Tafseer-e-Madani - An-Nahl : 32
الَّذِیْنَ تَتَوَفّٰىهُمُ الْمَلٰٓئِكَةُ طَیِّبِیْنَ١ۙ یَقُوْلُوْنَ سَلٰمٌ عَلَیْكُمُ١ۙ ادْخُلُوا الْجَنَّةَ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ
الَّذِيْنَ : وہ جو کہ تَتَوَفّٰىهُمُ : ان کی جان نکالتے ہیں الْمَلٰٓئِكَةُ : فرشتے طَيِّبِيْنَ : پاک ہوتے ہیں يَقُوْلُوْنَ : وہ کہتے ہیں سَلٰمٌ : سلامتی عَلَيْكُمُ : تم پر ادْخُلُوا : تم داخل ہو الْجَنَّةَ : جنت بِمَا : اس کے بدلے جو كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے تھے (اعمال)
جن کی فرشتے جان قبض کرتے ہیں اس حال میں کہ وہ پاکیزہ ہوتے ہیں (اپنے عقیدہ و عمل کے اعتبار سے) ، فرشتے ان سے کہیں گے کہ سلامتی ہو تم پر، داخل ہوجاؤ تم اس جنت میں، اپنے ان اعمال کے بدلے میں جو تم (زندگی بھر) کرتے رہے تھے،3
64۔ حسن انجام اور خاتمہ بالخیر کی اہمیت : سو اس سے معلوم ہوا کہ اصل اعتبار خاتمے کا ہے۔ خاتمہ اگر بالخیر نصیب ہوگیا تو سب کام بن گیا نہیں تو کچھ بھی نہیں۔ والعیاذ باللہ فایاک نسال اللہم حسن الختام بمحض منک وکرمک یا ارحم الراحمین۔ سو ایسے خوش نصیب حضرات جن کے باطن ایمان و یقین کے نور سے منور ہوں گے اور جو پاکیزہ ہوں گے۔ اپنے عقائد اور اخلاق کے اعتبار سے بھی۔ اور اپنے اقوال و افعال کے لحاظ سے بھی اسی پر انہوں نے زندگی گزاری ہوگی اور اسی پر ان کو موت آئی ہوگی اور وہ حسن انجام اور خاتمہ بالخیر کے شرف سے مشرف ہوئے ہوں گے ان کو فرشتے سلام کریں گے اور جنت میں داخلے کی بشارت سے سرفراز کریں گے۔ (المراغی وغیرہ) سو اس سے خاتمہ بالخیر کی عظمت و اہمیت واضح ہوجاتی ہے، اور یہ کہ ایسے لوگ کتنے خوش نصیب ہوں گے، اللہ ہمیں انہیں میں سے کرے۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین۔ 65۔ متقیوں کے لیے جنت میں داخلے کا حکم وارشاد : سو ارشاد فرمایا گیا کہ ان خوش نصیبوں سے کہا جائیگا کہ داخل ہوجاؤ تم جنت میں اپنے ان اعمال کے بدلے جو تم کرتے رہے تھے اپنی دنیاوی زندگی میں۔ اور یہ بھی اس اکرم الاکرمین کے کرم بےپایاں کا ایک نمونہ ومظہر ہے کہ وہ جنت کی ان عظیم الشان اور لامحدود نعمتوں کو اہل جنت کے اعمال کا بدلہ قرار دے رہا ہے جو کہ بہرحال ناقص بھی ہیں اور محدود بھی، اسی لئے حضور ﷺ فرماتے ہیں کہ تم میں سے کوئی بھی اپنے اعمال کے بل بوتے پر جنت میں داخل نہیں ہوسکے گا یہاں تک کہ خود میں بھی نہیں جاسکوں گا جب تک کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت مجھے اپنی آغوش میں نہ لے لے۔ پھر کسی اور کے اپنے اعمال کے بدلے میں جنت حاصل کرلینے کا سوال ہی کیا پیدا ہوسکتا ہے ؟ البتہ یہ بات ضرور ہے کہ اللہ پاک کا اپنے بندوں پر یہ فضل وکرم چونکہ ان کے اعمال صالحہ کی بناء پر ہی ہوگا اس لیے ان کے یہ اعمال دخول جنت کا سبب اور باعث تو قرار دیے جاسکتے ہیں لیکن جنت اور اس کی لازوال نعمتوں کو ان کا عوض اور بدلہ نہیں قرار دیا جاسکتا۔ مگر یہ اس اکرم الاکرمین کا کرم اور احسان ہے کہ وہ اس کے باوجود جنت اور اس کی نعمتوں کو اہل جنت کے اعمال کا بدلہ قرار دے رہا ہے فللہ الحمد رب العالمین بہرکیف ان خوش نصیبوں کو فرشتے جنت کی خوشخبری سے نوازیں گے کہ اب تک تو بزرخ میں جنت کی نعمتوں سے متمتع و مستفید ہوتے رہے۔ یہاں تک کہ اب قیام قیامت پر تم جنت میں داخل ہوجاؤ اور یا اس کا مطلب یہ ہے کہ تمہارے لیے یہ خوشخبری ہے کہ جب قیامت قائم ہوگی اس وقت تمہارا جنت میں داخل ہونا مقدر ہوچکا ہے۔ (محاسن التاویل وغیرہ)
Top