Tafseer-e-Madani - Az-Zukhruf : 59
اِنْ هُوَ اِلَّا عَبْدٌ اَنْعَمْنَا عَلَیْهِ وَ جَعَلْنٰهُ مَثَلًا لِّبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَؕ
اِنْ هُوَ : نہیں وہ اِلَّا عَبْدٌ : مگر ایک بندہ اَنْعَمْنَا عَلَيْهِ : انعام کیا ہم نے اس پر وَجَعَلْنٰهُ : اور بنادیا ہم نے اس کو مَثَلًا : ایک مثال لِّبَنِيْٓ اِسْرَآءِيْلَ : اسرائیل کے لیے
وہ (ابن مریم) تو محض ایک بندہ تھا جس پر ہم نے انعام کیا تھا اور اس کو ہم نے ایک نمونہ بنادیا تھا بنی اسرائیل کے لئے
80 ابن مریم کی اصل حیثیت کا ذکر وبیان : سو اس سے واضح فرمایا گیا کہ ابن مریم تو محض اللہ تعالیٰ کے ایک انعام یافتہ بندے تھے اور بس۔ سو ارشاد فرمایا گیا اور حصر کے ساتھ ارشاد فرمایا گیا کہ " وہ تو محض ایک بندہ تھا جس پر ہم نے طرح طرح کے انعام فرمائے تھے۔ یعنی ان میں کسی خدائی صفت کا کوئی شائبہ تک نہ تھا۔ ان کی عظمت شان کا اصل اور خاص پہلو یہ تھا کہ ہم نے ان کو طرح طرح کے انعامات سے نوازا تھا۔ مثلا یہ کہ ان کو نبوت و رسالت جیسے عظیم الشان شرف و اعزاز سے نوازا۔ پس نہ تو وہ مشکوک النسل تھے جس طرح کہ یہود بےبہبود نے ان پر بہتان باندھا ۔ والعیاذ باللہ ۔ اور نہ ہی وہ خدا یا خدا کے بیٹے تھے۔ جس طرح کہ نصاریٰ کا کہنا اور ماننا ہے۔ بلکہ وہ تو محض اللہ تعالیٰ کے ایک برگزیدہ بندے اور اس کے سچے رسول تھے اور بس۔ الوہیت کی کوئی صفت نہ ان کے اندر تھی نہ ہوسکتی تھی۔ اور نہ ہی انہوں نے اس کا کبھی کوئی دعویٰ ہی کیا ۔ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلامُ ۔ سو قرآن پاک جو ان کی مثالیں پیش کرتا ہے تو وہ انکے معبود ہونے کی حیثیت سے نہیں بلکہ خداوند قدوس کا ایک ایسا بندہ ہونے کے اعتبار سے جسکو اللہ پاک نے اپنے خاص انعامات سے نوازا تھا اور بس۔ سو اس طرح قرآن حکیم نے اصل حیثیت کو نکھار کر پیش فرما دیا۔ اور انسے متعلق اپنوں اور غیروں کی سب گمراہیوں اور غلط فہمیوں کا قلع قمع فرما دیا۔ اور ایسا کہ اس بارے کسی کے لیے کسی شک و شبہ اور غلط فہمی کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی ۔ فالحمد للہ جل وعلا - 81 حضرت عیسیٰ کا نمونہ صرف بنی اسرائیل کے لیے : سو ارشاد فرمایا گیا کہ " انکو ہم نے خاص انعامات سے بھی نوازا تھا اور انکو ایک مثال بنایا تھا بنی اسرائیل کیلئے "۔ کہ پیدا ہوئے تو بغیر باپ کے۔ پھر اس کے بعد مختلف اور عظیم الشان معجزات سے ان کی تصدیق و تائید فرمائی گئی۔ اور ساری عمر وہ حق و صداقت کا نشان بن کر رہے۔ پھر ان کو آسمان پر زندہ اٹھا لیا گیا۔ سو اس طرح کے مختلف اور عظیم الشان انعامات سے ان کو نوازا۔ مگر ان کی بعثت تھی صرف بنی اسرائیل ہی کے لئے۔ اس لئے آخر میں جب وہ دوبارہ زمین پر تشریف لائیں گے تو شریعت محمدیہ ہی کے تابع ہو کر تشریف لائیں گے۔ بہرکیف ارشاد فرمایا گیا کہ انکو ایک پاکیزہ نمونہ اور مثال بنایا تھا تاکہ اس پاکیزہ نمونے کو سامنے رکھ کر وہ لوگ اپنے کج پیچ درست کرلیں۔ یوں تو ہر پیغمبر اپنی قوم کیلئے نمونہ و معیار اور خدائی کسوٹی ہوتا ہے اور اس کے اسوئہ حسنہ کی پیروی ہی میں قوم کی نجات کا راز مضمر ہوتا ہے لیکن حضرت عیسیٰ کو اللہ تعالیٰ نے ایک خاص نوعیت کی ولادت اور نہایت کھلے ہوئے معجزات کے ساتھ اس لیے بھیجا تھا کہ بنی اسرائیل جو اپنے انبیاء کی تمام تعلیمات کو بھلا کر بالکل اندھے اور بہرے بن گئے تھے ان کی آنکھیں کھل سکیں۔ لیکن وہ ایسے قاسی القلب اور بدبخت نکلے کہ انہوں نے ان کی مثال سے بھی کوئی سبق نہ لیا۔ جس کی پاداش میں اللہ تعالیٰ نے ان پر ہمیشہ کیلئے لعنت کردی ۔ والعیاذ باللہ ۔ بہرکیف اس ارشاد سے واضح فرما دیا گیا کہ حضرت عیسیٰ کا اسوہ اور نمونہ صرف بنی اسرائیل ہی کے لیے تھا اور بس۔ نہ ان کی نبوت عالمی تھی اور نہ ان کی دعوت۔
Top