Tafseer-e-Madani - Aal-i-Imraan : 69
وَدَّتْ طَّآئِفَةٌ مِّنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ لَوْ یُضِلُّوْنَكُمْ١ؕ وَ مَا یُضِلُّوْنَ اِلَّاۤ اَنْفُسَهُمْ وَ مَا یَشْعُرُوْنَ
وَدَّتْ : چاہتی ہے طَّآئِفَةٌ : ایک جماعت مِّنْ : سے (کی) اَھْلِ الْكِتٰبِ : اہل کتاب لَوْ : کاش يُضِلُّوْنَكُمْ : وہ گمراہ کردیں تمہیں وَمَا : اور نہیں يُضِلُّوْنَ : وہ گمراہ کرتے اِلَّآ : مگر اَنْفُسَھُمْ : اپنے آپ وَمَا يَشْعُرُوْنَ : اور وہ نہیں سمجھتے
اہل کتاب کا ایک گروہ (حق سے اپنے شدید بغض وعناد کی بناء پر) چاہتا ہے کہ وہ کسی طرح تم کو بھی گمراہ کر دے، لیکن (حقیقت میں) وہ کسی کو گمراہ نہیں کرتے سوائے اپنے آپ کے، مگر یہ لوگ اس کا شعور نہیں رکھتے،
142 اہل کتاب کے ایک گروہ کی دین دشمنی کا ایک مظہر : کہ یہ لوگ حق کو قبول کرنے کی بجائے الٹا یہ چاہتے ہیں کہ تم لوگوں کو بھی دین سے پھیر دیں۔ سو اس سے واضح فرمایا گیا کہ اہل کتاب کا ایک گروہ اہل ایمان کو گمراہ کرنے اور ان کو راہ حق سے پھیرنے کی خواہش و چاہت رکھتا ہے۔ والعیاذ باللہ ۔ سو یہ لوگ ایسا اس لیے چاہتے ہیں تاکہ حق و ہدایت کے نور سے جس طرح یہ لوگ محروم ہیں اسی طرح تم بھی محروم ہوجاؤ۔ اور پھر تم سب ایک برابر ہوجاؤ ۔ والعیاذ باللہ ۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا { وَدُّوْا لَوْ تَکْفُرُوْنَ کَمَا کَفَرُوْا فَتَکُوْنُوْنَ سَوَٓائً } الایۃ (النسا۔ 89) ۔ سو محروم اور ہٹ دھرم انسان کی یہ بھی ایک عمومی نفسیات رہی ہے اور ہمیشہ کی طرح آج بھی موجود ہے کہ وہ چاہتا ہے کہ جس طرح وہ کسی خیر سے محروم ہوتا ہے اسی طرح دوسرے بھی محروم ہوجائیں۔ اور اس طرح وہ حرمان نصیبی میں سب ایک برابر ہوجائیں ۔ الا ماشاء اللہ ۔ بہر کیف اس ارشاد سے ان لوگوں کی دشمنی اور ان کی بدباطنی سے اہل ایمان کو آگاہ فرما دیا گیا تاکہ وہ ان سے محتاط اور چوکنے رہیں لیکن افسوس کہ آج مسلمانوں کی ایک بڑی اکثریت قرآن حکیم کی اس ہدایت سے غافل و بےبہرہ اپنے ایسے دشمنوں کی طرف دوستی اور محبت و مودت کی پینگیں بڑھا رہی ہے۔ خاص کر مسلمانوں کا حکمران طبقہ ۔ الا ماشاء اللہ ۔ فَاِلَی اللّٰہ الْمُشْتَکٰی وَہَُوَالْمُسْتَعَان - ِ 143 اپنی گمراہی کا سامان خود اپنے ہاتھوں ۔ والعیاذ باللہ : سو ارشاد فرمایا گیا کہ یہ لوگ گمراہ نہیں کرتے مگر خود اپنے آپ کو۔ سو دوسروں کو گمراہ کرنا دراصل خود اپنی گمراہی کو پکا کرنا اور اپنی گمراہی کا سامان خود کرنا ہے۔ والعیاذ باللہ ۔ کہ اس طرح ایسے لوگ اپنے ضلال سابق کے ساتھ اضلال کا بوجھ بھی اپنے اوپرڈال رہے ہیں۔ اور اس طرح وہ اپنے جرم و گناہ میں مزید اضافہ کر رہے ہیں، مگر ان کو اس کا شعور و احساس ہی نہیں کہ اس طرح ہم اپنے ہی خسران و نقصان میں اضافہ کررہے ہیں اور کتنا سنگین اور کس قدر ہولناک اضافہ کر رہے ہیں ۔ وَالْعِیَاذ باللّٰہ الْعَزِیْز الرَّحْمٰن ۔ سو اس طرح ایسے لوگ اپنی محرومی اور بدبختی کے ٹھپے کو اور پکا کرتے ہیں کہ جو کوئی دیدہ دانستہ اپنی گمراہی کو ہدایت ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے وہ سب سے پہلے خود اپنے آپ ہی کو گمراہی میں مبتلا کرتا ہے، لیکن دوسرے کی مخالفت کے جوش میں اس کو اپنے اس نقصان کا احساس نہیں ہوتا ۔ والعیاذ باللہ العظیم -
Top