر ہے پھر چونکہ قیامت جزاء وسزا کا دن ہے جس کا دارومدار ایمان وکفر سعادت وشقاوت اور حیات انسانی کے خیر وشر میں مضمر ہے اس وجہ سے قسموں میں پہلے کوہ طور کی قسم کھائی جو وادی مقدس اور وہ جگہ ہے جہاں حق تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے مناجات فرمائی ان کو اس خطاب دلنواز سے سرفراز فرمایا (آیت ) ” یموسی اننی انا اللہ لا الہ الاانا فاعبدنی واقم الصلوۃ لذکری ان الساعۃ اتیۃ اکاد اخفیھا کل نفس بما تسعی “۔ یہ وہی مبارک جگہ ہے جس میں الواح تورات عطا کی گئیں جس میں ہدایت کے علوم تھے یہ وہ جگہ ہے جہاں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے (آیت ) ” واکتب لنا فی ھذہ الدنیا حسنۃ “ کی درخواست کی تو جواب دیا گیا۔ (آیت ) ” فساکتبھا للذین یتقون ویؤتون الزکوۃ والذین ھم بایتنا یؤمنون، الذین یتبعون الرسول النبی الامی الذی یجدونہ مکتوبا عندھم فی التورۃ والانجیل “۔ اور اس جواب میں یہ ظاہر فرما دیا گیا تھا کہ یہ رحمت عامہ اور حسنہ تامہ تو میں نے اس نبی امی آخر الزمان ﷺ کے واسطے لکھ دی اور طے کردی ہے جس کو اہل کتاب تورات وانجیل میں لکھا ہوا پائیں گے جس نبی امی کی یہ شان ہوگی۔ پھر دوسری قسم کتاب مسطور کی کھائی کتاب مسطور کی تفسیر میں بعض ائمہ مفسرین انسان کا نامہ اعمال لیتے ہیں اور ہر انسان کی زندگی کا عمل ایک کھلے ورق کی صورت میں موجود ہوگا اور وہ اس کی گردن میں لٹکا ہوگا جیسے کہ ارشاد ہے (آیت ) ” وکل انسان الزمناہ طآئرہ فی عنقہ ونخرج لہ یوم القیامۃ کتابا یلقاہ منشورا “۔ جس کے متعلق ہر انسان کو مبعوث ہونے پر حکم ہوگا کہ (آیت ) ” اقرا کتابک کفی بنفسک الیوم علیک حسیبا ‘۔ یا بعض کی رائے کے مطابق کتاب مسطور قرآن کریم ہے جو ایک کھلے ورق کی طرح واضح اور روشن ہے یا بقول بعض کتاب مسطور لوح محفوظ ہے۔ تیسری قسم بیت معمور جو کہ ساتویں آسمان پر ملائکہ کے لئے کعبہ ہے اور عرش الہی کے محاذات میں ہے اور اسکے محاذات میں زمین پر خانہ کعبہ قائم ہے چوتھی قسم سقف مرفوع یعنی آسمان کی ہے کہ آسمان اور آسمان پر نظر آنے والے ستارے، چاند، سورج، جو ایسی عظیم الشان مخلوقات ہیں کہ سارے عالم کی عقلیں ان چیزوں کی عظمت کے سامنے حیران اور مبہوت ہیں پانچویں قسم بحر مسجور۔ حاشیہ (بعض مفسرین کا یہ خیال ہے کہ یہ سمندر قیامت کے روز آگ بنادیا جائے گا اس آیت کے پیش نظر (آیت ) ” واذا البحار سجرت “۔ یعنی جب کہ سمندر دہکائے جائیں گے ربیع بن انس ؓ سے منقول ہے کہ یہ بحر مسجور آسمانوں سے اوپر عرش الہی کے نیچے ہے۔ علاء بن بدر (رح) فرماتے تھے کہ بحر مسجور سمندر کو اس وجہ سے بھی کہا جاتا ہے کہ اس کا پانی نہ پیا جاسکتا ہے اور نہ اس سے کھیتی ہوسکتی ہے حضرت علی ؓ اور ابن عباس ؓ کی تفاسیر میں بھی یہی نقل کیا گیا حضرت ابن عباس ؓ کے دوسرے ایک قول میں یہ نقل کیا گیا کہ مسجور کے معنی معکوف یعنی روکا گیا کے ہیں اور اس کی تائید عمر بن الخطاب ؓ کی اس حدیث سے ہوتی ہے جس کو امام احمد بن حنبل (رح) نے نقل کیا کہ آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ کوئی رات ایسی نہیں ہوتی کہ سمندر تین مرتبہ اپنی گردن بلند کرکے اللہ رب العزت سے پھیل جانے کی اجازت نہ طلب کرتا ہو لیکن اللہ تعالیٰ اس کو روکتا ہے اور اپنی حد سے تجاوز کرنے کی اجازت نہیں دیتا (رواہ احمد ابن حنبل فی المسند، بحوالہ ابن کثیر) یعنی ابلتے ہوئے اور طوفانی تھپیڑوں اور موجوں سے امنڈتے ہوئے سمندر کی ہے ان قسموں کے ساتھ (آیت ) ” ان عذاب ربک لواقع “۔ کا ربط اور مناسبت واضح ہے کہ قیامت کی اصل وجہ مجازات اور اعمال کا بدلہ ہے اور ظاہر ہے کہ مجازات میں احکام ہدایت و شریعت اصل ہیں جن کی بحیثیت مکان اور محل کے نسبت طور کی طرف ہے اور وہ سامان ہدایت وحی الہی قرآن حکیم یا لوح محفوظ سے انسانی حیات کیلئے ہادی ورہنما ہے اور ان پر عمل محفوظ رہنے والا نامہ اعمال ہے جو کھلے ورق کی مانند ظاہر و روشن ہے اور جزاء وسزاکا مدار عبادت وطاعت اور ترک طاعت پر ہے جس کا مرکز آسمانوں پر بیت معمور اور زمین پر کعبۃ اللہ ہے اور اعمال صالحہ وسیۂ کی جزاء وسزا جنت و جہنم ہے جو عالم سموت میں ہے اور جنت و جہنم کی وسعت و عظمت کو انسان ستاروں اور چاند وسورج کی عظمت کے مشاہدہ سے بخوبی سمجھ سکتا ہے اور سمندر کی موجوں کی دیکھ کر انسان جہنم کی آگ کے شعلوں اور موجوں کو پہچان سکتا ہے تو اس طرح ان قسموں کی اصل مضمون قیامت اور مجازات سے لطیف مناسبت سمجھی جاسکتی ہے۔ بعض روایات کی رو سے یہ بھی خیال کیا گیا کہ بعید نہیں کہ اسی سمندر کو قیامت برپا ہونے پر جہنم کی آگ اور اس کی موجیں بنا دیا جائے جس خدا نے یہ سمندر پانی کے بنائے وہی خدا اس پانی کو آگ بھی بنا سکتا ہے۔ حافظ ابن ابی الدنیا (رح) نے ایک روایت بیان کی ہے کہ ایک رات عمر فاروق ؓ مدینہ کی آبادی میں کسی طرف گشت فرما رہے تھے (جیسا کہ ان کا اکثر معمول تھا کہ راتوں کو گشت کرکے معلوم کریں کہ لوگ کس حال میں زندگی گزار رہے ہیں) تو ایک شخص کے مکان کے سامنے سے جب گزرے تو وہ شخص تہجد میں قرآن شریف کی تلاوت کررہا تھا تو ٹھیڑ گئے اور سننے لگے تو اس شخص نے سورة والطور پڑھی پہلے ہی سے اسکی تلاوت وقرأت اور تہجد کے آثار وانوار سے طبیعت پر ایک خاص اثر اور کیفیت طاری تھی کہ مزید اسکی پرسوز آواز سے جب یہ سنا (آیت ) ” ان عذاب ربک لواقع “۔ تو ایک چیخ نکلی اور فرمایا قسم ہے رب کعبہ کی اور ایسا معلوم ہوا کہ کمر ٹوٹ گئی، سواری سے اترے دیوار کی ٹیک لگا کر دیر تک بیٹھے رہے اور پھر گھر لوٹے اس وقت کی رقت اور طبعی تأثر نے بیمار کرڈالا ایک ماہ مریض کی طرف صاحب فراش رہے لوگ عیادت کیلئے آئے مگر کسی کو حقیقت معلوم نہ ہوئی کہ کیا مرض ہے، ؓ (تفسیر ابن کثیر )
Top