Tafseer-e-Madani - Aal-i-Imraan : 70
یٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ لِمَ تَكْفُرُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰهِ وَ اَنْتُمْ تَشْهَدُوْنَ
يٰٓاَھْلَ الْكِتٰبِ :اے اہل کتاب لِمَ : کیوں تَكْفُرُوْنَ : تم انکار کرتے ہو بِاٰيٰتِ : آیتوں کا اللّٰهِ : اللہ وَاَنْتُمْ : حالانکہ تم تَشْهَدُوْنَ : گواہ ہو
اے کتاب والو، تم کیوں کفر (اور انکار) کرتے ہو اللہ کی آیتوں کا، حالانکہ تم خود گواہ ہو،
144 انکار حق کے ایک بڑے سنگین پہلو کا ذکر : سو اہل کتاب کو خطاب کر کے ارشاد فرمایا گیا کہ تم لوگ کیوں حق کا انکار کرتے ہو جبکہ تم خود اس کے گواہ ہو۔ سو حق کا گواہ ہونے کے باوجود اس کا انکار کرنا بڑا ہی سنگین اور ہولناک جرم ہے۔ والعیاذ باللہ ۔ سو اہل کتاب کے ضمیروں کو جھنجھوڑتے ہوئے اور ان کے قلوب و ضمائر پر دستک دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کیا کہ تم لوگ کیوں کفر و انکار کرتے ہو اللہ کی آیتوں کے ساتھ جبکہ تم لوگ خود گواہ ہو اس بات کے کہ یہ آیتیں حق اور سچ ہیں۔ ان آیتوں سے مراد یا تو تورات و انجیل کی وہ آیتیں ہیں جو نبی آخرالزمان حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی بعثت و تشریف آوری، اور صداقت و حقانیت سے متعلق تھیں۔ یا ان آیات سے مراد قرآن حکیم کی وہ آیات بینات ہیں، جو کہ اپنی صداقت و حقانیت اور کلام الہٰی ہونے کی خود دلیل ہیں۔ نیز ان آیات سے مراد وہ مختلف معجزات بھی ہوسکتے ہیں، جن سے اللہ پاک نے اپنے نبیٔ آخرالزمان (علیہ الصلوۃ والسلام) کو نوازا تھا۔ اور جو آپ ﷺ کی صداقت و حقانیت کو واضح کرتی ہیں۔ آیات اللہ کے لفظ کا عموم ان تینوں مفہوموں کو عام اور شامل ہے۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ تم لوگ اللہ کی ان آیتوں کا انکار کس طرح کرتے ہو جو کہ حق و ہدایت کو پوری طرح واضح کرنے والی ہیں۔ اور جن کے بارے میں خود تمہارے دل یہ گواہی دے رہے ہیں کہ یہ اللہ کی آیتیں ہیں اور خاص کر جب کہ اللہ تعالیٰ تم سے ان کی تائید و تصدیق اور خلق خدا کے سامنے ان کی گواہی کا تم سے عہد کرچکا ہے۔ اور تم اس کے حضور اس ذمہ داری کے اٹھانے اور ادا کرنے کا اقرار کرچکے ہو۔ جیسا کہ سورة آل عمران کی آیت نمبر 89 میں اس کی تصریح اور تفصیل موجود ہے۔ سو حق کی گواہی کا حامل اور اس کا ذمہ دار بن کر اس کے تقاضوں کی خلاف ورزی کرنا بڑا ہی سنگین جرم ہے مگر یہود بےبہبود نے اس ہولناک جرم کا ارتکاب کیا اور دھڑلے سے کیا ۔ والعیاذ باللہ العظیم -
Top