Tafheem-ul-Quran - An-Nisaa : 149
اِنْ تُبْدُوْا خَیْرًا اَوْ تُخْفُوْهُ اَوْ تَعْفُوْا عَنْ سُوْٓءٍ فَاِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَفُوًّا قَدِیْرًا
اِنْ تُبْدُوْا : اگر تم کھلم کھلا کرو خَيْرًا : کوئی بھلائی اَوْ تُخْفُوْهُ : یا اسے چھپاؤ اَوْ تَعْفُوْا : یا معاف کردو عَنْ : سے سُوْٓءٍ : برائی فَاِنَّ : تو بیشک اللّٰهَ : اللہ كَانَ : ہے عَفُوًّا : معاف کرنیوالا قَدِيْرًا : قدرت والا
(مظلوم ہونے کی صورت میں اگر چہ تم کو بد گوئی کا حق ہے ) لیکن اگر تم ظاہر و باطن میں بھلائی ہی کیے جاؤ، یا کم از کم بُرائی سے درگزر کرو، تو اللہ کی صفت بھی یہی ہے کہ وہ بڑا معاف کرنے والا ہے حالانکہ سزا دینے پر پوری قدرت رکھتا ہے۔177
سورة النِّسَآء 177 اس آیت میں مسلمانوں کو ایک نہایت بلند درجہ کی اخلاقی تعلیم دی گئی ہے۔ منافق اور یہودی اور بت پرست سب کے سب اس وقت ہر ممکن طریقہ سے اسلام کی راہ میں روڑے اٹکانے اور اس کی پیروی قبول کرنے والوں کو ستانے اور پریشان کرنے پر تلے ہوئے تھے۔ کوئی بدتر سے بدتر تدبیر ایسی نہ تھی جو وہ اس نئی تحریک کے خلاف استعمال نہ کر رہے ہوں۔ اس پر مسلمانوں کے اندر نفرت اور غصہ کے جذبات کا پیدا ہونا ایک فطری امر تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں اس قسم کے جذبات کا طوفان اٹھتے دیکھ کر فرمایا کہ بدگوئی پر زبان کھولنا تمہارے خدا کے نزدیک کوئی پسندیدہ کام نہیں ہے۔ اس میں شک نہیں کہ تم مظلوم ہو اور اگر مظلوم ظالم کے خلاف بد گوئی پر زبان کھولے تو اسے حق پہنچتا ہے۔ لیکن پھر بھی افضل یہی ہے کہ خفیہ ہو یا علانیہ ہر حال میں بھلائی کیے جاؤ اور برائیوں سے درگزر کرو، کیونکہ تم کو اپنے اخلاق میں خدا کے اخلاق سے قریب تر ہونا چاہیے۔ جس خدا کا قرب تم چاہتے ہو اس کی شان یہ ہے کہ نہایت حلیم اور بردبار ہے، سخت سے سخت مجرموں تک کو رزق دیتا ہے اور بڑے سے بڑے قصوروں پر بھی در گزر کیے چلا جاتا ہے۔ لہٰذا اس سے قریب تر ہونے کے لیے تم بھی عالی حوصلہ اور وسیع الظرف بنو۔
Top