Maarif-ul-Quran - An-Nahl : 72
یُسَبِّحُ لِلّٰهِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ١ۚ لَهُ الْمُلْكُ وَ لَهُ الْحَمْدُ١٘ وَ هُوَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ
يُسَبِّحُ لِلّٰهِ : تسبیح کررہی ہے اللہ کے لیے مَا فِي السَّمٰوٰتِ : جو کچھ آسمانوں میں ہے وَمَا فِي الْاَرْضِ : اور جو کچھ زمین میں ہے لَهُ : اسی کے لیے الْمُلْكُ : بادشاہت وَلَهُ الْحَمْدُ : اور اسی کے لیے ہے تعریف وَهُوَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ : اور وہ ہرچیز پر قَدِيْرٌ : قدرت رکھنے والا ہے
جو چیز آسمانوں میں ہے اور جو چیز زمین میں ہے (سب) خدا کی تسبیح کرتی ہے۔ اسی کی سچی بادشاہی ہے اور اسی کی تعریف (لا متناہی) ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔
تقسیم اولاد آدم در قسم مومن و کافر و انکار وحدت قومیہ بلحاظ وطن :۔ قال اللہ تعالیٰ : (آیت) ” یسبح للہ ما فی السموت وما فی الارض ..... الی ...... واللہ بما تعملون خبیر “۔ (ربط) گزشتہ سورة منافقون میں منافقین کے احوال اور ان کی مذموم خصلتوں کا بیان تھا، اس کے ضمن میں ابن ابی منافق کی وہ بات بھی ذکر کردی گئی تھی کہ (آیت) ” لیخرجن الاعز منھا الاول “۔ جس کے ذریعے اس منافق نے وطنی عصبیت کو ہوا دینی چاہی تھی اور ایمانی اخوت ووحدت جو انصار ومہاجرین میں قائم ہوچکی تھی، اس کو پارہ پارہ کرنا چاہا تھا تو اس سورت میں نہایت واضح طور سے یہ ہدایت کی جارہی ہے کہ خدا تعالیٰ نے اولاد آدم اور تمام انسانوں کو صرف دو قسم میں تقسیم کردیا ہے اور وہ تقسیم وطن اور جغرافیہ کے لحاظ سے نہیں بلکہ عقیدہ کے لحاظ سے ہے ایک قسم برادری اہل ایمان کی ہے وہ ایک دوسرے کے بھائی ہیں خواہ کہیں رہتے ہوں اور کسی بھی خطہ میں بستے ہوں دوسری قسم اور برادری کافروں کی ہے، اسی، اس لیے اب یہ امتیاز وفرق مسلمانوں کو اپنے دلوں سے نکال دینا چاہئے کہ کون عرب ہے کون عجم کون ایرانی اور کون رومی وترکستانی، تو فرمایا۔ پاکی بیان کرتی ہیں اللہ ہی کی وہ تمام چیزیں جو آسمانوں میں ہیں اور زمین میں، اسی کی بادشاہی ہے ہر عالم میں اور اسی کے لیے تعریف ہے اور وہ تمام چیزیں جو آسمانوں میں ہیں اور زمین میں، اسی کی بادشاہی ہے ہر عالم میں اور اسی کے لیے تعریف ہے اور ہر قسم کی حمد وثناء میں اور وہی ہر چیز پر بڑی قدرت رکھنے والا ہے تو جو پروردگار آسمانوں اور زمین کا خالق اور کائنات کی ہر چیز کا مالک ہے اور اسی کی ہر عالم میں بادشاہت ہے بلاشبہ اسی لائق ہے کہ ہر چیز اس کی پاکی بیان کرے اور اسی کی حمد وثناء میں مشغول رہے، وہی ہے پروردگار اے انسانو ! جس نے تم کو پیدا کیا پھر کوئی تم میں سے کافر ہے اور کوئی تم میں سے مومن ہے اور اللہ تعالیٰ جو کچھ تم کرتے ہو اس کو دیکھنے والا ہے۔ لہذا ایمان لانے والوں کو ان کے ایمان کی جزاء دے گا اور منکر و کافر کو اس کے کفر ونافرمانی پر عذاب دے گا، اصل میں تو ہر انسان کو اپنی عقل سے کائنات کو پہچان کر ایمان لانا چاہئے تھا جب کہ رب العزت نے اس میں یہ جوہر بھی رکھ دیا ہے جس کو اس کی زبان میں ” فطرت “ کہا جاتا ہے جیسے کہ ارشاد ہے (آیت) ” فطرۃ اللہ التی فطرالناس علیھا “۔ اور حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کل مولود یولد علی الفطرۃ۔ الخ اس فطرت اور قبول حق کی صلاحیت کو چاہئے تھا کہ قائم رکھتا۔ حالات گرد وپیش سے متاثر نہ ہوتا، یا اغراض ونفس کی خواہشات سے حق تعالیٰ کی حقانیت پہچان کر اپنے کسب واختیار سے گمراہی کا راستہ اختیار نہ کرتا لیکن جب اس گمراہ انسان نے اپنے ارادہ اور اختیار سے حق کو ٹھکرایا تو سزا کا مستحق بنا جو آخرت میں ضرور اس پر واقع ہو کر رہے گی اور مومن نے حالات کا مقابلہ کیا نفس و شیطان کے گمراہ کن اسباب کو پامال کرکے حق پر استقامت اختیار کی تو بلاشبہ اس کا مستحق ہوا کہ آخرت کی نعمتوں اور راحتوں سے نوازا جائے، پیدا کیا ہے اس پروردگار نے آسمانوں اور زمین کو ٹھیک ٹھیک کہ ہر ایک مخلوق اپنی حالت سے اس کی صناعی اور کاریگری کو گواہی دے رہی ہے پھر اس کی تدبیر بھی ایسی صحیح کہ آج تک کسی چیز میں کوئی خلل نہیں اور اے انسانوؔ ! تمہاری صورت بنائی پھر اچھابنایا تمہاری صورتوں کو حتی کہ احسن تقویم میں انسان کو پیدا کیا کہ تمام جانوروں سے اس کی خلقت اچھی ہے دیکھنے میں بھی خوبصورت اور عقلی، اور فکری صلاحیتوں سے نوازا اور اس امتیاز وشرف سے اس کو تمام کائنات پر برتری اور فضیلت عطا کردی جیسے کہ ارشاد ہے (آیت) ” ولقد کرمنا بنی ادم “۔ اور اسی کی طرف لوٹنا ہے اس لیے انسان کو اسی کی فکر کرنی چاہئے جو ایمان اور عمل صالح ہے، وہ پروردگار جانتا ہے، اے انسانو ! وہ تمام جو تم چھپاتے ہو اور وہ بھی جو تم ظاہر کرتے ہو اور ظاہر وپوشیدہ کیا ؟ اللہ تو جاننے والا ہے دل والی چیزوں کا کہ انسان کے دل میں کس قسم کے عقائد ہیں، کیا خیالات ہیں کیا سوچتا ہے اور کن چیزوں کی طرف میلان ورغبت ہے اور کن چیزوں سے نفرت تو جو ذات دل کی کیفیات اور احوال سے باخبر ہو وہ انسانوں کے اعمال وافعال سے کیسے بیخبر رہ سکتی ہے اور یہی اعتقاد اصلاح زندگی اور آخرت کی طرف اس کا رخ کرنے کا معیا رہے۔ اور یہ بات محض اعتقاد ہی اور ذہنی ہی نہیں ہے بلکہ تاریخی حقائق و شواہد اس کے گواہ ہیں کہ خدا تعالیٰ ہر چیز سے باخبر ہے اور ہر عمل کا بدلہ انسان کے سامنے آکر رہتا ہے، خیر وشر اور ہدایت وگمراہی کے ثمرات تاریخ عالم سے ثابت ہیں کہ ضرور انسان سے مرتب ہوتے ہیں جو اس امر کی واضح دلیل ہے کہ اللہ سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں اور ہر عمل پر اس کا ثمرہ ضرور مرتب ہوتا تو اے لوگو ! کیا تم کو نہیں پہنچیں خبریں ان لوگوں کی جنہوں نے پہلے کفر کیا، جیسے قوم عاد وثمود وغیرہ، چناچہ انہوں نے چکھی سزا اپنے عمل کی اور ان کے واسطے درد ناک عذاب ہے جس سے کوئی منکر اور کافر نہیں بچ سکتا۔ یہ سب کچھ اس بناء پر ہے کہ ان پہلی امتوں کے پاس ان کے رسول دکھانے اور سمجھانے کے لیے ہمارے پاس آیا ہے تو اللہ کے رسول کے بشر ہونے کی وجہ سے انکار کیا اور منہ موڑ لیا ان کا اعتقاد یہ تھا کہ بشر کی جنس سے کوئی فرد بشر رسول خدا نہیں ہوسکتا اور رسالت وبشریت میں انہوں نے تضاد سمجھا جس سے وہ گمراہی کا شکار بنے اور اللہ ان سے بےنیاز ہوا جب کہ وہ اللہ سے اپنا رخ موڑچکے تھے اور اللہ تو ہر حال میں بڑا ہی بےنیاز قابل تعریف ہے۔ حاشیہ (حضرت شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی (رح) اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں (کسی کا) اس آیت سے یہ ثابت کرنا کہ رسول کو بشر کہنے والا کافر ہے انتہائی جہل اور الحاد ہے اس کے برعکس اگر کوئی یہ کہہ دے کہ یہ آیت ان لوگوں کے کفر پر دلالت کررہی ہے جو رسل بنی آدم (علیہ السلام) کے بشر ہونے کا انکار کریں تو یہ دعوی پہلے دعوے سے زیادہ قوی ہوگا۔ سبحان اللہ تعبیر میں کیسی لطافت اور کس قدر نرمی ہے۔ ان ھذا لعلم “۔ 12) جس کی کائنات میں مخلوق حمد وثناء کرتی ہے تو اس کو کیا پرواہ اگر کچھ انسان اپنے اس لغوتخیل کے باعث خدا کے رسول پر ایمان نہ لائیں۔ کافروں نے تو یہ دعوی کیا ہے کہ وہ مرنے کے بعد ہرگز نہیں اٹھائے جائیں گے اور رسالت کی طرح بعث بعد الموت کے بھی منکر ہیں اے ہمارے پیغمبر کہہ دو کیوں نہیں ضرور بالضرور تم کو دوبارہ اٹھایاجائیگا، پھر تم کو بتایا جائے گا جو کچھ تم کرتے تھے، اور یہ سب کچھ اللہ پر نہایت ہی آسان ہے تو اے لوگو ! ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے رسول پر اور اس نور پر جو ہم نے اتارا ہے وہ قرآن کریم ہے جیسا کہ ارشاد ہے (آیت) ” وانزلنا الیکم نورا مبینا “۔ اور اللہ خوب جانتا ہے وہ تمام کام جو تم کرتے ہو۔ تو تمہارے ایمان لانے کے بعد جیسے بھی اعمال ہوں گے اسی کے مطابق قیامت کے روز جزاوسزا کا معاملہ ہوگا۔
Top