Ruh-ul-Quran - Az-Zukhruf : 60
وَ لَوْ نَشَآءُ لَجَعَلْنَا مِنْكُمْ مَّلٰٓئِكَةً فِی الْاَرْضِ یَخْلُفُوْنَ
وَلَوْ نَشَآءُ : اور اگر ہم چاہیں لَجَعَلْنَا : البتہ ہم بنادیں مِنْكُمْ : تم سے مَّلٰٓئِكَةً : فرشتوں کو فِي : میں الْاَرْضِ : زمین (میں) يَخْلُفُوْنَ : وہ جانشنین ہوں
اور اگر ہم چاہیں تو تم سے فرشتے پیدا کردیں جو زمین میں خلافت کریں
وَلَوْ نَشَآئُ لَجَعَلْـنَا مِنْـکُمْ مَّلٰٓئِکَۃً فِی الْاَرْضِ یَخْلُفُوْنَ ۔ (الزخرف : 60) (اور اگر ہم چاہیں تو تم سے فرشتے پیدا کردیں جو زمین میں خلافت کریں۔ ) مشرکین کی غلط فہمی کا ازالہ یعنی فرشتوں کا نور سے پیدا ہونا انھیں مخلوق ہونے سے نہیں نکالتا، وہ بھی اللہ تعالیٰ کی ویسے ہی مخلوق ہیں جیسی تم مخلوق ہو۔ اور اللہ تعالیٰ کے سامنے وہ اسی طرح عاجز ہیں جیسے تم عاجز ہو۔ اور اللہ تعالیٰ کی قدرت اس بات کی پابند نہیں کہ وہ نور ہی سے فرشتوں کو بنائے۔ وہ تم میں بھی فرشتوں کو پیدا کرسکتی ہے۔ اور جس خلافت کی ذمہ داری پر تمہیں فائز کیا گیا ہے، اسی ذمہ داری پر وہ بھی فائز کیے جاسکتے ہیں۔ اور یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ جس طرح زمین پر انسانوں کے جانشین انسان ہی ہوتے ہیں، اللہ تعالیٰ کی قدرت سے کوئی بعید نہیں کہ وہ انھیں تمہارا جانشین بنا دے۔ کسی مخلوق کا نور سے پیدا ہونا یا نار سے یا کسی کو مٹی کا پتلا بنانا اس کے نزدیک حکمت کا تقاضا تو ہوسکتا ہے لیکن قدرت کی علامت نہیں۔ خدائی صفات صرف اس کی ذات میں ہیں، کوئی مخلوق کسی بھی عنصر سے پیدا ہو وہ بہرحال مخلوق ہے اور مخلوق خالق کے سامنے عجزونیاز اور سرافگندگی کی علامت ہے۔ بنا بریں فرشتوں کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں بنانا یا اس کی قدرت میں شریک سمجھنا جہالت کے سوا کچھ نہیں۔
Top