Tafseer-e-Madani - Al-Muminoon : 80
وَ هُوَ الَّذِیْ یُحْیٖ وَ یُمِیْتُ وَ لَهُ اخْتِلَافُ الَّیْلِ وَ النَّهَارِ١ؕ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ
وَهُوَ : اور وہ الَّذِيْ : وہی جو يُحْيٖ : زندہ کرتا ہے وَيُمِيْتُ : اور مارتا ہے وَ لَهُ : اور اسی کے لیے اخْتِلَافُ : آنا جانا الَّيْلِ : رات وَالنَّهَارِ : اور دن اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ : کیا پس تم سمجھتے نہیں
اور وہ وہی ہے جو زندگی بخشتا اور موت دیتا ہے اور اسی کے قبضہ قدرت میں ہے رات اور دن کا ادلنا بدلنا تو کیا تم لوگ عقل سے کام نہیں لیتے ؟
100 زندگی بخشنا اللہ ہی کا کام اور اسی کی شان ہے : سو ارشاد فرمایا گیا کہ وہی زندگی بخشتا ہے۔ جو اس دنیا کی ایک عظیم الشان نعمت بلکہ سب نعمتوں کی اساس و بنیاد ہے۔ سو احیاء واماتت ۔ زندگی بخشنے اور موت دینے کی ۔ یہ صفت اسی وحدہ لاشریک کی صفت ہے۔ اس میں کسی بھی اور ہستی کو حصہ دار ماننا شرک ہوگا جو کہ ظلم عظیم ہے۔ جیسا کہ بعض جاہل لوگوں کا کہنا ہوتا ہے کہ فلاں بزرگ یا پیر صاحب نے فلاں شخص کو یا اس کی کسی گائے بھینس وغیرہ کو مار دیا وغیرہ ۔ والعیاذ باللہ ۔ سو مارنا اور جلانا اللہ پاک ہی کی صفت و شان ہے۔ وہ جس کو چاہے زندگی بخشے اور جب تک چاہے زندہ رکھے۔ اور جب چاہے موت طاری کر دے کہ یہ سب کچھ اسی کے قبضہ قدرت و اختیار میں اور اسی کے علم و حکمت پر مبنی ہے۔ اس میں کسی بھی اعتبار سے اور کسی بھی درجے میں نہ کوئی اس کا شریک وسہیم ہے نہ ہوسکتا ہے ۔ سبحانہ وتعالیٰ - 101 اور موت بھی اللہ تعالیٰ ہی کے اختیار میں ہے ۔ سبحانہ وتعالیٰ : سو ارشاد فرمایا گیا کہ وہی موت دیتا ہے اور اسی کا کام ہے موت دینا۔ جو آخرت کی دائمی اور سدا بہار نعمتوں سے سرفرازی کا ذریعہ و سبب ہے۔ اسی لئے کہا جاتا ہے ۔ " الَمَوْتُ جَسْرٌ یُّوْصِلُ الَحَبِیْبَ الی الْحَبَیْبِ " ۔ یعنی موت ایک ایسا پل ہے جو دوست کو دوست سے ملاتا ہے۔ سو احیاء واماتت یعنی زندگی اور موت دینا اسی وحدہ لاشریک کا کام اور اسی کی شان ہے۔ جسکو وہ زندگی بخشنا چاہے اس کو کوئی نہیں مار سکتا۔ اور جس کو وہ موت دینا چاہے اس کو کوئی زندہ نہیں رکھ سکتا۔ اور احیاء واماتت کا یہ پراسرار سلسلہ آج بھی جاری ہے اور برابر جاری ہے۔ ذرا دیکھو تو سہی کس طرح بےجان مٹی سے قسما قسم کی پیداواریں نکلتی ہیں۔ جن سے آگے انسان طرح طرح سے مستفید و فیضیاب ہوتا ہے اور ان کو کھاتا اور استعمال کرتا ہے۔ اور ان سے آگے نہایت ہی پر حکمت طریقے سے خون بنتا ہے اور اس سے مادئہ تولید بنتا ہے۔ اور اس سے آگے قسما قسم کی زندہ اور جاندار مخلوق وجود میں آتی ہے۔ اور اس کے علاوہ بھی اس کائنات میں زندگی و موت کا سلسلہ لگاتار اور پیہم جاری وساری رہتا ہے جس میں کسی بھی انسان کا کوئی عمل دخل نہیں۔ جس سے ایک طرف تو یہ عظیم الشان حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ احیاء و اماتت یعنی زندگی بخشنے اور موت دینے کا یہ سارا سلسلہ اللہ وحدہ لا شریک ہی کے قبضہ قدرت و اختیار میں ہے۔ اس میں اور کسی کا بھی کوئی عمل دخل نہیں۔ اور دوسری طرف اس سے یہ حقیقت بھی آشکارا ہوجاتی ہے کہ یہ پوری کائنات ہر وقت اللہ تعالیٰ کے حکم وتصرف میں ہے اور اس کا حکم و تصرف اس میں ہر لحظہ اور ہر لمحہ جاری رہتا ہے ۔ سبحانہ وتعالیٰ - 102 عقل سے صحیح کام لینے کی دعوت و ترغیب : سو ارشاد فرمایا گیا اور تحریض و ترغیب کے لیے بطور استفہام ارشاد فرمایا گیا " کیا تم لوگ پھر بھی عقل سے کام نہیں لیتے ؟ "۔ کہ اللہ تعالیٰ کی بخشی ہوئی ان عظیم الشان نعمتوں اور اس کی قدرتوں کے ذریعے تم اپنے خالق ومالک کی معرفت اور اس کی رضا حاصل کرسکو ؟ اور اس طرح تم نور حق و ہدایت سے سرفراز و بہرہ ور ہوسکو۔ سو تم لوگ اگر صحیح طور پر ان چیزوں میں غور وفکر سے کام لو تو تمہیں طرح طرح کے سامانہائے عبرت و بصیرت سے سرفرازی نصیب ہو۔ مثلاً یہ کہ یہ تمام چیزیں اپنے اس خالق ومالک کے وجود باجود کا پتہ دے رہی ہیں جس نے ان کو ان کا وجود بخشا ہے۔ نیز یہ کہ ان سے اس کی قدرت مطلقہ، حکمت بالغہ اور رحمت شاملہ کا پتہ چلتا ہے۔ نیز یہ کہ یہ تمام چیزیں باہم مختلف اور متضاد ہونے کے باوجود انسان کے بھلے اور اس کی خدمت میں لگی ہوئی ہیں۔ جس سے یہ امر واضح ہوجاتا ہے کہ ان سب میں ایک ہی ارادہ و تصرف کارفرما ہے۔ سو اس اعتبار سے یہ توحید کی ایک اہم دلیل ہے۔ نیز اس سے یہ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ حضرت حق ۔ جل مجدہ ۔ کا حکم و تصرف اس کائنات میں ہر لحظہ اور مسلسل و لگاتار جاری ہے ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ یہ نہیں کہ اس کو بنا کر وہ اس سے علیحدہ ہوگیا۔ جیسا کہ کچھ ٹیڑھی کھوپڑی والوں کا کہنا اور ماننا ہے۔ بلکہ اس میں حکومت و کارفرمائی بھی اسی وحدہ لا شریک کی چلتی ہے ۔ سبحانہ وتعالیٰ -
Top