Anwar-ul-Bayan - At-Taghaabun : 17
اِنْ تُقْرِضُوا اللّٰهَ قَرْضًا حَسَنًا یُّضٰعِفْهُ لَكُمْ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ شَكُوْرٌ حَلِیْمٌۙ
اِنْ تُقْرِضُوا : اگر تم قرض دو گے اللّٰهَ : اللہ کو قَرْضًا حَسَنًا : قرض حسنہ يُّضٰعِفْهُ لَكُمْ : وہ دوگنا کردے گا اس کو تمہارے لیے وَيَغْفِرْ لَكُمْ : اور بخش دے گا تم کو وَاللّٰهُ : اور اللہ شَكُوْرٌ حَلِيْمٌ : قدردان ہے ، بردبار ہے
اگر تم خدا کو (اخلاص اور نیت) نیک (سے) قرض دو گے تو وہ تم کو اس کا دو چند دیگا اور تمہارے گناہ بھی معاف کردے گا اور خدا قدر شناس اور بردبار ہے۔
(64:17) ان تفرضوا اللہ : جملہ شرط ہے ان شرطیہ۔ اگر : تقرضوا۔ مضارع جمع مذکر حاضر۔ اقراض (افعال) مصدر ۔ بمعنی قرض دینا۔ اللہ مفعول فعل تقرضوا کا یہ اصل میں تقرضون تھا۔ ان شرطیہ کے آنے سے نون اعرابی ساقط ہوگیا۔ اگر تم اللہ کو قرض دو ۔ قرضا حسنا : قرضا مفعول مطلق۔ موصوف حسنا صفت، قرضا کی بمعنی اچھا عمدہ۔ خوب۔ ہر لحاظ سے پسندیدہ۔ یضعفہ لکم۔ جملہ جواب شرط ہے۔ یضعف مضارع مجزوم (بوجہ جواب شرط) واحد مذکر غائب۔ مضاعفۃ (مفاعلۃ) مصدر ہ ضمیر مفعول واحد مذکر گا ئب کا مرجع قرضا ہے۔ وہ اس کو بڑھا دے گا۔ دگنا کر دے گا۔ وہ اس کو بڑھا کر دے گا۔ لکم تم کو، تمہارے لئے یعنی دس گناہ سے لے کر سات سو گنا تک۔ بلکہ اس سے بھی زیادہ جتنا اللہ چاہے گا اجر عطا فرمائے گا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :۔ مثل الذین ینفقون اموالہم فی سبیل اللہ کمثل حبۃ انبتت سبع سنابل فی کل سنبلۃ ماۃ حبۃ واللہ یضعف لمن یشاء واللہ واسع علیہم (2:261) جو لوگ اپنا مال خدا کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ان (کے مال) کی مثال اس دانے کی سی ہے جس سے سات بالیں اگیں اور ہر ایک میں سودانے ہوں ۔ اور خدا جس (کے مال) کو چاہتا ہے زیادہ کرتا ہے اور وہ بڑی ہی کشائش والا (اور) سب کچھ جاننے والا ہے۔ ویغفرلکم اور تمہارے گناہ بخش دے گا ۔ اس کا عطف جملہ سابقہ پر ہے۔ واللہ شکور حلیم : اور اللہ شکور اور حلیم ہے۔ شکور : وہ بندہ جو اطاعت الٰہی اور اس کی عبادت کی بجا آوری کے ذریعے جو کہ اس پر مقرر کی گئی ہے حق تعالیٰ کی شکر گزاری میں خوب کوشاں ہو۔ اور شکور کا جب اللہ تعالیٰ کی صفات میں استعمال ہوگا تو اس کے معنی بڑے قدردان یعنی تھوڑے کام پر بہت بڑا ثواب دینے والے کے ہوں گے۔ شکور : شکر یشکر کا مصدر ہے شکر و شکر ان بھی مصدر ہے۔ حلیم : حلم سے (باب کرم) مصدر بروزن فعیل صفت مشبہ کا صیغہ ہے۔ حلم بمعنی جوش غضب سے نفس اور طبیعت کو روکنا۔ یعنی برد باری اور تحمل کرنا۔ حلیم : سزا دینے میں جلدی نہ کرنے والا۔ بردبار۔ تحمل والا۔ باوقار۔ یہ اللہ کے اسماء حسنی میں ہے ہے۔ کیونکہ اصل حلم اس کا ہے۔
Top