Tafseer-e-Madani - Az-Zukhruf : 60
وَ لَوْ نَشَآءُ لَجَعَلْنَا مِنْكُمْ مَّلٰٓئِكَةً فِی الْاَرْضِ یَخْلُفُوْنَ
وَلَوْ نَشَآءُ : اور اگر ہم چاہیں لَجَعَلْنَا : البتہ ہم بنادیں مِنْكُمْ : تم سے مَّلٰٓئِكَةً : فرشتوں کو فِي : میں الْاَرْضِ : زمین (میں) يَخْلُفُوْنَ : وہ جانشنین ہوں
اور اگر ہم چاہیں تو تم سے بھی فرشتے پیدا کردیں (اے لوگوں ! ) جو زمین میں تمہاری جگہ رہیں
82 اعجوبہ پرستی اور اساس شرک کی بیخکنی : سو ارشاد فرمایا گیا کہ " اگر ہم چاہیں تو تم لوگوں سے بھی ایسے فرشتے پیدا کردیں جو تمہاری جگہ رہیں اس میں "۔ پس نہ یہ دین تمہارا محتاج ہے اور نہ خداوند قدوس کی عبادت و بندگی تم پر موقوف ہے۔ جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا گیا ۔ { وَاِنْ تَتَوَلَّوْا یَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَیْرَکُمْ ثُمَّ لَا یَکُوْنُوْا اَمْثَالَکُمْ } ۔ (محمد : 38) ۔ اور دوسرے معنیٰ آیت کریمہ کے یہ کئے گئے ہیں کہ ہم نے اگر عیسیٰ کو بغیر باپ کے پیدا کیا ہے تو ہم اس سے بڑھ کر عجیب کام یہ کرسکتے ہیں کہ خود تم لوگوں میں سے اور تمہاری نسل میں سے فرشتے پیدا کردیں جو تمہاری جگہ یہاں رہنے بسنے لگیں کہ ہماری قدرت سے کچھ بھی بعید نہیں۔ تو پھر عیسیٰ کی تخلیق تمہارے لئے اس قدر اچنبھے کا باعث کیونکر بن گئی کہ تم نے ان کی پوجا شروع کردی۔ (جامع البیان، المراغی، المعارف وغیرہ) ۔ اسی طرح جن لوگوں نے فرشتوں کو محض اس بنا پر معبود اور خدا کا شریک قرار دیا کہ وہ نور سے پیدا ہوتے ہیں تو ان کی بھی تردید ہوگئی کہ یہ کوئی بڑی بات نہیں۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت کا حال یہ ہے کہ وہ خود تمہارے اندر سے فرشتوں کی صفات کے ایسے لوگ پیدا کرسکتا ہے جو تمہاری جگہ رہیں بسیں اور زمین میں خلافت کا وہ فرض انجام دیں جو انسانوں کو سپرد ہوا ہے۔ لیکن یہ بات چونکہ اس کی حکمت کیخلاف ہے اس لیے اس نے ایسے نہیں کیا۔ مطلب یہ کہ محض " نور " یا " نار " سے پیدا ہونا یا کسی کا بغیر باپ کے وجود میں آجانا اس بات کی دلیل نہیں بن سکتا کہ وہ خدا کی خدائی میں شریک ہوسکے ۔ والعیاذ باللہ ۔ سو اس سے مشرکین کے شرک اور شر کی اساس و بنیاد یعنی اعجوبہ پرستی کی بیخکنی فرما دی گئی ۔ فالحمد للہ جل وعلا ۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ راہ حق و ہدایت پر مستقیم و ثابت قدم رکھے ۔ آمین۔
Top