Kashf-ur-Rahman - Al-Ghaafir : 70
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنَّ مِنْ اَزْوَاجِكُمْ وَ اَوْلَادِكُمْ عَدُوًّا لَّكُمْ فَاحْذَرُوْهُمْ١ۚ وَ اِنْ تَعْفُوْا وَ تَصْفَحُوْا وَ تَغْفِرُوْا فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا : لوگو جو ایمان لائے ہو اِنَّ مِنْ اَزْوَاجِكُمْ : بیشک تمہاری بیویوں میں سے وَاَوْلَادِكُمْ : اور تمہارے بچوں میں سے عَدُوًّا : دشمن ہیں لَّكُمْ : تمہارے لیے فَاحْذَرُوْهُمْ : پس بچو ان سے وَاِنْ تَعْفُوْا : اور اگر تم معاف کردو گے وَتَصْفَحُوْا : اور درگزر کرو گے وَتَغْفِرُوْا : اور بخش دو گے فَاِنَّ اللّٰهَ : تو بیشک اللہ تعالیٰ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ : غفور رحیم ہے
اے وہ لوگوں جو ایمان لائے ہو یقینا تمہاری بیویوں اور تمہاری اولادوں میں سے کچھ تمہارے دشمن ہیں پس تم ان سے بچ کر رہا کرو اور اگر تم معاف کردیا کرو درگزر سے کام لیا کرو اور بخش دیا کرو تو (تمہارے لئے بھی بخشش کی امید ہوسکتی ہے کیونکہ) اللہ تعالیٰ یقینا بڑا ہی بخشنے والا انتہائی مہربان ہے
28 ۔ بیوی بچوں میں سے کچھ انسان کے دشمن، والعیاذ باللہ : چناچہ ارشاد فرمایا گیا ایمان والو تمہاری بیویوں اور تمہاری اولادوں میں سے کچھ تمہارے دشمن ہیں، یعنی جو تمہیں دین حق اور اس کے تقاضوں سے روکتے اور باز رکھتے ہیں، حالانکہ دین اور اس کی تعلیمات مقدسہ کی راہ دارین کی سعادتوں اور حقیقی فوز و فلاح سے سرفرازی کی راہ ہے، اور اس سے محرومی درحقیقت ہر خیر سے محرومی ہے، والعیاذ باللہ العظیم۔ واضح رہے کہ یہاں پر " من ازواجکم وا اولادکم " فرمایا گیا ہے، یعنی کلمہ من کے ساتھ من کے سا کلمہ تبعیض سے معلوم ہوا کہ سب بیویاں بچے دشمن نہیں ہوتے، بلکہ ان میں سے کچھ ایسے ہوتے ہیں اور وہ وہی ہوتے ہیں جو انسان کے لیے راہ حق و ہدایت سے محرومی کا باعث بنیں، والعیاذ باللہ۔ ورنہ جو بیویاں اور بچے انسان کے لیے راہ حق و صواب میں استقامت و ثابت قدمی میں ممدو و معاون بنیں وہ تو معین و مددگار اور اللہ پاک کی عظیم الشان نعمت ہیں، " ربنا ھب لنا من ازواجنا و ذریاتنا قرۃ اعین و اجلعنا للمتقین اماما، آمین یا رب العالمین، و یا ارحم الرحمین۔ بہرکیف اس ارشاد سے راہ حق میں پیش آنے والی آزمائشوں میں سے ایک بڑی آزمائش سے متنبہ فرما دیا گیا ہے جو انسان کو اللہ تعالیٰ کے حقوق و فرائض کی ادائیگی اور راہ حق میں جان و مال کے انفاق سے روکنے والی بنتی ہے، اور وہ ہے بیوی بچوں کی حد سے بڑھی ہوئی محبت، سو اس سے متنبہ اور آگاہ فرما دیا گیا ہے تاکہ انسان اس سے بچے اور محتاط رہے اور ان کی محبت کو دل پر غالب و مسلط نہ ہونے دے، اور راہ حق و ہدایت میں رکاوٹ نہ بننے دے، کیونکہ اگر خدانخواستہ ان کی محبت غالب آکر راہ حق میں رکاوٹ بن گئی تو یہ بڑے ہی سخت خسارے کا سودا ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ اللہ ہمیشہ اپنی پناہ میں رکھے، اور ہر طرح کے شرور و فتن سے ہمیشہ اور ہر طرح سے محفوظ رکھے۔ 29 ۔ بیوی بچوں کے ساتھ عفو و درگزر سے کام لینے کی تعلیم و تلقین : چناچہ ارشاد فرمایا گیا کہ اگر تم لوگ عفو و درگزر سے کام لو تو یہ تمہارے لیے بہتر ہے کہ بیشک اللہ بڑا ہی بخشنے والا انتہائی مہربان ہے۔ پس ان کے ساتھ تمہارا بخشش و مہربانی والا معاملہ تمہارے لیے اس غفور و رحیم کی رحمت و بخشش کا ذریع بن جائے گا، جیسا کہ صادق مصدوق حضرت نبی معصوم (علیہ الصلوۃ والسلام) کا ارشاد ہے کہ تم زمین والوں پر (اور خاص کر اپنے ماتحتوں پر) رحم کرو عرش والا تم پر رحم فرمائے گا ( ارحموا من فی الارض یرحمکم من فی السماء) سو ان کے سلسلہ میں تم لوگ اس بات کا تو خیال رکھو کہ وہ تمہیں اللہ کی راہ سے روکنے والے نہ بنیں لیکن ساتھ ہی اس بات کا بھی خیال رکھو کہ یہ چیز قطع تعلق اور باہمی مفارقت کی حد تک نہ پہنچنے پائے، اس لیے اس سلسلہ میں عفو و درگزر اور چشم پوشی سے کام لو، سو اس طرح ارشاد سے بیوی بچوں سے تحذیر و اجتناب کی حدود کا تعین فرما دیا گیا، پس جس کسی کو اس طرح کی کسی آزمائش سے سابقہ پیش آئے اس کے لیے صحیح طریقہ یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو کسی فتنے میں پڑنے سے تو بچائے لیکن ساتھ ہی وہ اس کا خیال رکھے کہ یہ بات قطع تعلق اور مفارقت تک نہ پہنچنے پائے، سو ایسا شخص اپنے اہل و عیال کی اصلاح کی کوشش کرے، لیکن جب تک کفر و ایمان کا کوئی سوال پیدا نہ ہو اس وقت وہ ان سے قطع تعلق نہ کرے بلکہ عفو درگزر ہی کام لے اور صلاح احوال ہی کی کوشش کرتا رہے۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید، وعلی ما یحب ویرید، بکل حال من الاحوال وفی کل موطن من المواطن فی الحیاۃ۔
Top