Urwatul-Wusqaa - Az-Zukhruf : 60
وَ لَوْ نَشَآءُ لَجَعَلْنَا مِنْكُمْ مَّلٰٓئِكَةً فِی الْاَرْضِ یَخْلُفُوْنَ
وَلَوْ نَشَآءُ : اور اگر ہم چاہیں لَجَعَلْنَا : البتہ ہم بنادیں مِنْكُمْ : تم سے مَّلٰٓئِكَةً : فرشتوں کو فِي : میں الْاَرْضِ : زمین (میں) يَخْلُفُوْنَ : وہ جانشنین ہوں
اور اگر ہم چاہتے تو زمین میں تمہاری جگہ تم میں سے فرشتہ (خصلت لوگ) ہی تمہارے قائم مقام کر دیتے
60 ؎ خلافت ارضی کے لیے فقط انسان قانون قدرت میں طے کیا گیا تھا ، کیوں ؟ اس لیے کہ انسان ہی خیروشردونوں کا مجموعہ ہے اور دونوں چیزوں کے مجموعہ ہی کو زمین میں بسایا جانا منظور تھا اس لیے ان کی راہنمائی کے لیے بھی ان ہی جیسا انسان یعنی جس میں دونوں چیزیں خیروشر موجود ہوتیں مناسب تھا اور یہی کچھ کیا کہ ہر نبی ورسول کا تعلق انسانوں سے تھا اور اس میں دونوں قسم کی چیزیں یعنی خیروشر موجود تھے اس نے دنیا میں بسنے والے انسانوں میں رہ کر بطور نمونہ اپنے آپ کو پیش کیا اگر ہم اس کو کوئی فرشتہ بناتے تو وہ دنیا والوں کے لیے نمونہ نہیں ہوسکتا تھا اور یہی وجہ ہے کہ انسانوں میں سے صرف انہی لوگوں کو خلیفہ نہیں بنایا گیا جو فرشتوں کی طرح معصوم تھے بلکہ خلافت اراضی کے لیے خلافت کی صلاحیت رکھنے والوں کو یہ فریضہ سپرد کیا اور نمونہ کے لیے نبیوں اور رسولوں کو چنا گیا جو معصوم عن الخطاء تھے لنکت اس کے باوجود وہ فرشتے نہیں تھے بلکہ انسان تھے اور ان کا تعلق جنس انسانی ہی سے تھا۔ (جعلنا منکم ملائکۃ) کا مفہوم ومطلب جو ہم نے سمجھا ہے وہ یہی ہے کہ انسانوں ہی میں سے ملائکہ صفت انسان مراد ہیں اور ملائکہ صفت سے مراد معصوم عن الخطا ہی ہوسکتے ہیں یہی وجہ ہے کہ دین اسلام میں ہر نبی ورسول کو ہر فرشتہ سے افضل واعلیٰ تسلیم کیا گیا ہے کیونکہ نبی ورسول بشر ہونے کے باوجود بطور نمونہ ” کلمہ خیر “ ثابت کرتا ہے اور فرشتہ میں شرکاء مادہ موجود ہی نہیں ہوتا اس لیے کمال اس کا ہے جس نے شرکا مادہ موجود ہونے کے باوجود اس کا اظہار نہ ہونے دیا اور خیر کو اس پر غالب کردیا اور یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ یہ مشیت ایزدی کا بیان ہے کہ اگر ہم چاہتے تو نہ آدم کو پیدا کرتے ، نہ اولاد آدم کو اور پھر ظاہر ہے کہ جب انسان پیدا ہی نہ ہوتے تو یہ اندھیر نگری کیونکر ہوتی جو انسان ہی سے ہورہی ہے پھر انسانوں کی جگہ فرشتے بسائے جاتے یا جس مخلوق کو اللہ چاہتا بسادیتا لیکن پہلی بات زیادہ واضح اور صحیح معلوم ہوتی ہے۔
Top