Ruh-ul-Quran - Al-Ghaafir : 83
فَلَمَّا جَآءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَیِّنٰتِ فَرِحُوْا بِمَا عِنْدَهُمْ مِّنَ الْعِلْمِ وَ حَاقَ بِهِمْ مَّا كَانُوْا بِهٖ یَسْتَهْزِءُوْنَ
فَلَمَّا : پھر جب جَآءَتْهُمْ : ان کے پاس آئے رُسُلُهُمْ : ان کے رسول بِالْبَيِّنٰتِ : کھلی نشانیوں کیساتھ فَرِحُوْا : خوش ہوئے (اترانے لگے) بِمَا : اس پر جو عِنْدَهُمْ : ان کے پاس مِّنَ الْعِلْمِ : علم سے وَحَاقَ بِهِمْ : اور گھیر لیا انہیں مَّا كَانُوْا : جو وہ کرتے تھے بِهٖ يَسْتَهْزِءُوْنَ : اس کا مذاق اڑاتے
اور جب ان کے پاس ان کے رسول بینات لے کر آئے تو وہ اسی علم پر نازاں رہے جو ان کے پاس تھا۔ پھر اسی چیز نے ان کو گھیر لیا جس کا وہ مذاق اڑاتے تھے
فَلَمَّا جَآئَ تْھُمْ رُسُلُھُمْ بِالْبَیِّنٰتِ فَرِحُوْا بِمَا عِنْدَھُمْ مِّنَ الْعِلْمِ وَحَاقَ بِھِمْ مَّا کَانُوْا بِہٖ یَسْتَھْزِئُ وْنَ ۔ (المؤمن : 83) (اور جب ان کے پاس ان کے رسول بینات لے کر آئے تو وہ اسی علم پر نازاں رہے جو ان کے پاس تھا۔ پھر اسی چیز نے ان کو گھیر لیا جس کا وہ مذاق اڑاتے تھے۔ ) جب اللہ تعالیٰ کے رسول ان کی زندگی کی اصلاح کے لیے ان کے پاس وہ علم لے کر آئے جس کے نتیجے میں انسانی زندگی کی ہر چول اپنی جگہ بیٹھ جاتی ہے۔ فکری صلاحیتوں کو جلا ملتی ہے، قلبی انتشار سکون میں تبدیل ہوجاتا ہے، معاملات میں اعتدال پیدا ہوتا اور حقوق میں ایثار و اخلاص کی خو جنم لیتی ہے۔ تو یہ لوگ بجائے اس نسخہ کیمیا کے قبول کرنے کے اپنے فلسفے اور سائنس، اپنے قانون، اپنے دنیوی علوم اور اپنے پیشوائوں کے گھڑے ہوئے مذہبی افسانوں اور دینیات ہی کو اصلی علم سمجھتے ہوئے اس پر جمے رہے۔ اور انبیاء (علیہم السلام) کے لائے ہوئے علم کو ہیچ سمجھ کر اسے ماننے سے انکار کردیا۔ تو آخر اس عذاب نے ان کو گھیر لیا جس کا وہ مذاق اڑتے تھے۔ ان کا گمان یہ تھا کہ جو کچھ ہم دنیا کے بارے میں جانتے ہیں یہی علم کی معراج ہے اور جو کچھ یہ نبوت کا دعویٰ کرنے والے ہمیں بتا رہے ہیں یہ محض افسانے ہیں جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ ان کا یہ پندار اور خودپسندی ان کی تباہی کا باعث بنی۔
Top