Taiseer-ul-Quran - Al-Ghaafir : 83
فَلَمَّا جَآءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَیِّنٰتِ فَرِحُوْا بِمَا عِنْدَهُمْ مِّنَ الْعِلْمِ وَ حَاقَ بِهِمْ مَّا كَانُوْا بِهٖ یَسْتَهْزِءُوْنَ
فَلَمَّا : پھر جب جَآءَتْهُمْ : ان کے پاس آئے رُسُلُهُمْ : ان کے رسول بِالْبَيِّنٰتِ : کھلی نشانیوں کیساتھ فَرِحُوْا : خوش ہوئے (اترانے لگے) بِمَا : اس پر جو عِنْدَهُمْ : ان کے پاس مِّنَ الْعِلْمِ : علم سے وَحَاقَ بِهِمْ : اور گھیر لیا انہیں مَّا كَانُوْا : جو وہ کرتے تھے بِهٖ يَسْتَهْزِءُوْنَ : اس کا مذاق اڑاتے
پھر جب ان کے رسول، ان کے پاس واضح دلائل لے کر آئے تو جو علم 103 ان کے پاس تھا وہ اسی میں مگن رہے اور جس (عذاب) کا وہ مذاق اڑاتے تھے اسی نے انہیں آگھیرا
103 وحی کے علاوہ لوگوں کے پاس اپنے علوم کون سے تھے ؟ وہ علم ان کے پاس کیا تھا ؟ یہی دیومالائی علم (Mythology) جس کی رو سے انہوں نے ہزاروں دیوتاؤں اور دیویوں کو اللہ کے اختیارات میں شریک بنا رکھا تھا۔ پھر ان کا آپس میں بھی اور اللہ سے نسبی رشتہ قائم کر رکھا تھا۔ علاوہ ازیں علم سے مرادہر قوم کے اختراعی مذہبی فلسفے اور سائنس اور اپنے ضابطہ حیات سے متعلق قوانین وغیرہ ہیں۔ جب انبیاء ان کے پاس آئے اور انہیں وحی الٰہی کے علم کی دعوت دی تو انہوں نے اپنے ہاں مروجہ علوم کے مقابلہ میں وحی الٰہی کے علم کو ہی ہیچ سمجھا اور اس طرف توجہ ہی نہ دی۔ کہتے ہیں کہ ارسطو حکیم کو، جو خود اپنے فلسفہ الہیات کا موجد تھا جب سیدنا موسیٰ کے دین کی طرف دعوت دی گئی تو وہ کہنے لگا کہ میں سوچ کر بتاؤں گا۔ بعد میں اس نے یہ جواب دیا کہ ہم خود ہی راہ پائے ہوئے ہیں۔ دوسروں کو ہمیں راہ بتانے کی ضرورت نہیں۔
Top