Tafseer-e-Mazhari - Al-Ghaafir : 83
فَلَمَّا جَآءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَیِّنٰتِ فَرِحُوْا بِمَا عِنْدَهُمْ مِّنَ الْعِلْمِ وَ حَاقَ بِهِمْ مَّا كَانُوْا بِهٖ یَسْتَهْزِءُوْنَ
فَلَمَّا : پھر جب جَآءَتْهُمْ : ان کے پاس آئے رُسُلُهُمْ : ان کے رسول بِالْبَيِّنٰتِ : کھلی نشانیوں کیساتھ فَرِحُوْا : خوش ہوئے (اترانے لگے) بِمَا : اس پر جو عِنْدَهُمْ : ان کے پاس مِّنَ الْعِلْمِ : علم سے وَحَاقَ بِهِمْ : اور گھیر لیا انہیں مَّا كَانُوْا : جو وہ کرتے تھے بِهٖ يَسْتَهْزِءُوْنَ : اس کا مذاق اڑاتے
اور جب ان کے پیغمبر ان کے پاس کھلی نشانیاں لے کر آئے تو جو علم (اپنے خیال میں) ان کے پاس تھا اس پر اترانے لگے اور جس چیز سے تمسخر کیا کرتے تھے اس نے ان کو آ گھیرا
فلما جاء تھم رسلھم بالبینت فرحوا بما عندھم من العلم جب انکے پیغمبر انکے پاس کھلی دلیلیں لے کر آئے تو وہ لوگ اپنے (اس) علم (معاش) پر بڑے نازاں ہوئے جو ان کو حاصل تھا (ترجمہ تھانوی) ۔ بِالْبَیِّنٰتِ ۔ بیّنات سے مراد ہیں معجزات اور واضح آیات و نشانات۔ فَرِحُوْا بِمَا عِنْدَھُمْ مِّنَ الْعِلْمِ تو جو علم انکے پاس تھا ‘ اس پر مغرور ہوگئے اور پیغمبروں کے علم کو حقیر سمجھا۔ علم سے مراد ہیں وہ مفروضات جن کے علم ہونے کے وہ مدعی تھے اور انہی کو علم سمجھتے تھے ‘ ورنہ حقیقت میں دینی امور میں ان کا علم جہل مرکب تھا ‘ جیسے الہٰیات ‘ طبیعیات اور بعض ریاضیات میں یونانیوں کے اقوال و افکار تھے ‘ یا جیسے کفار مکہ کہا کرتے تھے کہ ہم کو دوبارہ زندہ کر کے نہیں اٹھایا جائے گا اور نہ م کو عذاب ہوگا (کذا قال مجاہد) یا جیسے یہودی اور عیسائی کہتے تھے کہ یہودیوں نے کہا : جنت کے اندر سوائے یہودیوں کے اور کوئی نہیں جائے گا ‘ اور عیسائیوں نے کہا کہ جنت کے اندر سوائے عیسائیوں کے اور کوئی داخل نہیں ہوگا۔ یا علم سے دنیوی امور کا علم مراد ہے ‘ اللہ نے فرمایا ہے : یَعْلَمُوْنَ ظَاھِرًا مِّنَ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَھُمْ عَنِ الْاٰخِرَۃِ ھُمْ غٰفِلُوْنَ وہ ظاہری دنیوی زندگی کو ہی جانتے ہیں ‘ آخرت کی طرف سے وہ بالکل ہی غافل ہیں۔ پیغمبروں نے ان کو بتایا تھا کہ دنیا کی طلب میں خوبی (اعتدال) اختیار کرو ‘ خواہشات نفس کے پیچھے نہ پڑجاؤ۔ انبیاء کی یہ تعلیم ان کے علم سے بہت دور تھی ‘ اسلئے تعلیم انبیاء کی طرف انہوں نے کوئی توجہ نہ کی بلکہ انبیاء کی ہدایت کو حقیر سمجھا ‘ انبیاء اور ان کی تعلیم کا مذاق بنایا اور اپنے علم کو دنیا کمانے کیلئے بہت ہی مفید سمجھا اور اس کے صحیح ہونے کا یقین رکھا۔ یا علم سے مراد ہے ان چیزوں کا علم جو آخرت میں کسی کے کام نہیں آئے گا ‘ جیسے علم طبیعیات ‘ ریاضی ‘ نجوم ‘ جادو ‘ شعبدے اور دوسرے وہ علوم جن کی نسبت یونان و ہندوستان کی طرف کی جاتی ہے۔ ایک حکایت میں آیا ہے کہ افلاطون نے حضرت عیسیٰ کی نبوت کا امتحان لینے کیلئے آپ سے پوچھا : اگر آسمان ‘ کمان اور حوادث اس سے نکلنے والے تیر اور انسان ان کا نشانہ ہو اور تیرے پھینکنے والا اللہ ہو تو پھر بھاگنے کی جگہ کونسی ہے۔ حضرت عیسیٰ نے فرمایا : فَفِرُّوْٓا اِلَی اللہ اللہ ہی کی طرف بھاگو۔ یہ جواب سن کر افلاطون کو حضرت عیسیٰ کی نبوت کا یقین ہوگیا ‘ لیکن پھر بھی ایمان نہیں لایا اور کہنے لگا : انبیاء ناقصوں (کی ہدایت وتعلیم) کیلئے ہوتے ہیں اور ہم کامل ہیں (ہم کو انبیاء کی ضرورت نہیں) ۔ ایک روایت میں آیا ہے کہ سقراط نے حضرت موسیٰ کے پیغمبر ہونے کا تذکرہ سنا اور لوگوں نے اس سے کہا : اگر آپ حضرت موسیٰ کی خدمت میں پہنچ جاتے تو بہتر ہوتا۔ کہنے لگا : ہم تو خود ہی ہدایت یافتہ ہیں ‘ ہم کو کسی اور ہادی کی کیا ضرورت ؟ بعض اہل علم نے فرحوا بما عندھم من العلم کا مطلب بیان کیا ہے کہ پیغمبروں کے پاس جو علم خداداد تھا ‘ کافر اس پر ہنستے اور اس کو حقیر جانتے تھے ‘ اس مطلب پر فَرِحُوْا کا ترجمہ ضَحِکُوْا اور اسْتَہْزِؤُا ہوگا اور عِنْدَھُمْ کی ضمیر رُسُل کی طرف راجع ہوگی ‘ آئندہ آیت سے اس تفسیر کی تائید ہو رہی ہے۔ وحاق بھم ما کانوا بہ یستھزؤن اور جو جس چیز کا مذاق اڑاتے تھے ‘ اسی نے ان کو گھیر لیا۔ بعض علماء تفسیر کا خیال ہے کہ فَرِحُوْا کی ضمیر بھی انبیاء کی طرف راجع ہے ‘ یعنی جب انبیاء نے کافروں کی جہالت ‘ گمراہی اور بدانجامی کو دیکھا تو اللہ کے دئیے ہوئے علم سے ان کو بڑی خوشی ہوئی اور انہوں نے اللہ کا شکر کیا کہ اللہ نے ان کو علم نبوت کی نعمت عطا فرمائی اور کافروں کو ان کی جہالت اور استہزاء کی سزا نے گھیر لیا۔
Top