Tafseer-e-Majidi - An-Nahl : 32
الَّذِیْنَ تَتَوَفّٰىهُمُ الْمَلٰٓئِكَةُ طَیِّبِیْنَ١ۙ یَقُوْلُوْنَ سَلٰمٌ عَلَیْكُمُ١ۙ ادْخُلُوا الْجَنَّةَ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ
الَّذِيْنَ : وہ جو کہ تَتَوَفّٰىهُمُ : ان کی جان نکالتے ہیں الْمَلٰٓئِكَةُ : فرشتے طَيِّبِيْنَ : پاک ہوتے ہیں يَقُوْلُوْنَ : وہ کہتے ہیں سَلٰمٌ : سلامتی عَلَيْكُمُ : تم پر ادْخُلُوا : تم داخل ہو الْجَنَّةَ : جنت بِمَا : اس کے بدلے جو كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے تھے (اعمال)
یعنی وہ لوگ) جن کی روحین فرشتے قبض کرتے ہیں اس حال میں کہ وہ پاک ہوتے ہیں،45۔ (فرشتے) کہتے جاتے ہیں تم پر سلام ہو تم جنت میں داخل ہوجاؤ اپنے اعمال کے سبب سے،46۔
45۔ (ہر کفر وشرک کی آلودگی سے) معناہ علی ماروی عن ابی معاذ ظاھرین من دنس الشرک وھو المناسب لجعلہ فی مقابلۃ ظالمی انفسھم (روح) قال ابومعاذ طاھرین من الشرک بالکلمۃ الطیبۃ (بحر) طاھرین من ظلم انفسھم بالکفر (مدارک) یعنی یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو آخر وقت تک توحید و ایمان پر قائم رہتے ہیں۔ یہاں ٹھیک ان طبقات کا مقابلہ ہورہا ہے، جن کا ذکر آیت نمبر 28 میں آچکا ہے کہ فرشتے ان کی جانیں سختی اور عذاب سے نکال رہے ہوں گے۔ (آیت) ” طیبین “۔ جو لوگ کفر وشرک، فسق وفجور کی آلودگیوں سے پاک ہیں، ان کی روحیں صحیح معرفت و محبت الہی سے معمور رہتی ہیں اور یہ قدرۃ اپنی جانیں بڑے سروروشوق کے ساتھ جاں آفرین کو سپرد کرتے ہیں۔ 46۔ فرشتوں کا زبان سے یہ کہتے جانا ظاہر ہے کہ مومینن کی تعظیم واکرام کے لیے ہوگا، (آیت) ” یقولون سلم علیکم، ادخلوا الجنۃ “۔ محققین کا بیان ہے کہ منامی، رؤیائی یا روحانی حیثیت سے تو مومن وفات پاتے ہی جنت میں داخل ہوجاتا ہے۔ (خود برزخ جس عالم کا نام ہے، وہ آخرت ہی کی ایک ہلکی منامنی، رؤیائی شکل ہے) البتہ پوری طرح مادی اور جسمانی طور پر قیامت کے بعد جنت میں داخل ہوگا۔ وھو وقت قبض ارواحھم قالہ ابن مسعود ومحمد بن کعب و مجاھد والاکفرون جعلوا التبشیر بالجنۃ دخولا مجازا (بحر) (آیت) ” بما کنتم تعملون “۔ یعنی جنت میں یہ آپ کی باریابی آپ ہی آپ یا کسی کے طفیل میں یا کسی کے احسان سے نہیں ہورہی ہے، بلکہ خود آپ ہی کے حسن عمل وشیوۂ طاعت کا ثمرہ ہے یہ کہہ کہہ کر مومنین اہل جنت کے دل کو اور زیادہ مسرور کیا جائے گا۔ اس تصریح اور ان نصوص کے درمیان، جن میں کہ کہا گیا ہے کہ جنت تو صرف افضال الہی سے ملے گی، کوئی تعارض وتناقض نہیں۔ سبب حقیقی تو بیشک وہی رحمت الہی ہی ہے، لیکن سبب قریب وسبب عادی ان لوگوں کا حسن عمل ہے۔
Top