Tafseer-e-Madani - At-Taghaabun : 17
اِنْ تُقْرِضُوا اللّٰهَ قَرْضًا حَسَنًا یُّضٰعِفْهُ لَكُمْ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ شَكُوْرٌ حَلِیْمٌۙ
اِنْ تُقْرِضُوا : اگر تم قرض دو گے اللّٰهَ : اللہ کو قَرْضًا حَسَنًا : قرض حسنہ يُّضٰعِفْهُ لَكُمْ : وہ دوگنا کردے گا اس کو تمہارے لیے وَيَغْفِرْ لَكُمْ : اور بخش دے گا تم کو وَاللّٰهُ : اور اللہ شَكُوْرٌ حَلِيْمٌ : قدردان ہے ، بردبار ہے
اگر تم قرض دو گے اللہ (پاک) کو اچھا قرض (اے ایمان والو) تو وہ تمہیں (کئی گنا) بڑھا کر دے گا اور تمہاری بخشش بھی فرمائے گا اور اللہ تو بڑا ہی قدرداں انتہائی بردبار ہے
34 ۔ قرض حسن سے مقصود و مراد ؟ اور اس کی عظمت و اہمیت کا ذکر وبیان : سو ارشاد فرمایا گیا کہ اگر تم لوگ اللہ کو قرض دو گے قرض حسن تو وہ کئی گنا بڑھا کر واپس کرے گا، اور قرض حسن سے مراد یہ ہے کہ مال بھی ستھرا اور پاکیزہ ہو، اور ارادہ و نیت بھی صحیح اور درست ہو، اور اس کا اصل مقصود اللہ کی رضا و خوشنودی ہو، قرآن حکیم میں قرض کا لفظ عام طور پر جہاد ہی کے انفاق کے لیے آیا ہے، اور اس لفظ میں بڑی بلاغت ہے، جو اہل علم اور اصحاب ذوق سلیم سے مخفی نہیں سورة مزمل میں ارشاد فرمایا گیا وَاَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتُوا الزَّكٰوةَ وَاَقْرِضُوا اللّٰهَ قَرْضًا حَسَنًا (المزمل 20 پ 29) اور قائم کرو تم نماز اور ادا کرو زکوٰۃ اور اللہ کو قرض دو اچھا قرض۔ سو اس آیت کریمہ میں زکوٰۃ کی ادائیگی کے بعد جو قرض حسن کا حکم فرما دیا گیا ہے تو اس سے مراد وہ انفاق ہے جو خاص حالات میں اللہ تعالیٰ کی راہ میں مطلوب ہوتا ہے، سو اس بناء پر اوپر جس افناق کا ذکر آیا ہے وہ ہر قسم کے انفاق کو شامل ہے، اور اس کے بعد اب یہاں پر قرض حسن کا ذکر فرمایا جارہا ہے اس سے مراد خاص طور پر وہ انفاق ہے جو جہاد فی سبیل اللہ کے لیے ہوتا ہے، سو یہ عام کے بعد خاص کے ذکر کے طور پر ہے، پس اپنے مالوں کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں اور اس کی رضا کے لیے خرچ کرنا دین حنیف کا ایک اہم مطلب اور عظیم ترین مقصد بھی ہے، اور سعادت دارین سے سرفرازی کا ایک عظیم الشان ذریعہ و وسیلہ بھی۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید، وعلی ما یحب ویرید، بکل حال من الاحوال۔ 35 ۔ قرض حسن پر اجر جزیل کا ذکر وبیان : سو ارشاد فرمایا گیا کہ وہ اس کو تمہارے لیے کئی گنا بڑھا کر واپس کرے گا اور تمہاری بخشش بھی فرمائے گا کہ کریم کی شان کریمی کا تقاضا یہی ہوتا ہے اور وہ تو اکرم الاکرمین اور سب کا خالق ومالک ہے، سبحانہ وتعالی۔ تو اس کے کرم کی وسعتوں کا اندازہ ہی کون کرسکتا ہے ؟ سبحانہ وتعالی۔ اب وہ اس کو کتنے گنا بڑھائے گا اس کا علم بھی اس وحدہ لا شریک کے سوا کسی کو نہیں ہوسکتا، سو وہ جو تم سے قرض مانگتا ہے اے لوگو تو اس سے کسی کو یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ اس کے خزانے میں کوئی کمی آگئی ہے، جس کی بناء پر وہ تم سے قرض مانگتا ہے، سو ایسی کسی بات کا وہاں پر کوئی سوال و امکان نہیں، اس کا خزانہ بدستور عامر و بھرپور ہے، سبحانہ وتعالی۔ وہ جو تم لوگوں سے قرض مانگتا ہے تو اس لیے کہ تاکہ اس کے ذریعے تمہارے لیے نفع کمانے کی راہ کھولے کہ تم لوگ اس کی راہ میں خڑچ کر کے اس کے بدلے میں دس، سو، سات سو گنا اور اس سے بھی زیادہ حاصل کرو سو وہ اپنی شان کریمی و رحیمی کی بناء پر تم لوگوں سے قرض مانگتا ہے تاکہ خود تمہارا بھلا ہو اور اس کے بینک میں جمع کیا جانے والا قرض کئی گنا بڑھ کر تم کو اپس ملے، اور اس کے لیے شرط صرف اس قدر ہے کہ وہ قرض بہرحال قرض حسن ہو۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید، وعلی ما یحب ویرید، بکل حال من الاحوال وھو الھادی الی سواء السبیل فعلیہ نتوکل وبہ نستعین۔ 36 ۔ اللہ تعالیٰ بڑا ہی قدر دان ہے، سبحانہ و تعالیٰ : سو ارشاد فرمایا گیا کہ اللہ بڑا ہی قدرداں ہے، سبحانہ وتعالی، اور ایسا قدر دان کہ اس کے حضور اگر کوئی کھجور کے دانے کے برابر بھی صدقہ اپنے حلال مال سے پیش کرتا ہے تو وہ اس کو بھی قبول فرماتا ہے اور اپنے داہنے ہاتھ سے اس کو وصول کرتا ہے، سبحانہ وتعالی، اور پھر اس کو وہ ایسے بڑھاتا ہے جیسا کہ تم میں سے کوئی اپنے گھوڑے کے بچے کی پرورش کرتا ہے، یہاں تک کہ کھجور کے دانے کے برابر کا وہ خرچہ اور معمولی سا صدقہ پہاڑ کے برابر ہوجاتا ہے، جیسا کہ صحیح حدیث میں اس کی تصریح موجود ہے، سبحان اللہ۔ کیا کہنے اس شان کرم و عطا کے۔ اللھم وفقنا لما تحب وترضی، سو یہ اسی وحدہ لا شریک کی شان کرم وعطاء اور قدر دانی ہے کہ غنی مطلق ہونے کے باوجود وہ اپنے بندوں کی نیکیوں کو ایسی پیذیرائی بخشتا ہے، سبحانہ وتعالی۔ سو اپنی اسی شان شکر و قدر دانی کی بناء پر وہ اپنے بندوں کے ان نذرانوں کو حقیر نہیں سمجھتا جو وہ اس کی رضا و خوشنودی کے لیے اس کی بارگاہ اقدس و اعلی میں پیش کرتے ہیں، بلکہ وہ ان کو قدر کے ساتھ قبول کرتا ہے اور ان کو بڑھاتا جاتا ہے کہ اس کی شان کرم وعطاء کی نہ کوئی حد ہے نہ انتہاء۔ سبحانہ وتعالی۔ اللہ تعالیٰ توفیق بخشے اور ہمیشہ اور ہر حال میں اور ہر اعتبار سے اپنی رضا کی راہوں پر چلنا نصیب فرمائے۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین و یا ارحم الرحمین و یا اکرم الاکرمین۔ 37 ۔ اللہ تعالیٰ انتہائی حلیم ہے، سبحانہ وتعالی : سو ارشاد فرمایا گیا کہ اور وہ انتہائی حلیم یعنی بردبار ہے، سبحانہ وتعالی۔ اس لیے وہ کسی کو اس کی خطاء و معصیت پر فوری طور پر نہیں پکڑتا، بلکہ ڈھیل اور ڈھیل پر ڈھیل دیے چلا جاتا ہے اور پھر سچی توبہ پر سب کچھ معاف بھی فرما دیتا ہے اور یہ صرف اسی وحدہ لا شریک کی شان ہے اس کے سوا اور کسی کے بس میں نہیں کہ وہ اپنے ظرف میں اس قدر وسعت پیدا کرسکے، سبحانہ وتعالی۔ سو اسی بناء پر وہ اپنے بندوں سے نہایت فیاضانہ معاملہ فرماتا ہے، اگر وہ برائیوں سے بچنے والے ہوتے ہیں تو وہ ان کی لغزشوں اور کوتاہیوں سے چشم اور درگزر فرماتا ہے، سبحانہ وتعالی۔ اور اللہ تعالیٰ کی صفت شکر و حلم کا تقاضا ہے کہ بندہ بھی اپنے بس کی حد تک اس کا شکر گزارو قدردان رہے، اور وہ بھی دوسروں کی خطا و تقصیر پر حلم و کرم اور عفو و درگزر ہی سے کام لے، وباللہ التوفیق لما یحب ویرید، وعلی ما یحب ویرید، وھو الھادی الی سواء السبیل، و صلی اللہ تعالیٰ علی البشیر النذیر، النبی الامی الکریم، صاحب الخلق العظیم، نبینا محمد وعلی الہ وصحبہ وسلم۔
Top