Tafseer-e-Madani - Al-Ghaafir : 83
فَلَمَّا جَآءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَیِّنٰتِ فَرِحُوْا بِمَا عِنْدَهُمْ مِّنَ الْعِلْمِ وَ حَاقَ بِهِمْ مَّا كَانُوْا بِهٖ یَسْتَهْزِءُوْنَ
فَلَمَّا : پھر جب جَآءَتْهُمْ : ان کے پاس آئے رُسُلُهُمْ : ان کے رسول بِالْبَيِّنٰتِ : کھلی نشانیوں کیساتھ فَرِحُوْا : خوش ہوئے (اترانے لگے) بِمَا : اس پر جو عِنْدَهُمْ : ان کے پاس مِّنَ الْعِلْمِ : علم سے وَحَاقَ بِهِمْ : اور گھیر لیا انہیں مَّا كَانُوْا : جو وہ کرتے تھے بِهٖ يَسْتَهْزِءُوْنَ : اس کا مذاق اڑاتے
چناچہ جب ان کے پاس ان کے رسول (حق و صداقت کے) کھلے دلائل لے کر آئے تو یہ (اس سے لاپرواہ ہو کر مست و) مگن رہے اپنے اس علم (و فن) کی بناء پر جو کہ ان کے پاس تھا اور (آخرکار) ان کو گھیر لیا اسی چیز نے جس کا یہ مذاق اڑاتے رہے تھے1
155 حضرات انبیاء و رسل کی تکذیب باعث ہلاکت و تباہی : سو اس ارشاد سے واضح فرما دیا گیا کہ اپنے موروثی اور خودساختہ علم و فن کی بنا پر وحی الہی اور دین سماوی سے منہ موڑنا محرومیوں کی محرومی ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ ان لوگوں کے پاس اس نام نہاد علم کی دو صورتیں تھیں اور ہیں۔ یعنی پہلے بھی یہی تھا اور آج بھی یہی ہے۔ ایک تو رسم و رواج اور آبائی تقلید کی خرافات کا وہ انبار جسے وہ علم کہتے اور دین اور نیکی سمجھتے تھے۔ اور اس کے خلاف حق و صداقت کی کوئی بات سننے کو تیار نہ ہوتے تھے۔ جیسا کہ دور حاضر میں جاہل پیروں اور گمراہ ملاؤں کی ماری ہوئی قوم کا حال ہے کہ ہمارے بڑے یوں کرتے آئے۔ لہذا ہم بھی ایسے ہی کرتے جائیں گے اور کرتے رہیں گے۔ قطع نظر اس سے کہ صحیح کیا ہے اور غلط کیا۔ حق کیا ہے اور باطل کیا۔ اور دوسرا دنیاوی امور سے متعلق ان لوگوں کا وہ علم جو کہ انسانی عقل و فکر، کدوکاش اور تجربات کی پیدوار ہوتا ہے اور جس کا تعلق دنیا اور دنیاوی اشیاء کے محض ظاہری پہلو اور اس کی مادی جانب سے ہے۔ سو اپنے پاس کے انہی دو ناقص اور خود ساختہ علموں کی بنا پر ان لوگوں نے وحی الہٰی کی مقدس روشنی سے منہ موڑ لیا۔ اور اس طرح وہ طرح طرح کی گمراہیوں کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں ڈوب کر رہ گئے ۔ والعیاذ باللہ ۔ جیسا کہ آج کل کے بہت سے ان برخود غلط مفکروں، تجدد پسندوں اور نام نہاد دانشوروں کا حال ہے جن کی ساری فکر و نظر اور کدو کاوش مادہ پرستی کے بت کے گرد گھومتی ہے اور بس۔ وہ اپنے اسی ظاہری اور دنیاوی علم کو سب کچھ سمجھ رہے ہیں۔ پس نور حق و ہدایت سے محرومی کے ذیل میں یہی دو چیزیں کل بھی بنیادی حیثیت رکھتی تھیں اور یہی آج بھی بنیادی حیثیت رکھتی ہیں۔ ایک اپنے موروثی و آبائی عادات و روایات اور رسوم و رواج پر جمود و اصرار اور دوسرے اپنی عقل و فکر پر اعتماد اور اسی کو سب کچھ سمجھ لینا۔ جبکہ علم درحقیقت وہی ہے جو قال اللہ اور قال الرسول سے مستنیرو مستفاد ہو کہ وہی علم حق اور حقیقت کی راہنمائی کرتا ہے۔ اور انسان کو دارین کی سعادت و سرخروئی اور حقیقی فوز و فلاح سے مشرف و ہمکنار کرتا ہے۔ سو اپنے رسوم و رواج اور خودساختہ علوم و تجربات کی بنا پر دین الہی اور وحی سماوی کی تعلیمات مقدسہ سے منہ موڑنا محرومیوں کی محرومی ہے کہ اس سے انسان طرح طرح کے اندھیروں میں ڈوب کر رہ جاتا ہے ۔ والعیاذ باللہ ۔ 156 استہزاء بالحق کا انجام نہایت برا ۔ والعیاذ باللہ : سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ حق اور اہل حق کا مذاق اڑانے کا انجام بہت برا اور نہایت ہولناک ہوتا ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ یعنی ان کو گھیر لیا اسی عذاب اور انجام ِبد سے جس سے ان کو خبردار کیا جاتا تھا اور جس کو وہ مان کر نہیں دے رہے تھے۔ آخر کار وہ ان کو اپنی لپیٹ میں لے کر رہا۔ اور اس طرح یہ لوگ ۔ { خسر الدّنیا والاخرۃ } ۔ کا مصداق بن کر رہ گئے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ یعنی حضرات انبیائے کرام اور رسل عظام جب اپنی قوموں کے پاس پیغام حق و ہدایت لیکر پہنچے اور توحید، آخرت اور جزا و سزا کے بارے میں انکے سامنے کھلے کھلے اور واضح دلائل پیش کیے تو ان لوگوں نے ان کی دعوت کو قبول کرنے اور ان کی بات کو ماننے کی بجائے الٹا انکا مذاق اڑایا۔ اور وہ اپنے علم و فن پر نازاں وفرحاں رہے جس سے ان کی محرومی کا ٹھپہ اور گہرا اور پکا ہوگیا۔ اور ان سے کفر و باطل کی سیاہی مزید سخت اور گہری ہوگئی۔ جس سے وہ اپنے آخری انجام اور ہولناک عذاب کے مستحق بن گئے۔ جسکے نتیجے میں گھیر لیا انکو اسی عذاب نے جس کا وہ مذاق اڑایا کرتے تھے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ سو حق اور اہل حق کے مذاق اڑانے کا نتیجہ و انجام بہت برا اور نہایت ہولناک ہوتا ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنی حفاظت اور اپنی پناہ میں رکھے ۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین -
Top