Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Maarif-ul-Quran - Al-A'raaf : 204
وَ اِذَا قُرِئَ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَهٗ وَ اَنْصِتُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ
وَاِذَا
: اور جب
قُرِئَ
: پڑھا جائے
الْقُرْاٰنُ
: قرآن
فَاسْتَمِعُوْا
: تو سنو
لَهٗ
: اس کے لیے
وَاَنْصِتُوْا
: اور چپ رہو
لَعَلَّكُمْ
: تاکہ تم پر
تُرْحَمُوْنَ
: رحم کیا جائے
اور جب قرآن پڑھا جائے تو توجہ سے سنا کرو اور خاموش رہا کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔
تعلیم ادب قرآن قال اللہ تعالیٰ واذا قرئ القرآن فاستمعوا لہ وانصتوا لعلکم ترحمون (ربط) گزشتہ آیت میں حق جل شانہ نے قرآن مجید کو بصیرت اور رحمت اور ہدایت فرمایا اب اس آیت میں اس کے ادب کی تعلیم دیتے ہیں کہ قرآن کا ادب اور اس کا حق یہ ہے کہ جب وہ پڑھا جائے تو تم ہمہ تن گوش بن جاؤ اور جب تک وہ پڑھا جائے اس وقت تک تم بالکل خاموش رہو تاکہ تم خدا کی رحمت اور عنایت کے مورد بن سکو۔ قرآن جو اللہ کا کلام ہے اس کا حق یہ ہے کہ کانوں سے اس کا استماع ہو اور زبان سے انصات یعنی خاموشی ہو تاکہ تم اس کی رحمت اور مہربانی کے مستحق بن سکو اس لیے کہ لعلکم ترحمون میں رحمت خاصہ کا وعدہ مستمعین اور منصتین کے لیے ہے نہ کہ منازعین اور مخالجین کے لیے۔ (ربط دیگر) نیز شروع سورت میں اتنباع قرآن کا حکم دیا تھا۔ کما قال تعالیٰ اتبعوا ما انزل الیکم من ربکم۔ اب سورت کے ختم پر قرآن کریم کے ایک خاص ادب کی تعلیم دی جاتی ہے کہ وہ ادب بھی منجملہ اتباع کے ہے کیونکہ اس آیت میں قرآن کا حق اور ادب استماع اور انصات بتلایا گیا ہے اور قرآن کا استماع اور انصا یہی قرآن کا اتباع ہے۔ کما قال تعالیٰ فاذا قرانہ فاتبع قرانہ۔ اے نبی کریم اور انصآت یہی قرآن کا اتباع ہے۔ کما قال تعالیٰ فاذا قرنہ فاتبع قرانہ۔ اے نبی کریم جب ہم آپ کے سامنے بلا واسطہ یا بالواسطہ قرآن پڑھیں تو آپ اس کا اتباع کیجئے صحیح بخاری میں میں ابن عباس سے مروی ہے کہ فاتبع قرانہ کے معنی فاستمع لہ وانصت کے ہیں ابن عباس کا مطلب یہ ہے کہ اس آیت میں فاتبع سے سننا اور خاموش رہنا مراد ہے۔ شان نزول : اس آیت کیے شان نزول میں مختلف اقوال آئے ہیں اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اولا تمام اقوال ذکر کردئیے جائیں تاکہ پوری حقیقت سامنے آجائے اور ترجیح اور تنقیح میں سہولت ہو۔ قول اول : بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ آیت نماز میں باتیں کرنے کے متعلق نازل ہوئی لوگ نماز میں باتیں کیا کرتے تھے اس پر سکوت اور خاموشی کا حکم ہوا کہ نماز میں امام کی قراءت سنو اور خاموش رہو باتیں نہ کرو۔ مگر یہ قول صحیح نہیں اس لیے کہ یہ آیت مکی ہے اور نماز میں کلام کرنے کا نسخ مدینہ منورہ میں ہجرت کے بعد ہوا اور جس آیت سے نماز میں سلام و کلام منسوخ ہوا وہ یہ ایت ہے۔ وقومو اللہ قانتین۔ جیسا کہ کتب حدیث و تفسیر میں تفصیل کے ساتھ مذکور ہے۔ قول دوم : بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ بعض مسلمان اثناء نماز میں ایک دوسرے کو سلام کرتے تھے اس کی ممانعت کے لیے یہ آیت نازل ہوئی مگر یہ قول بھی ضعیف ہے اور اس قول کا مآل قول اول ہی کی طرف ہے غرض یہ کہ شان نزول کے بارے میں یہ دونوں قول نہایت ضعیف ہیں۔ قول سوم : بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ آیت جمعہ کے خطبہ کے بارے میں نازل ہوئی لوگ اثناء خبطہ میں باتیں کیا کرتے تھے اس پر حکم ہوا کہ خاموش رہو باتیں نہ کرو (مگر) یہ قول بھی صحیح نہیں اس لیے کہ یہ آیت مکی ہے اور جمعہ مدینہ میں ہجرت کے بعد فرض ہوا کیونکہ سورة جمعہ بالاتفاق مدنی ہے۔ نیزخطبہ تو خطیب کا کلام ہے جب اس کا سننا اور اس کے لیے خاموش رہنا واجب ہوا تو کلام خداوندی کا سننا اور اس کے لیے کاموش رہنا بدرجۂ اولی واجب ہوگا۔ قول چہارم : بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ آیت کفار قریش کے بارے میں نازل ہوئی کہ جب قرآن پڑھا جاتا تھا تو کافر یہ کہتے تھے۔ لا تسمعوا لھذا القران والغوا فیہ لعلکم تغلبون۔ (یعنی اس قرآن کی طرف کان نہ لگاؤ اور اس کے پڑھنے کے وقت شور مچادیا کرو شاید تم مسلمان پر غالب آجاؤ) تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی جس میں کفار قریش کو خطاب کیا گیا کہ اے قریش جب آنحضرت ﷺ تمہارے سامنے قرآن پڑھیں تو تم کان لگا کر اس قرآن کو سنو اور خاموش رہو اور شور نہ مچاؤ اور اس قول کی دلیل یہ ہے کہ جس طرح شروع آیات میں کفار مخاطب ہیں اسی طرح مناسب ہے کہ آخر آیات میں بھی کفار ہی مخاطب ہوں اور لفظ لعلکم ترحمون۔ بھی اس پر دال ہے اس لیے کہ اس کے معنی یہ ہیں کہ شاید تم پر رحم کیا جائے اور یہ معنی کافروں کے مناسب ہیں اہل ایمان کے مناسب نہیں کیونکہ اہل ایمان تو پہلے ہی سے اہل ہدایت اور مورد رحمت بن چکے ہیں پس اس آیت کا تعلق اہل ایمان سے نہیں جیسا کہ اس کے سیاق وسباق سے ظاہر ہے۔ اور اس قول کو امام رازی نے اپنی تفسیر میں نقل کیا ہے جیسا کہ امام رازی کی عادت ہے کہ اپنی تفسیر میں تمام صحیح اور سقیم اقوال ذکر کردیتے ہیں تاکہ ایک مرتبہ تمام اقوال نظروں کے سامنے آجائیں قطع نظر اس امر سے کہ یہ قول صحیح ہے یا فاسد وکاسد ہے۔ اور یہ قول بظاہر اگرچہ مناسب معلوم ہوتا ہے مگر درحقیقت یہ قول بدعت ظاہرہ ہے اجماع سلف کے سراسر خلاف ہے یہ قول صحابہ وتابعین اور ائمہ مجتہدین میں سے کسی سے منقول نہیں بلکہ ان کے خلاف ہے جیسا کہ عنقریب ظاہر ہوجائے گا۔ قول پنجم : جمہور مفسرین کا قول یہ ہے کہ یہ آیت قراءت خلف الامام کے بارے میں نازل ہوئی یعنی خاص مقتدی کے لیے یہ حکم نازل ہوا کہ مقتدی کے لیے یہ جائز ہی نہیں کہ امام کے پیچھے قراءت کرے بلکہ اس کے لیے استماع اور انصات یعنی سننا اور خاموش رہنا واجب اور ضروری ہے اور اسی کو امام ابن جریر اور حافظ ابن کثیر نے اختیار کیا کہ یہ آیت قراءت خلف الامام کے بارے میں نازل ہوئی جیسا کہ ابن عباس وغیرہ سے مروی ہے کہ بعض لوگوں نے آپ کے پیچھے نماز میں قراءت کی اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ گزشتہ آیت میں حق جل شانہ نے یہ ارشاد فرمایا ھذا بصائر من ربکم وھدی و رحمۃ لقوم یؤمنون۔ یعنی یہ قرآن اہل ایمان کے لیے بصیرت اور ہدایت اور رحمت ہے۔ اب اس آیت یعنی واذا قرئ القرآن فاستمعوا لہ وانصتوا لعلکم ترحمون۔ میں اہل ایمان کو حکم دیا جاتا ہے کہ جب قرآن پڑھا جائے تو اس کا ادب اور احترام یہ ہے کہ تم اس وقت بالکل خاموش رہو اور پوری توجہ کے ساتھ سنو تاکہ تم پر رحمت الٰہی کا نزول ہو ایسا نہ کرو جیسا کہ کفار قریش کرتے تھے کہ قراءت قرآن کے وقت شور مچاتے تھے۔ کما قال تعالیٰ لا تسمعوا لھذا القرآن والغوا فیہ خاص کر نماز کی حالت میں مقتدی پر انصات (یعنی خاموش رہنا) فرض اور نہایت ضروری ہے جیسا کہ صحیح مسلم ابو موسیٰ اشعری سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا انما جعل الامام لیؤتم بہ فاذا کبر فکبروا واذا قرا فانصتوا۔ جز ایں نیست کہ امام اسی لیے بنایا گیا ہے کہ اس کی قتداء کی جائے پس جب وہ اللہ اکبر کہے تو تم بھی اللہ اکبر کہو اور جب امام قراءت کرے تو تم بالکل خاموش رہو (دیکھو تفسیر ابن کثیر ص 280 ج 2 و تفسیر ابن جریر ص 112 ج 9) اور یہ حدیث مسند احمد بن حنبل میں بھی ہے اور اس کے الفاظ یہ ہیں اذا قمتم الی الصلاۃ فلیؤمکم احدکم واذا قرا الالمام فانصتوا (مسند احمد ص 415 ج 4) ابو موسیٰ اشعری ؓ کی اس حدیث سے صاف ظاہر ہے کہ آنحضرت ﷺ کے اس ارشاد و اذا قرا فانصتوا میں انصآت کا حکم مقتدیوں ہی کو ہے اور حدیث میں جو انصتوا کا حکم آیا ہے وہ وہی حکم ہے جو قرآن کریم کے اس آیت میں آیا ہے۔ فاستمعوا لہ وانصتوا قرآن اور حدیث دونوں کے الفاظ ایک ہیں پس آیت کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کریم بیشک بصیرت اور ہدایت ہے مگر اس کے دو طریقے ہیں اول یہ کہ تم خود اس قرآن کو پڑھو اور اس کے حقائق اور معانی میں غور وفکر کرو اور دوسرا طریقہ یہ ہے کہ جب اس قرآن کو کوئی دوسرا پڑھے تو تم اس کو کمال توجہ اور کمال ادب اور کمال احترام کے ساتھ خاموشی کے ساتھ سنو تاکہ تم پر اللہ کی رحمتیں نازل ہوں۔ خاص کر نماز کی حالت میں جو کہ مناجات خداوندی کی حالت ہے اس وقت تو استماع اور انصات کا لزوم اور بھی مؤکد ہوجاتا ہے پہلی آیت میں پہلے طریقہ کا ذکر تھا اور اس آیت یعنی واذا قرئ القرآن فاستمعوا لہ وانصتوا۔ میں دوسرے طریقہ کا ذکر ہے امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں کہ تمام لوگوں کا اس پر اجماع ہے کہ یہ آیت نماز کے بارے میں نازل ہوئی (دیکھو 1 مغنی ابن قدامہ ص 605 ج 1 ۔ اور فتاوی ابن تیمیہ ص 143 ج 2) اور عبداللہ بن مسعود اور عبداللہ بن عمر اور عبداللہ بن عباس اور عبداللہ بن عباس اور عبداللہ بن مغفل اور سعید بن المسیب اور ابو العالیہ اور زہری اور زید بن اسلم اور شعبی اور ابراہیم نخعی اور حسن بصری اور مجاہد اور ضحاک اور قتادہ اور سدی وغیرہم ؓ سے مروی ہے کہ یہ آیت نماز کے بارے میں نازل ہوئی تفصیل اور تخریج کے لیے تفسیر ابن کثیر اور تفسیر در منثور دیکھیں۔ 1 ۔ قال ابن قدامہ فی المغنی قال احمد اجمع الناس علی ان ھذہ فی الصلاۃ وقال احمد فی روایۃ ابی داود اجمع الناس علی ان ھذہ الایۃ فی الصلاۃ اھ ص 605 ج 1 ۔ اور حافظ ابن تیمیہ اپنے فتاوی ص 143 ج 2 میں لکھتے ہیں وقال تعالیٰ واذا قرئ القرآن فاستمعوا لہ وانصتوا لعلکم ترحمون وقد استفاض عن السلف انھا نزلت فی القرآۃ فی الصلاۃ وقال بعضھم فی الخطبۃ وذکر احمد بن حنبل الاجماع علی انھا نزلت فی ذلک وذکر الجماع علی انہ لا تجب القراءۃ علی الماموم حال چناچہ فرماتے ہیں اور اے مسلمانو جب تمہارے سامنے قرآن پڑھا جائے تو اس کو کان لگا کر پوری توجہ اور التفات سے سنو اور امام کے پیچھے کچھ نہ پڑھو بالکل خاموش کھڑے رہو اور اپنے گوش سر اور گوش سر یعنی گوش دل کو قرآن کے سننے کے لیے مخصوص کردو اور زبان سے خاموش رہو اس لیے کہ قرآن اللہ تعالیٰ کا کلام ہے امام کا کلام نہیں۔ امام تو محض قاری ہے یعنی کلام خداوندی کا پڑھنے والا ہے پس جب امام قراءت قرآن کرتا ہے تو در پردہ متکلم اللہ تعالیٰ ہے نہ کہ امام بلا تشبیہ کے یوں سمجھو کہ نماز میں اللہ کا کلام۔ بجائے کوہ طور کے درخت کے امام کی زبان سے جلوہ افروز ہورہا ہے اور ظاہر ہے کہ جب کلام خداوندی جلوہ افروز ہو تو مجال دم زدنی نہیں کانوں سے سنو اور زبان سے خاموش رہو۔ کما قال تعالیٰ وخشعت الاصوات للرحمن فلا تسمع الا ھمسا۔ امید ہے کہ اس استماع اور انصات کی برکت سے تم پر اللہ کی خاص رحمت نازل ہوگی اور کلام خداوندی کے انوار و تجلیات کی وجہ سے تم کو ہدایت اور بصیرت بھی حاصل ہوگی اور نزغات شیطانی سے بھی محفوظ رہو گے اور عقل اور فطرت کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ جب کلام خداوندی پڑھا جائے تو کوئی آواز اور سانس نہ نکلنے پائے کما قال تعالیٰ وخشعت الاصوات للرحمن فلا تسمع الا ھمسا۔ چناچہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے مروی ہے من قرا خلف الامام فقد اخطا الفطرۃ (رواہ ابن ابی شیبۃ) جس نے امام کے پیچھے قراءت کی اس نے خلاف فطرت کام کیا کسی نے کیا خوب کہ عجب است کہ بوجودت وجود من بماند : تو بگفتن اندر آئی ومارا سخن بماند شیخ فرید الدین عطار (رح) فرماتے ہیں : ہر چہ فرماید مطیع امر باش طوطیائے دیدہ کن از خاک باش یہ ترجمہ لام اختصاص کا ہے کیونکہ فاستمعوا لہ میں جو لہ آیا ہے وہ لام اختصاص کے لیے ہے یعنی اپنے استماع کو قرآن کے لیے ایسا مخصوص کردو کہ کسی دوسری جانب توجہ باقی نہ رہے منہ عفا اللہ عنہ 2 اس لفظ سے گزشتہ آیت واما ینزغنک من الشیطان نزغ کی طرف اشارہ ہے تاکہ ماقبل سے مزید ربط ظاہر ہوجائے۔ اوچہ می گوید سخن تو گوش باش : تا بگوید او، مگو خاموش باش استماع اور انصات میں فرق اس آیت میں حق تعالیٰ نے مقتدی کو دو حکم دئیے ہیں ایک استماع کا دوسرا انصات کا اس لیے ضروری ہے کہ استماع اور انصات کے فرق کو واضح کیا جائے تاکہ آیت کا صحیح مفہوم اور مدلول معلوم ہوسکے سو جاننا چاہئے کہ کلام عرب میں مطلق سننے کو سماع کہتے ہیں خواہ وہ بالقصد والارادہ ہو یا بلا قصد اور بلا ارادہ کے ہو۔ استماع : اور استماع اس سننے اور کان لگانے کو کہتے ہیں کہ جو بالقصد والارادہ ہو اور پوری توجہ کے ساتھ ہو اور جب استماع کا صلہ لام لایا جائے تو فائدہ اختصاص کا دیتا ہے جیسا کہ حق تعالیٰ کا ارشاد ہے فاستمع لما یوحی (اے موسیٰ (علیہ السلام) اس وحی کو پوری توجہ کے ساتھ سنو جو تمہاری طرف بھیجی جا رہی ہے) اور لما یوحی میں جو لام اختصاص لایا گیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنی توجہ اور التفات کو ہماری وحی اور ہمارے کلام کے سننے کے لیے مخصوص کردو کہ جب تک وحی کا نزول ہوتا ہے رہے اس وقت تک توجہ اور التفات کسی دوسری جانب مبذول نہ ہو۔ اسی طرح واذا قرئ القرآن فاستمعوا لہ کا مطلب یہ ہوگا کہ جب تک امام کلام خداوندی کی قراءت کرتا رہے تو مقتدی کو چاہئے کہ پوری توجہ اور التفات کے ساتھ کلام خداوندی کو سنے اور اپنی توجہ اور التفات کو قرآن کے سننے کے لیے مخصوص کردے۔ انصات : اور انصات کے معنی سکوت اور خاموشی کے ہیں مگر انصات کے معنی مطلق سکوت اور خاموشی کے نہیں بلکہ کسی متکلم کے ادب اور احترام کی بناء پر خاموش رہنے کا نام انصات ہے خواہ وہ کلام سنائی دے یا نہ دے۔ مثلا کوئی شخص اپنی خلوت اور تنہائی میں خاموش بیٹھا ہے تو لغت میں اس کو سکوت اور صموت کہیں گے مگر انصآت نہ کہیں گے۔ انصات لغت میں اس سکوت اور خاموشی کو کہتے ہیں کہ جو کسی متکلم کے کلام کے ادب اور احترام میں خاموشی اختیار کی جائے عام اس سے کہ متکلم کا کلام سن رہا ہو یا نہ سن رہا جیسا کہ حدیث میں ہے۔ اقیموا الصفوف وحاذوا بالمناکب وانصتوا فان اجر المنصت الذی لا یسمع کا جر المنصت الذی یسمع رواہ عبدالرزاق مرسلا (فیض القدیر للمناوی ص 75 ج 2 ۔ والسراج المنیر ص 266 ج 1) یعنی صفوں کو سیدھا کرو اور مونڈھوں کو برابر رکھو اور نماز میں خاموش رہو اگرچہ تم کو امام کی قراءت سنائی نہ دے اس لیے کہ جو منصت (خاموش) امام کی قراءت کو نہیں سنتا اس کا اجر اس منصت (خاموش کے برابر ہے (کہ جو امام کی قراءت سن رہا ہے) اس حدیث سے صاف ظاہر ہے کہ انسات کے معنی مطلق خاموش رہنے کے ہیں کے خواہ امام کی قراءت سنائی دے یا نہ سنائی دے اس لیے فقہاء حنفیہ کہتے ہیں کہ استماع خاص ہے اور انصات عام ہے اور اس آیت میں بوقت قراءت امام مقتدی کے لیے دو حکم مذکور ہیں ایک استماع کا یہ حکم جہری نماز کے ساتھ مخصوص ہے۔ اور دوسرا حکم انصات کا ہے جو جہری اور سری دونوں کو شامل ہے اور انصتوا کا مطلب یہ ہے کہ جب امام قراءت کرے تو خاموش کھڑے رہو خواہ امام کی قراءت سنائی دے یا نہ دے دونوں صورتوں میں انصات کا حکم آیا ہے۔ اس لیے امام ابوحنیفہ فرماتے ہیں کہ مقتدی نہ جہری نماز میں قراءت کرے اور نہ سری نماز میں قراءت کرے فاستمعوا کا حکم جہری نماز سے متعلق ہے اور انصتوا کا حکم جہری اور سری دونوں نمازوں سے متعلق ہے (دیکھو احکام القرآن للجصاص ص 39 ج 3) جیسا کہ احادیث میں خطبہ کے لیے انصات کا حکم آیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ جب خطیب خطبہ دے رہا ہو تو اس وقت انصات (خاموشی) چاہئے خواہ خطیب کی آواز سنائی دیتی ہو یا نہ دیتی ہو تمام ائمہ مجتہدین کا اس پر امجماع ہے کہ جو شخص خطیب کا خطبہ نہ سن رہا ہو اور خطیب سے دور ہو تو اس پر بھی انصات (خاموش) رہنا واجب یا مستحب ہے اور ہر قسم کا کلام حالت خطبہ میں ممنوع ہے معلوم ہوا کہ لفظ انصات۔ مسموع کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ مسموع اور غیر مسموع دونوں کو عام ہے۔ غرض یہ کہ لفظ انصات باعتبار لغت کے جہر اور سر دونوں کو شامل ہے۔ حق جل شانہ نے آیت میں اول خاص جہری نماز کا حکم ذکر فرمایا فاستمعوا یعنی جب امام قراءت کرے تو سنو۔ اور اس کے بعد حکم عام ذکر فرمایا یعنی انصتوا فرمایا یعنی قراءت ِ امام کے وقت خاموش رہو اور حکم عام ہے جو جہری اور سری دونوں کو شامل ہے تمام علماء کا اس پر اجماع ہے کہ خطبہ کی حالت میں سامعین اور حاضرین کو آہستہ آہستہ ذکر وتسبیح کی بھی اجازت نہیں اگرچہ حاضرین خطبہ کی آواز نہ سن رہے ہوں۔ پس جبکہ خطبہ کی حالت میں سرا کلام ممنوع ہے تو نماز میں سرا قراءت بدرجہ اولے ممنوع ہوگی معلوم ہوا کہ لفظ انصآت عام ہے جہری اور سری دونوں کو شامل ہے۔ اور مالکیہ اور حنابلہ یہ کہتے ہیں کہ استماع اور انصات دونوں کے ایک معنی ہیں اور جملہ ثانیہ یعنی وانصتوا جملہ اولے ٰ یعنی فاستمعوا کی تاکید ہے اور استماع اور انصات کا ھکم جہری نمازوں کے ساتھ مخصوص ہے استماع کے معنی سننے کے ہیں اور انصات کے معنی سکوت مع الاستماع کے ہیں اور استماع اور انصات کا مآل ایک ہے اور دونوں حکم جہری نماز کے ساتھ مخصوص ہیں۔ فقہاء حنفیہ کہتے ہیں کہ فاستمعوا کا حکم جہری نماز کے ساتھ مخصوص ہے اور انصتوا کا حکم جہری اور سری دونوں نمازوں کو شامل ہے۔ پس جب استماع اور انصات کے معنی الگ الگ ہوئے تو جملہ وانصتوا تا سیس (یعنی جدید) معنی کے لیے ہوا اور تمام ائمہ بلاغت کا اس پر اجماع ہے کہ تاسیسی تاکید سے بہتر ہے اور تاسیس کو چھوڑ کر تاکید کو اختیار کرنا بالاجماع مکروہ ہے۔ اور اسی وجہ سے کہ لفظ انصات بہ نسبت لفظ استماع کے عام ہے اور جہریہ اور سریہ دونوں کو شامل ہے سو جن احادیث میں مقتدی کے احکام بیان کیے گئے ہیں ان احادیث میں اذا قرا فانصتوا کا حکم جہریہ اور سریہ دونوں نمازوں کو شامل ہوجائے اور معلوم ہوجائے کہ مقتدی پر ہر حال میں انصات یعنی خاموش رہنا واجب ہے خواہ امام کی قراءت اس کو سنائی دے یا نہ سنائی دے۔ بحمدہ تعالیٰ ہمارے اس بیان سے استماع اور انصات کا فرق خوب واضح ہوگیا۔ شیخ جلال الدین سیوطی فرماتے ہیں الانصات باللسان والستماع بالاذنین۔ (تفسیر در منثور ص 156 ج 3) مطلب یہ ہے کہ انصات کا تعلق زبان سے ہے اور استماع کا تعلق کانوں سے ہے اور آیت کا مطلب یہ ہے کہ جب نماز میں قرآن پڑھا جائے تو کانوں سے سنو اور زبان سے خاموش رہو خواہ امام کی آواز تمہیں سنائی دے یا نہ سنائی دے قال تعالیٰ واذ صرفنا الیک نفرا من الجن یستمعون القرآن فلما حجروہ قالوا انصتوا۔ اس آیت میں انصتوا کے معنی یہ ہیں کہ جب قرآن پڑھا جائے تو بالکل خاموش رہو اور کوئی حرف زبان سے نہ نکالو اس لیے امام ابوحنیفہ فرماتے ہیں کہ جہری اور سری دونوں نمازوں میں امام کے پیچھے مقتدی کے لیے قراءت ممنوع ہے اس لیے کہ سورة اعراف کی اس آیت سے واضح ہوگیا کہ مقتدی پر استماع اور انصات واجب اور لازم ہے اور اس کے خلاف ممنوع ہے اس لیے کہ امر بالشیئ نہی عن ضدہ کو مقتضی ہے پس جب بحکم خداوندی مقتدی پر استماع اور انصات واجب ہوگیا تو لامحالہ مقتدی کے لیے امام کے پیچھے قراءت کرنا مطلقاً ممنوع اور منھی عنہ ہوگا اور تاآخر یہ حکم قائم رہا اور اس کے بعد کوئی آیت اس کی ناسخ نازل نہیں ہوئی اور ذخیرۂ حدیث میں ایک حدیث بھی ایسی موجود نہیں کہ جس میں صراحۃً آپ نے ان سے باز پرس کی اور بطور عتاب یہ فرمایا۔ انی اراکم تقرءون وراء امامکم اور ایک روایت میں ہے ھل تقرءون وراء امامکم۔ اور ایک روایت میں ہے ھل تقرئون وراء امامکم۔ اور ایک روایت میں ہے لعلکم تقرءون ان سب کا مطلب یہ ہے کہ میں تم کو دیکھتا ہوں کہ تم اپنے امام کے پیچھے قراءت کرتے ہو جو منصب اقتداء کے منافی ہے مقتدی کا فرض تو یہ ہے کہ امام کی قراءت سنے اور خاموش رہے اور ایک روایت میں ہے کہ آپ صبح کی نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا ھل قرا معی منکم احد انفا کی اتم میں سے کسی نے میرے ساتھ کچھ پڑھا ہے ساری جماعت میں سے صرف ایک شخص نے کہا ہاں یارسول اللہ میں نے پڑھا ہے آپ نے فرمایا مالی انازع القرآن میں بھی تو کہتا ہوں کہ میرے ساتھ نماز میں قراءت قرآن کے بارے میں منازعت کی جاتی ہے اور منازعت کے معنی کشمکش اور جھگڑے کے ہیں مطلب یہ ہے کہ نماز میں قراءت قرآن تو حق امام کا ہے۔ تم میرے پیچھے قراءت کر کے میرے اس حق کو چھیننا چاہتے ہو لہذا مقتدی کو چاہئے کہ قراءت خلف الامام کر کے امام کے ساتھ منازعت نہ کرے ابوہریرہ یا زہری فرماتے ہیں کہ آپ کے اس خطاب سراپا عتاب کے سننے کے بعد جہری نماز میں قراءت کرنے سے سب لوگ باز آگئے فانتھی الناس عن القراءۃ فیما جھر فیہ رسول اللہ ﷺ بالقراءۃ حین سمعوا ذلک من الرسول ﷺ ۔ یہ تو جہری نماز کا واقعہ ہوا کہ لوگ جہری نماز میں قراءت خلف الامام سے باز آگئے۔ اسی طرح کا واقعہ ظہر کی نماز میں پش آیا جو سری نماز ہے کہ ایک شخص نے ظہر کی نماز میں آپ کے پیچھے قراءت کی تو آپ نے نماز سے فارغ ہو کر بطور عتا فرمایا۔ ایکم خالجنیھا کس نے مجھ کو خلفجان میں ڈالدیا اور ایک روایت میں ہے لقد ظننت ان بعضکم خالجنیھا اس وجہ سے اس حدیث کو حدیث مخالجت کہتے ہیں جیسا کہ پہلی حدیث کو حدیث منازعت کہتے ہیں اور دونوں لفظوں سے مقتدی کو قراءت سے ممانعت مقصود ہے حدیث منازعت فجر کی نماز کا واقعہ ہے۔ اور حدیث مخالجت ظہر کی نماز کا واقعہ ہے معلوم ہوا کہ جہری اور سری دونوں ہی نمازوں میں مقتدی کے لیے قراءت خلف الامام ممنوع ہے۔ پس جن لوگوں نے آپ کے پیچھے جہری یا سری کسی نماز میں قراءت کی آپ نے اس قراءت کو منازعت اور مخالجت قرار دیا جو کراہت اور ممانعت کی صریح دلیل ہے پس ان روایات سے صاف ظاہر ہے کہ کسی مقتدی کی قراءت خلف الامام آپ کے حکم اور آپ کی اجازت سے ہرگز نہ تھی اور نہ آپ کو اس کی خبر تھی ورنہ آپ باز پرس نہ فرماتے اور مقتدی کے پڑھنے کو آپ منازعت اور مخالجت نہ قرار دیتے یہی وجہ ہے کہ صحابہ نے آپ کی اس باز پرس کو نہی اور ممانعت سمجھا اسی بناء پر ابوہریرہ یا زہری یہ فرماتے ہیں فانتھی الناس عن القراءۃ فیما جھر فیہ رسول اللہ ﷺ اس لیے کہ لفظ انتہاء (بمعنی باز آجانا) اسی موقع پر استعمال کیا جاتا ہے۔ جہاں پہلے نہی اور ممانعت آچکی ہو جیسے خمر اور میسر کے بارے میں فھل انتم منتھون کا لفظ آیا ہے جو اس امر کی دلیل ہے کہ ماقبل کا کلام نہی اور ممانعت کے لیے تھا اس وجہ سے اس آیت کریمہ کو سن کر حضرت عمر نے عرض کیا۔ انتھینا انتھینا ہم باز آگئے آئندہ کبھی شراب نہ پئیں گے۔ اسی طرح فانتھی الناس عن القراءات کے معنی یہ ہوں گے کہ آپ کے اس خطاب سراپا عتاب کے بعد تمام صحابہ قراءت خلف الامام سے باز آگئے اور ائندہ کے لیے عہد کرلیا کہ اب کبھی قراءت خلف الامام نہیں کریں گے۔ ذکر مذاہب فقہاء کرام دربارۂ قراءت خلف الامام بحمدہ تعالیٰ سورة اعراف کی اس آیت سے امام ابوحنیفہ کا مسلک خوب واضح ہوگیا کہ مقتدی کو امام کے پیچھے جہری اور سری دنوں نمازوں میں قرائت کرنا ممنوع ہے اور بقدر ضرورت اجمالاً ان احادیث کو بھی ذکر کردیا گیا جن سے مقتدی کو امام کے پیچھے پڑھنے کی ممانعت معلوم ہوتی ہے۔ اب مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس مسئلہ میں دیگر ائمہ مجتہدین کے مذاہب بھی ذکر کردئیے جائیں تاکہ مسئلہ کے تمام اطراف و جوانب اجمالی طور پر نظروں کے سامنے آجائیں۔ فاقول وابللہ التوفیق وبیدہ ازمۃ التحقیق مذہب امام شافعی : امام شافعی یہ فرماتے ہیں کہ جہری اور سری دونوں قسم کی نمازوں میں مقتدی پر امام کے پیچھے سورة فاتحہ کا پڑھنا فرض اور واجب ہے اس لیے کہ حدیث میں آیا ہے لا صلاۃ لمن لم یقرا بفاتحۃ الکتاب یعنی جس نے نماز میں فاتحہ نہیں پڑھی اس کی نماز نہیں ہوئی اور اسی کو امام بخاری نے اپنی جامع صحیح میں اختیار فرمایا اور اس بارے میں ایک رسالہ تحریر فرمایا جو جزء القراءۃ خلف المام کے نام سے مشہور ہے۔ امام مالک اور امام احمد رحمہما اللہ تعالیٰ کا مذہب امام مالک اور امام احمد یہ فرماتے ہیں کہ جہری نماز میں مقتدی کو امام کے پیچھے قراءت کرنا قطعاً ممنوع ہے البتہ سری نماز میں قراءت خلف الامام جائز یا مستحب ہے اور یہی امام شافعی کا قول قدیم ہے۔ حافظ ابن تیمیہ اپنے فتاوی میں فرماتے ہیں کہ جہری نماز میں قرات خلف الامام کے متعلق امام احمد کے دو قول ہیں ایک قول تو یہ ہے کہ جہری نماز میں قراءت خلف الامام حرام ہے اور اس سے مقتدی کی نماز بھی باطل ہوجاتی ہے دوسرا قول یہ ہے کہ جہری نماز میں قراءت خلف الامام حرام ہے اور اس سے مقتدی کی نماز بھی باطل ہوجاتی ہے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ جہری نماز میں مقتدی کے لیے قراءت خلف الامام ناجائز تو ہے مگر اس سے مقتدی کی نماز باطل نہیں ہوتی اور امام احمد کا یہی قول مذہب حنبلی میں زیادہ مشہور ہے (دیکھو فتاویٰ 1 ابن تیمیہ ص 141 ج 2) خاص کر حضرات غیر مقلدین ضرور دیکھیں۔ بعد ازاں حافظ ابن تیمیہ نے اس پر طویل کلام فرمایا جس کا خلاصہ یہ ہے کہ آیت اعراف اور احادیث نبویہ سے یہ ثابت ہے کہ جہری نماز میں مقتدی پر استماع اور انصات واجب ہے اور مقتدی کو امام کے پیچھے پڑھنا قطعاً ممنوع ہے پھر آخر میں فرماتے ہیں بعد ازاں حافظ ابن تیمیہ نے اس پر طویل کلام فرمایا جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ایت اعراف اور احادیث ہو یہ سے ثابت ہے کہ جہری نماز میں مقتدی پر استماع اور انصات واجب ہے اور مقتدی کو امام کے پیچھے پڑھنا قطعاً ممطوع ہے پھر آخر میں فرماتے ہیں۔ 1 اصل عبارت یہ ہے۔ والقراءۃ اذا سمع قراءۃ الامام ھلھی محرمۃ ومکروھۃ وھل تبطل الصلاۃ اذا قرا بطلت صلاتہ وھذا احد الوجھین فی مذھب احمد (والشانے) ان الصلاۃ لا یبطل وھذا قول الاکثرین وھذا ھو المشہور من مذھب احمد (فتاوی ابن تیمیہ ص 141 ج 2) وایضا فالمقصود بالجھر استماع المامومین ولھذا یؤمنون علی قراءۃ الامام فی الجھر دون السر فاذا کانوا مشغولین عنہ بالقراءۃ فقد امران یقراء علی قوم لا یستمعون لقراء تہ وھو بمنزلۃ من یحدث من لا یستمع لحدیث ویخطب من لا یستمع لخطبتہ وھذ سفہ تنزۃ عنہ الشریعۃ ولھذا روی فے الحدیث مثل الذی یتکلم والامام یخطب کمثل الحمار یحمل اسفارا فھکذا اذا کان یقراء والامام یقرا علیہ (فتاوی ابن تیمیہ ص 147 2) ترجمہ : جہری نماز میں جہرا قراءت سے مقصود یہ ہے کہ مقتدی امام کی قراءت کو سنیں اس وجہ سے مقتدی جہری نماز میں امام کے فاتحۃ ختم ہونے پر آمین کہتے ہیں۔ سری نماز میں آمین نہیں کہتے۔ پس اگر مقتدی جہری نماز میں امام کی قراءت کو نہ سنیں بلکہ اپنی قراءت میں مشغول رہیں تو لازم آئے گا کہ معاذ اللہ خدا تعالیٰ نے جہری نماز میں ایسی قوم کے سامنے امام کو جہراً قراءت کا حکم دیا ہے ہے جو اللہ کے کلام کو سننا چاہتے (اور بجائے اللہ کا کلام سننے کے اپنی قراءت میں مشغول ہیں) یہ تو بعینہ ایسا ہے کہ کوئی شخص ایسی قوم سے باتیں کرتا ہے جو اس کی بات کی طرف کان نہیں لگاتے یا کوئی شخص ایسے لوگوں کے سامنے خطبہ پڑھتا ہے جو اس کے خطبہ کی طرف کان لگانا نہیں چاہتے یہ تو سراسر سفاہت اور نادانی ہے جس سے شریعت منزہ ہے اور اس وجہ سے حدیث میں آیا ہے کہ اس شخص کی مثال جو کہ خطبہ کی حالت میں کلام کرتا ہو خطیب تو خطبہ دے رہا ہو اور یہ شخص اپنی باتوں میں مشغول ہو گدھے کی سی مثال ہے جو اپنی اوپر کتابوں کو لادے ہوئے ہے یہی مثال ہے اس شخص کی جو اپنے پڑھنے میں مشغول ہو در انحالی کہ امام جہراً اس کے سامنے قراءت کر رہا ہو (حافظ ابن تیمیہ کے کلام کا ترجمہ ختم ہوا) حاصل کلام یہ کہ اگر جہری نماز میں مقتدی امام کی قراءت کو نہ سنے اور خود اپنی قراءت میں مشغول رہے تو آخر اس کو یہ سوچنا چاہئے کہ امام جو جہراً قراءت کر رہا ہے وہ کس کے سنانے کے لیے کر رہا ہے اور کیا معاذ اللہ خدا تعالیٰ نے ایسی قوم کے سامنے جہر کا حکم دیا ہے جو اس کا کلام سننا نہیں چاہتی۔ مذہب امام بو حنیفہ ؓ : امام ابوحنیفہ فرماتے ہیں کہ جہری اور سری دونوں قسم کی نمازوں کا حکم یکساں ہے مقتدی کے لیے کسی نماز میں بھی قراءت جائز نہیں امام مالک اور امام احمد نے جو جہری اور سری نمازوں کے حکم میں تفریق کی وہ ان کا اجتہاد ہے باقی آیت قرآنیہ یعنی واذا قرئ القرآن فاستمعوا لہ وانصتوا۔ جہریہ اور سریہ دونوں کو شامل ہے جیسا کہ واضح ہوچکا ہے اور علی ہذا احادیث میں بھی قرآن کی طرح ہی سب جگہ استماع اور انصات کا عام حکم آیا ہے ارشاد نبوی میں کسی جگہ جہری اور سری کا فرق ظاہر نہیں ہوتا۔ فرق واقعہ کا ہے کسی جگہ مقتدی کے پڑھنے کا واقعہ فجر کی نماز میں پیش آیا اور کسی جگہ ظہر میں پیش آیا اور سب جگہ آپ نے مقتدی کی قراءت پر باز پرس کی اور ناگواری کا اظہار فرمایا۔ کسی جگہ ناگواری کا اظہار منازعت کے لفظ سے فرمایا اور کسی جگہ مخالجت کے لفظ سے فرمایا ہر جگہ مطلقاً مقتدی کا امام کے پیچھے پڑھنا ناگواری اور باز پرس کا سبب بنا جہر اور سر کا اس میں کوئی دخل نہیں۔ اور اسی طرح کا ایک واقعہ عصر کی نماز میں پیش آیا کہ آنحضرت ﷺ عصر کی نماز پڑھا رہے تھے کہ ایک شخص نے آپ کے پیشھے قراءت کی ایک شخص نے وج اس کے پاس تھا اس کو اشارہ کیا کہ خاموش ہوجا پس جب وہ نماز پڑھ چکا تو اس نے کہا کہ تو نے مجھے کیوں ٹوکا تھا۔ اور مجھ کو اشارہ سے کیوں منع کیا تھا تو اس ٹوکنے اور روکنے والنے پیچھے پڑھنے والے سے کہا۔ کان رسول اللہ ﷺ قدامک فکرھت انترا خلفہ فسمعہ النبی ﷺ قال من کان لہ امام فان قراءت ہ لہ قراء ۃ یعنی اس منع کرنے والے نے کہا۔ جبکہ رسول خدا ﷺ تیرے سامنے اور آگے امامت فرما رہے تھے پس میں نے مکروہ جانا کہ تو آنحضرت ﷺ کے پیچھے کچھ پڑھے پس آنحضرت ﷺ نے ان کی یہ گفتگو سن لی۔ سن کر یہ فرمایا جس کے لیے امام ہو پس تحقیق امام کی قراءۃ اس کی قراءۃ ہے۔ (دیکھو موطاء امام محمد ص 98 و کتاب الآثار للامام محمد ) مطلب یہ ہے کہ امام کی قراءت مقتدی کے لیے کافی ہے مقتدی کو علیحدہ قراءت کی ضرور نہیں جیسا کہ قرآن کریم میں ہے اولم یکفہم انا انزلنا علیک الکتاب۔ یعنی قرآن اللہ کی کتاب ہدایت کے لیے کافی ہے اس کے ہوتے ہوئے کسی دوسری کتاب کی طرف رجوع کی ضرورت نہیں۔ پس اس حدیث میں امام کے پیچھے پڑھنے کی کراہت اور ناگواری اور ناپسندیدگی کو آپ نے یہ عنوان کفایت ذکر فرمایا اور جس شخص نے امام کے پیچھے پڑھنے والے کو منع کیا تھا آنحضرت ﷺ کو مطلقاً مقتدی کا امام کے یچھے پڑھنا ناگوار اور ناپسند تھا۔ الفرض یہ واقعہ کبھی فجر کی نماز میں پیش آیا اور کبھی ظہر اور عصر میں پیش آیا اور ہر جگہ اور ہر موقعہ پر آپ نے کراہت اور ناگواری کا اظہار فرمایا اس لیے امام ابوحنیفہ نے یہ ارشاد فرمایا کہ نہ جہری نماز میں قراءت خلف الامام ہے اور نہ سری میں۔ یہ جابر بن عبداللہ کی حدیث کا مضمون تھا جو بلاشبہ صحیح ہے اور اسی کے ہم معنی ابو الدرداء ؓ کی حدیث ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا ما اری الامام اذا قرا الا کان کافیا (رواہ البطرانی واسنادہ حسن) میں نہیں جانتا کہ جب امام قراءت کرے مگر یہ کہ وہ مقتدی کے لیے کافی اور وافی ہے۔ مذہب اور خلفاء راشدین ؓ : امام عبدالرزاق (رح) نے اپنی مصنف میں امام المغازی موسیٰ بن عقبہ سے مرسلاً روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ اور ابوبکر صدیق ؓ اور عمر فاروق ؓ اور عثمان غنی امام کے پیچھے قراءت کرنے سے منع کیا کرتے تھے (عمدۃ القاری) حافظ عینی فرماتے ہیں کہ یہ مرسل صحیح ہے اور عبدالرزاق کا سماع موسیٰ بن عقبہ سے ممکن ہے۔ فاروق اعظم ؓ کا ارشاد گرامی : امام محمد ابن الھسن مؤطا ص 98 میں فرماتے ہیں ان عمر بن الخطاب قال لیت فی فم الذی یقرا خلف المام حجرا۔ فاروق اعظم کا یہ ارشاد ہے کہ کاش اس شخص کے منہ میں پتھر ہوں جو امام کے پیچھے قراءت کرے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا ارشاد گرامی مصنف بن ابی شیبہ میں حضرت علی ؓ سے مروی ہے کہ آپ نے ارشاد فرمایا من قرا خلف الامام فقد اخطا الفطرۃ جس نے امام کے پیچھے قراءت کی وہ فطرت سے چوک گیا۔ یعنی قراءۃ خلف الامام خلاف فطرت فعل ہے۔ اب ہم اس بیان کو ختم کرتے ہیں۔ ہم نے صرف تحقیق پر اکتفا کیا اور روایات کی جرح وتعدیل سے کنارہ کشی کی اس لیے کہ اس کا محل کتب حدیث وفقہ ہیں۔ امید ہے کہ تشفی قلب کے لیے یہ تحریر کافی ہوگی۔ لطائف ومعارف امام نسائی (رح) نے اپنی سنن میں اس عنوان سے ایک ترجمہ قائم کیا تاویل قولہ وعز وجل واذا قرئ القرآن فاستمعوا لہ وانصتوا لعلکم ترحمون۔ اخبرنا الجارود الی عن ابی ہریرہ ل قال رسول اللہ ﷺ انما جعل الامام لیؤتم بہ فاذا کبر فکبروا واذا قرا فانصتوا واذا قال سمع اللہ لمن حمدہ فقولوا ربنا لک الحمد۔ امام نسائی کا عنوان باب میں آیت قرآنی کی نقل کر کے اس کے تحت اس حدیث کو ذکر کرنے کا مطلب ہی یہ ہے کہ یہ حدیث اس آیت کی تفسیر ہے اور ظاہر ہے کہ اس حدیث سے مقتدی کا حکم بیان کرنا ہے اور حدیث کا آغاز ہی انما جعل الامام قرآنی واذا قرئ القرآن فاستمعوا لہ وانصتوا۔ سے مقتدی کا حکم بیان کرنا ہے کہ امام کے پیچھے مقتدی پر مطلقا ً استماع اور انصات واجب اور لازم ہے مقتدی کو امام کے پیچھے اپنی قراءت جائز نہیں اور یہ حکم عام ہے کہ سورت کے ساتھ مقید نہیں۔ نکتہ : آیت اعراف اور حدیث انصات میں ایک لطیف فرق ہے وہ یہ ہے کہ حدیث انصات میں مقصود فقط امامت اوراقتداء کے حکم کو بتلانا ہے۔ اور آیت اعراف میں اصل مقصود قراءت قرآن کے حکم کو بتلانا ہے اس لیے آیت اعراف میں دو حکم ذکر فرمائے ایک استماع کا اور ایک انصات کا اس لیے کہ قراءت قرآن کبھی جہراً ہوتی ہے اور کبھی سرا اس لیے جہری قراءت کے متعلق استماع کا حکم دیا گیا ہے اور سری قراءت کے متعلق انصات کا حکم دیا گیا کہ اگر امام جہراً قراءت کر رہا ہو اور تم اس کی قراءت کو سن رہے ہو تو اس وقت تو تمہارے لیے حکم یہ ہے کہ فاستمعوا لہ یعنی امام کی قراءت کو پوری توجہ اور التفات سے سنو اور اگر امام سرا قراءت کر رہا ہو اور تمہیں اس کی قراءت سنائی نہ دے رہی ہو تو اس وقت تمہارے لیے انصتوا کا حکم ہے یعنی خاموش رہو غرض یہ کہ آیت میں قراءت قرآن کا حکم بیان کرنا مقصود ہے اس لیے اس کے متعلق دو حکم بیان فرمائے جہاں امام کی قراءت کا علم ہو ہواں حکم استماع کا ہے اور جہاں امام کی قراءت کا علم نہ ہو وہاں حکم انصات کا ہے۔ اور حدیث مذکور میں اصل مقصود امام اور مقتدی کا حکم بیان کرنا ہے اس لیے مقتدی کے متعلق صرف ایک حکم انصات یعنی سکوت کا ذکر فرمایا کہ مقتدی پر مقتدی ہونے کی حیثیت سے ہر حال میں انصات یعنی سکوت واجب ہے اور اس میں امام کے جہر یا عدم جہر کو اور مقتدی کے استماع یا عدم استماع کو کوئی دخل نہیں اس لیے حدیث میں صرف ایک حکم یعنی انصات و سکوت پر اکتفا فرمایا استماع یا عدم استماع کو کوئی دخل نہیں اس لیے حدیث میں صرف ایک حکم یعنی انصات و سکوت پر اکتفا فرمایا استماع کا حکم ذکر نہیں فرمایا اس لیے حدیث میں مقصود قراءت کا حکم بیان کرنا نہیں بلکہ فقط مقتدی کا فریضہ بتلانا مقصود ہے کہ مقتدی کا فرض یہ ہے کہ امام کے پیچھے بالکل خاموش کھڑا رہے اسی بناء پر جس قدر حدیثیں اقتداء کے احکام کے بارے میں آتی ہیں۔ سب جگہ صرف فانصتوا ہی کا لفظ آیا ہے جو جہری اور سری دونوں نمازوں کو شامل ہے۔ اور ابتداء مشروعیت امامت سے لے کر وفات نبوی تک کسی وقت بھی مقتدی پر قراءت فرض نہیں ہوئی بلکہ سنت یہ رہی کہ امام قراءت کرتا اور مقتدی سنتے اور خاموش رہتے۔ لیلۃ الاسراء میں نبی اکرم ﷺ جب مسجد اقصی پہنچے تو حضرات انبیاء ومرسلین اور ملائکہ مقربین (علیہم السلام) آپ کی انتظار میں مسجد اقصی میں جمع تھے جبرئیل کے حکم سے آپ امامت کے لیے آگے بڑھے آپ نے امامت فرمائی اور قراءت قرآن کی اور انبیاء کرام اور ملائکہ عظام نے آپ کی اقتداء کی سب نے آپ کی قراءت کو سنا کسی ایک نبی یا فرشتہ نے آپ کے پیچھے سورة فاتحہ نہیں پڑھی۔ شب معراج میں پانچ نمازیں فرض ہوئیں اس کے بعد سے امامت اوراقتداء کے سلسلہ کا آغاز ہوا۔ ہمیشہ یہی طریقہ رہا کہ امام پڑھتا اور مقتدی سنتے یہاں تک کہ جب بعض لوگوں نے اتفاقا محض اپنی رائے سے آپ کے پیچھے قراءت کر ڈالی تو اس پر سورة اعراف کی یہ آیت واذا قرئ القران فاستمعوا لہ وانصتوا نازل ہوئی جس سے مقصود ہی قراءت خلف الامام کی ممانعت تھی کہ مقتدی پر استماع اور انصآت واجب ہے مقتدی کے لیے امام کے پیچھے قراءت کرنا ہرگز جائز نہیں اکابر صحابہ میں سے کسی نے بھی آپ کے پیچھے کبھی قراءت نہیں کی لیکن بعض غیر معروف اشخاص نے نہ معلوم کس بناء پر آپ کے پیچھے فاتحہ یا سورة کی قراءت کی تو آپ نے نماز سے فارغ ہو کر ان سے باز پرس کی اور یہ فرمایا لعلکم تقرءون خلف امامکم معلوم ہوا کہ یہ قراءت نہ آپ کی اجازت اور حکم سے تھی اور نہ آپ کو اس کی خبر تھی اور قراءت خلف الامام پر تنبیہ کے لیے یہ آیت نازل ہوئی۔ واذا قرئ القران فاستمعوا لہ وانصتوا۔ جس میں مطلقاً قراءت قرآن کے وقت استماع اور انصآت کا حکم دیا گیا اور اس حکم کو مقید بسورت نہیں فرمایا۔ اور علی ہذا مرض الوفات میں اسی طرح پیش آیا کہ آپ کے حکم سے ابوب کر مسجد نبوی میں امامت کر رہے تھے اور صبح کی نماز پڑھا رہے تھے تو آنحضرت نے اپنے مرض میں کچھ تخفیف محسوس کی تو مسجد میں تشریف لے آئے۔ صدیق اکبر پیچھے ہٹ گئے اور آنحضرت امام ہوگئے (مسند احمد ص 632 ج 1) اور سنن دارقطنی ص 153 میں ابن عباس سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے اسی جگہ سے قراءت شروع کی جہاں ابوبکر صدیق پہنچ چکے تھے اور ابوبکر صدیق اس وقت سورت پڑھ رہے تھے۔ پس آنحضرت نے اس اپنی آخری نماز میں سورة فاتحہ نہیں پڑھی اور جتنی مقدار قراءت اور سورة فاتحہ آپ سے اس نماز میں رہ گئی تھی آپ نے اس کا اعادہ نہیں فرمایا جس کی وجہ سوائے اس کے کچھ نہیں ہوسکتی کہ ابوبکر صدیق اس نماز میں ابتداء سے امام تھے اور وہ سورة فاتحہ پڑھ چکے تھے۔ ان کی قراءت سب کے لیے کافی ہوگئی۔ جیسا کہ دوسری حدیث میں ہے من کان لہ امام فقراءۃ الامام لہ قراءۃ یعنی امام کی قراءت حکما مقتدی کی قراءت ہے اس حدیث سے معلوم ہوا کہ شریعت کی نظر میں قراءت کی دو قسمیں ہیں ایک حقیقی اور ایک حکمی۔ نماز میں امام کی قراءت حقیقی ہے اور مقتدی کی قراءت حکمی ہے۔ اور آنحضرت ﷺ کا یہ ارشاد لا صلوۃ لمن لم یقرا بفاتحۃ الکتاب بالفرض اگر عام ہے اور امام اور مقتدی دونوں کو شامل ہے تو اس حدیث میں قراءت فاتحہ بھی عام ہے خواہ وہ حقیقۃ ہو یا حکما پس جو مقتدی بحکم خداوندی امام کے پیچھے استماع اور انصات میں مشغول ہے وہی مقتدی حسب ارشاد نبوی حکما قراءت بھی کر رہا ہے من کان لہ امام فقراءۃ الامام لہ قراءۃ اور یہ مقتدی بحالت استماع وانصات مستور ہے اور اسی طرح مقتدی بیک وقت حکم خداوندی استماع وانصآت اور لا صلوۃ لمن لم یقرا بفاتحۃ الکتاب پر عمل کر راہ ہے اور اس کی یہ حکمی قراءت زیر پردۂ استماع وانصات مستور ہے اور اسی طرح مقتدی بیک وقت حکم خداوندی استماع وانصات اور لا صلوۃ لمن لم یقرا بفاتحۃ الکتاب پر عمل کر رہا ہے اور اس کی ٰۃ حکمی قراءت زیر پردہ استماع وانصات مستور ہے اور اسی طرح مقتدی بیک وقت حکم خداوندی استماع وانصات اور لا صلوۃ لمن لم یقرا بفاتحۃ الکتاب پر عمل کر رہا ہے اور جو شخص امام کے پیچھے قراءت کر رہا ہے وہ حکم خداوندی استماع وانصات کے بھی خلاف کر رہا ہے اور جس منازعت اور مخالجت سے آنحضرت ﷺ نے منع فرمایا ہے اس کا مرتکب سو رہا ہے قراءت خلف الامام کرنے والا بیک وقت خدا اور رسول کے حکم کے خلاف کررہا ہے خوب سمجھ لو کہ وہ بجائے استماع وانصات کے امام کی منازعت اور مخالجت میں مشغول ہے جس سے آنحضرت ﷺ نے منع فرمایا ہے اگر آپ نے کسی وقت مقتدی کو قرءت کا حکم دیا ہوتا تو آپ کبھی بھی باز پرس نہ فرماتے۔ نکتۂ دیگر : نماز میں قراءت قرآن سے مقصود یا تو احکام خداوندی کا سننا ہے یا مناجات خداوندی مقصود ہے اگر اول مقصود ہے تو امام حق تعالیٰ کی طرف سے خلیفہ ہے کہ وہ احکام خداوندی کو پہنچا دے اور اگر مقصود مناجات وار استدعاء نیاز ہے تو امام قوم کی طرف سے وکیل ہے کہ سب مقتدیوں کی طرف سے بارگاہ خداوندی میں استدعاء نیاز پیش کر رہا ہے۔ اور ظاہر ہے کہ خلافت اور وکالت کا فریضہ ایک ہی شخص ادا کرسکتا ہے اس لیے قراءت کا فریضہ ایک امام ہی ادا کرے گا اور مقدتی اس کی قراءت پر آمین کہیں گے باقی رہی آداب عبودیت سو وہ سب پر لازم ہونگے مثلا رکوع اور سجود اور تسبیح وتحمید یہ سب بارگاہ خداوندی اور عبادت کے آداب ہیں یہ لازم ہونگے۔ مثلا رکوع اور سجود اور تسبیح وتحمید یہ سب بارگاہ خداوندی اور عبادت کے آداب ہیں یہ سب کو بجا لانے ہونگے اس میں وکالت اور نیابت جاری نہیں ہوسکتی اس لیے کہ ان آداب سے مقصود تعظیم خداوندی ہے اور تعظیم خداوندی سب پر لازم ہے سورة فاتحہ جو کہ ایک عریضۂ نیاز ہے جو صراط مستقیم کی ہدایت کے استدعاء پر مشتمل ہے اور عرض مطلب میں تو تو کیل جاری ہوسکتی ہے کیونکہ عریضہ نیاز سے مقصود یہ ہوتا ہے کہ مقصود اور مراد مخاطب کے سامنے پیش کردیا جائے اور ایک جماعت کی طرف سے عرض و مدعا کے لیے ایک شخص کافی ہے اور وہ امام ہے۔ نکتۂ دیگر : نماز میں قراءت ِ قرآن سے مقصود یا تو احکام خداوندی کا سننا ہے یا مناجات خداوندی مقصود ہے اگر اول مقصود ہے تو امام حق تعالیٰ کی طرف سے خلیفہ ہے کہ وہ احکام خداوندی کو پہنچادے اور اگر مقصود مناجات اور استدعاء نیاز ہے تو امام قوم کی طرف سے وکیل ہے کہ سب مقتدیوں کی طرف سے بارگاہ خداوندی میں استدعا نیاز پیش کر رہا ہے۔ اور ظاہر ہے کہ خلافت اور وکالت کا فریضہ ایک ہی شخص ادا کرسکتا ہے اس لیے قراءت کا فریضہ ایک امام ہی ادا کرے گا اور مقتدی اس کی قراءت پر آمین کہیں گے باقی رہی آداب عبودیت سو وہ سب پر لازم ہونگے۔ مثلاً رکوع اور سجود اور تسبیح وتحمید یہ سب بارگاہ خداوندی اور عبادت کے آداب ہیں یہ سب کو بجالنے ہونگے اس میں وکالت اور نیابت جاری نہیں ہوسکتی اس لیے کہ ان آداب سے مقصود تعظیم خداوندی ہے اور تعظیم خداوندی سب پر لازم ہے سورة فاتحہ جو کہ ایک عریضۂ نیا زہے جو صراط مستقیم کی ہدایت کے استدعاء پر مشتمل ہے اور عرض مطلب میں تو توکیل جاری ہوسکتی ہے کیونکہ عریضہ نیاز سے مقصود یہ ہوتا ہے کہ مقصود اور مراد مخاطب کے سامنے پیش کردیا جائے اور ایک جماعت کی طرف سے عرض مدعا کے لیے ایک شخص کافی ہے اور وہ امام ہے۔ نکتۂ دیگر : نصوص شریعت میں غور وفکر سے یہ نظر آتا ہے کہ نماز جماعت در حقیقت ایک ہی نماز ہے جس کے ساتھ امام موصوف بالذات ہے اور مقتدی موصوف بالعرض ہیں جیسا کہ حدیث الامام ضامن اس پر شاہد ہے کہ امام کی نماز مقتدیوں کی نمازوں کو متضمن اور شامل ہے۔ اسی وجہ سے اگر امام کی نماز فاسد ہوجائے تو مقتدیوں کی بھی نماز فاسد ہوجاتی ہے اور مقتدی کی نماز کے فاسد ہوجانے سے امام کی نماز فاسد نہیں ہوتی امام کا سترہ مقتدیوں کے لیے کافی ہے رکوع و سجود میں مقتدیوں کے لیے امام سے تقدیم وتاخیر ممنوع ہے یہ تمام احکام اس امر کے شاہد ہیں کہ اصل مصلی امام ہے اور مقتدی۔ امام سے مستفیض اور مستفید ہیں۔ اصل عبادت یعنی نماز ایک ہے جس کے ساتھ امام موصوف بالذات ہے اور مقتدی موصوف بالعرض ہیں۔ اور قرآن اور احادیث میں جماعت کی نماز کو ایک ہی نماز قرار دیا گیا ہے۔ کما قال تعالیٰ اذا قاموا الی الصلوۃ قاموا کسالی اور حدیث میں ہے اذا اتیتم الصلاۃ فلا تاتوھا وانتم تسعون۔ سب جگہ لفظ صلاۃ مفرد لایا گیا ہے معلوم ہوا کہ صلاۃ جماعت واحدہ ہے اور مقتدی اس شیئ واحد پر حاضر ہونے والے ہیں۔ پس اگر ہر مقتدی نماز میں اپنی اپنی قراءت کرے تو صلاۃ جماعت صلاۃ واحدہ نہ رہے گی۔ بلکہ صلوت متعددہ فی مکان واحد کا مجموعہ ہوگی۔ یعنی چند آدمیوں نے ایک جگہ جمع ہو کر اپنی اپنی علیحدہ علیحدہ نماز ادا کی ہے۔ نماز جماعت اور تنہا نماز میں درحقیقت کوئی فرق نہ رہا۔ نماز جماعت کا حاصل ومحصول صرف اتنا رہا کہ چند لوگوں نے ایک جگہ جمع ہو کر اپنی نماز ادا کرلی جس کو ذوق سلیم قبول نہیں کرتا۔ صحیح بخاری میں عبداللہ بن عباس سے ولا تجھر بصلاتک ولا تخافت بھا وابتغ بین ذلک سبیلا کی تفسیر اور شان نزول میں مروی ہے کہ آنحضرت ﷺ مکہ میں چھپے ہوئے تھے یعنی پوشیدہ طور پر تبلیغ کرتے تھے تو جب آپ اپنے اصحاب کو نماز پڑھاتے تو بلند آواز سے قراءت قرآن کرتے تو مشرکین قرآن کو سن کر قرآن کو اور نازل کرنے والے سب کو برا کہتے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو یہ حکم دیا کیہ آپ اپنی قراءت میں اتنا جبر نہ کیجئے کہ مشرکین سن کر اس کو برا کہیں اور نہ اتنا آہستہ پڑھیے کہ اپنے ساتھیوں کو بھی نہ سنا سکیں اس کے درمیان کا راستہ اختیار کیجئے یعنی اتنی آواز سے قراءت کریں کہ مقتدی سن سکیں معلوم ہوا کہ امام کا کام مقتدیوں کو سنانے کا ہے اور مقتدیوں کا کام امام کی قراءت سننے کا ہے نہ کہ خود پڑھنے کا۔ حدیث عبادہ ؓ کا جواب امام شافعی کی سب سے قوی اور صحیح دلیل۔ حدیث عبادہ ہے جس کے الفاظ یہ ہیں۔ لا صلاۃ لمن لم یقرا بفاتحۃ الکتاب رواہ البخاری ومسلم۔ جو شخص نماز میں فاتحہ نہ پڑھے اس کی نماز نہیں ہوتی۔ جواب : امام شافعی کے اس استدلال کا امام ابوحنیفہ کی طرف سے جواب یہ ہے کہ اس حدیث میں صراحۃ مقتدی کا کوئی ذکر نہیں محض کلمہ من کے عموم سے استدلال ہے اور سورة اعراف کی یہ آیت واذا قرئ القران فاستمعوا لہ وانصتوا خاص مقتدی کے حق میں نازل ہوئی جن مقتدیوں نے آپ کے پیچھے لاعلمی اور غلط فہمی سے فاتحہ یا سورة پاڑھ لی تھی انہیں کی زجر اور تنبیہ کے لیے یہ آیت نازل ہوئی اور امام شافعی کے نزدیک کتاب اللہ کے عموم کی تخصیص خبر واحد سے جائز ہے تو خبر واحد کے عموم کی تخصیص کتاب اللہ کے خصوص کے ذریعہ بدرجہ اولی جائز ہوگی اور احادیث صحیحہ میں جو خاص مقتدی کے حق میں وارد ہوئیں ان میں سے ایک حدیث مشہور یہ ہے من کان لہ امام فقراءۃ الامام لہ قراءۃ یعنی جو شخص امام کے پیچھے نماز پڑھ رہا ہو تو امام کی قراءت ہی اس کی قراءت ہے مقتدی کو علیحدہ قراءت کی ضرورت نہیں اور یہ حدیث مؤطا امام محمد میں دو سندوں سے مروی ہے ایک سند میں خود امام ابوحنیفہ اس کے راوی ہیں اور حافظ عینی اور شیخ ابن ہمام نے نہایت مفصل طریقہ سے اس حدیث کا شرط بخاری ومسلم پر صحیح ہونا ثابت کردیا ہے جس کو عمدۃ القاری اور فتح القدیر میں دیکھ لیا جائے۔ پس معلوم ہوا کہ حدیث عبادہ مقتدی کے حق میں نہیں بلکہ امام اور منفرد کے حق میں ہے امام ابو داو نے اپنی سنن میں امام شافعی کے استاذ سفیان بن عیینہ سے نقل کیا ہے کہ اس حدیث کے معنی یہ ہیں لمن یصلی وحدہ یعنی یہ حدیث اس شخص کے ھق میں ہے جو اکیلا نماز پڑھتا ہو۔ مقتدی کے حق میں نہیں اور علی ہذا امام ترمذی حضرت جابر سے نقال ہے کہ جو شخص سورة فاتحہ نہ پڑھے اس کی نماز نہ ہوگی مگر یہ کہ وہ امام کے پیچھے ہو۔ امام ترمذی اس حدیث کو نقل کر کے فرماتے ہیں کہ امام احمد بن حنبل (جو امام بخاری کے استاذ ہیں) فرماتے ہیں کہ یہ حدیث مقتدی کے حق میں نہیں بلکہ اس شخص کے حق میں ہے جو خود نماز پڑھ رہا ہو (یادوسروں کو پڑھا رہا ہو) اور امام احمد نے اپنے اس قول پر حدیث جابر سے استدلال کی اور یہ فرمایا کہ دیکھو جابر ایک مرد ہیں اصحاب نبی کریم علیہ الصلاۃ والتسلیم میں سے انہوں نے اس حدیث کا یہ مطلب بیان کیا کہ اگر امام کے پیچھے نماز پڑھ رہا ہو تو سورة فاتحہ پڑھنے کی ضرورت نہیں۔ امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں کہ ہم نے اہل اسلام میں سے کیسی کو یہ کہتے نہیں سنا کہ جب امام قراءت کرتے تو مقتدیوں کی نماز بغیر قراءت صحیح نہ ہوگی۔ چناچہ رسول اللہ ﷺ اور آپ کے سحابہ اور تابعین اور اہل حجاج میں امام مالک اور اہل عراق میں سفیان ثوری اور اہل اشام میں اوزاعی اور اہل مصر میں لیث بن سعد رحمۃ اللہ علیہم اجمعین ان ائمہ دین میں سے کسی نے بھی یہ نہیں کہا کہ جب امام قراءت کر رہا ہو اور مقتدی اس کے پیچھے قراءت نہ کرے تو اس کی نماز باطل ہے (دیکھو مغنی ابن قدامہ ص 606 ج 1) حضرات اہل علم اس مقام کی تحقیق کے لیے فتاوی ابن تیمیہ از ص 141 ج 2 تا ص 150 ج 2 دیکھیں۔ معلوم ہوا کہ جہری نماز میں مقتدی پر قراءت خلف الامام کے وجوب کا صاحبہ اور تابعین اور سلف الصالحین میں سے کوئی قائل نہیں اس لیے امام ترمذی فرماتے ہیں کہ امام شافعی نے قراءت خلف الامام کے بارے میں تشدد کیا کہ مقتدی پر قراءت کو واجب قرار دیا حالانکہ سلف میں سے کوئی بھی اس کا قائل نہیں کہ مقتدی پر قراءت فرض ہے۔ اور حافظ ابن تیمیہ نے نہایت شدومد سے جہری نماز میں قراءت خلف الامام کا ناجائز اور حرام ہونا دلائل عقلیہ اور نقلیہ سے بیان کیا ہے خاص کر اس زمانہ کے مدعیان عمل بالحدیث پر لازم ہے فتاوی ابن تیمیہ کو ضرور دیکھیں کہ جو حنفیہ اور مالکیہ اور حنابطلہ کی نمازوں کے باطل ہونے کا جہرا وسرا فتوی دیتے ہں۔ خلاصۂ کلام : یہ کہ امام ابوحنیفہ (رح) کا مذہب غایت درجہ قوی ہے جو آیات قرآنیہ اور ان احادیث صحیحہ اور صریحہ سے ثابت ہے کہ جو خاص مقتدی کے بارے میں وارد ہوئی ہیں۔ حضرات اہل علم اور مدرسین شروع ہدایہ اور شروح بخاری کی مراجعت کریں اور اس ناچیز کی شرح مشکوہ اور شرح بخاری کو دیکھیں انشاء اللہ ثم انشاء اللہ قلب کو سکون اور اطمینان ہوجائے گا اور ارباب ذوق پر یہ بات واضح ہوجائے گی کہ امام اعظم کا مسلک عین عقل اور فطرت کے مطابق ہے۔ خاتمہ کلام قول حق اور قراءت قرآن زبان متکلم کا فعل ہے اور سننا سامع کے کان کا فعل ہے اور خامش رہنا یہ زبان سامع کا فعل حق تعالیٰ نے اس آیت میں یہ تینوں مسئلے بیان فرمائے واذا قرئ القران زبان متکلم کے متعلق ہے اور فاستمعوا سامع کے کان کے متعلق ہے اور وانصتوا زبان سامع کے متعلق ہے جیسا کہ عارف رومی فرماتے ہیں۔ تو چو گوشی او زباں نے جنس تو : گوش ہا راحق بفرمود انصتوا انصتوا را گوش کن خاموش باش : چو زبان حق نگشتی گوش باش انصتوا بپذیر تا برجان تو : آید از جاناں جزائے انصتوا : (ای لعلکم ترحمون) یعنی رحمت خاص خداوندی جزائے انصات واستماع است بر منازعت مخالجت یا امام ایں نعمت رحمت میسر نیاید اذ افادات الشر فات اللشروط لہذا حکم استماع وانصات را بدل وجان قبول باید کرد واز منازعت ومخالجت امام احتراز کلی باید واللہ اعلم باالسلام۔
Top