Ruh-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 70
یٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ لِمَ تَكْفُرُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰهِ وَ اَنْتُمْ تَشْهَدُوْنَ
يٰٓاَھْلَ الْكِتٰبِ :اے اہل کتاب لِمَ : کیوں تَكْفُرُوْنَ : تم انکار کرتے ہو بِاٰيٰتِ : آیتوں کا اللّٰهِ : اللہ وَاَنْتُمْ : حالانکہ تم تَشْهَدُوْنَ : گواہ ہو
اے اہل کتاب ! کیونکر انکار کرتے ہو اللہ کی آیتوں کا ؟ حالانکہ تم گواہ ہو
یٰٓاَہْلَ الْـکِتٰبِ لِمَ تَـکْفُرُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ وَاَنْتُمْ تَشْہَدُوْنَ ۔ یٰٓاَہْلَ الْـکِتٰبِ لِمَ تَلْبِسُوْنَ الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَتَـکْتُمُوْنَ الْحَقَّ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ ۔ ع (اے اہل کتاب ! کیونکر انکار کرتے ہو اللہ کی آیتوں کا ؟ حالانکہ تم گواہ ہو۔ اے اہل کتاب ! کیوں ملاتے ہو حق کو باطل کے ساتھ اور حق کو چھپاتے ہو ؟ حالانکہ تم جانتے ہو) (70 تا 71) ان دونوں آیتوں میں اہل کتاب سے خطاب ہے۔ بظاہر تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ انھیں ملامت بھی کی جا رہی ہے اور اظہارِ افسوس بھی کیا جا رہا ہے، لیکن ساتھ ہی ساتھ ایسا لگتا ہے کہ آخری فیصلہ بھی سنایا جا رہا ہے۔ جسے اتمامِ حجت بھی کہا جاسکتا ہے اور بدنصیبی کی انتہا بھی۔ پہلی آیت میں یہ فرمایا کہ اے اہل کتاب تم اللہ کی آیات سے کفر کیوں کرتے ہو ؟ حالانکہ اہل کتاب ہونے کی وجہ سے تم قرآن کریم کے مزاج آشنا ہو ؟ تمہیں خوب اندازہ ہے کہ وہ اللہ کی کتاب ہے۔ پھر وہ ان تمام باتوں کا مصداق بن کر آئی ہے جس کا ذکر تمہاری کتابوں میں ہے اور ساتھ ہی یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ تمہارے دل گواہی دیتے ہیں کہ یہ اللہ کی کتاب کی آیات ہیں، جنھیں جھٹلایا نہیں جاسکتا اور اس سے بھی بڑی حقیقت یہ ہے کہ تمہاری کتابوں میں تمہارے انبیاء کے ذریعے تم سے آخری نبی اور آخری کتاب کی آیات اور احکام کی شہادت دینے کا عہد لیا جا چکا ہے اور تم اس کا اقرار کرچکے ہو۔ چناچہ اسی سورة آل عمران میں آیت نمبر 89 میں اس کا ذکر موجود ہے۔ تفصیل سے بات تو وہاں ہوگی یہاں صرف اس کا ترجمہ نقل کیے دیتے ہیں۔ اور یاد کرو جب کہ اللہ نے تم سے نبیوں کے بارے میں میثاق لیا کہ چونکہ میں نے تم کو کتاب و حکمت عطا فرمائی ہے تو جب آئے تمہارے پاس ایک رسول سچی ثابت کرتا ہوا ان پیشین گوئیوں کو جو تمہارے پاس موجود ہیں تو تم اس پر ایمان لائو گے اور اس کی مدد کرو گے۔ پوچھا کیا تم نے اس کا اقرار کیا اور اس پر میری طرف سے تم نے ذمہ داری اٹھائی ؟ بولے ہم نے اقرار کیا تو فرمایا اس پر گواہ رہنا اور میں بھی تمہارے ساتھ اس کے گواہوں میں سے ہوں۔ اندازہ فرمایئے ! اہل کتاب کو پہلے سے آنحضرت ﷺ پر ایمان لانے کا پابند کیا گیا تھا۔ انھوں نے نہ صرف ایمان لانا تھا بلکہ باقاعدہ خلق خدا کے سامنے ان کی سچائی کی گواہی بھی دینا تھی۔ لیکن عجیب بات ہے کہ جب قومیں تنزل کا شکار ہوتی ہیں تو وہ پستی میں ڈوبتی چلی جاتی ہیں۔ کہاں تو ان کا یہ منصب کہ وہ حق کی گواہی دیں اور کہاں ان کا یہ طرز عمل جس کا ذکر دوسری آیت کریمہ میں کیا گیا ہے کہ ” تم کیوں حق کو باطل سے گڈ مڈ کرتے ہو ؟ اور تم جانتے ہو کہ تم ایسی خیانتوں کا ارتکاب کرچکے ہو اور اس کی مثالیں سورة بقرہ میں گزر چکی ہیں کہ حضرت ابراہیم، حضرت اسماعیل (علیہ السلام) اور تعمیرِ بیت اللہ سے متعلق جو کچھ تورات میں کہا گیا تھا اس کی ایک ایک چیز تحریف کی نذر کردی گئی۔ صفا اور مروہ کے تلفظ سے لے کر محل وقوع تک خیانت کی وہ مثالیں قائم کی ہیں جسے دیکھ کر آدمی حیران رہ جاتا ہے۔ یہاں صرف اس کی یاددہانی فرما کر شرم دلائی گئی ہے شاید اس طرح کچھ دلوں میں ہدایت کا راستہ پیدا ہوجائے۔
Top