Ruh-ul-Quran - At-Taghaabun : 17
اِنْ تُقْرِضُوا اللّٰهَ قَرْضًا حَسَنًا یُّضٰعِفْهُ لَكُمْ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ شَكُوْرٌ حَلِیْمٌۙ
اِنْ تُقْرِضُوا : اگر تم قرض دو گے اللّٰهَ : اللہ کو قَرْضًا حَسَنًا : قرض حسنہ يُّضٰعِفْهُ لَكُمْ : وہ دوگنا کردے گا اس کو تمہارے لیے وَيَغْفِرْ لَكُمْ : اور بخش دے گا تم کو وَاللّٰهُ : اور اللہ شَكُوْرٌ حَلِيْمٌ : قدردان ہے ، بردبار ہے
اگر تم اللہ کو قرض حسن دو گے تو وہ اس کو تمہارے لیے بڑھا دے گا اور تمہیں بخش دے گا اور اللہ بڑا قدردان اور بہت حلم والا ہے
اِنْ تُقْرِضُوا اللّٰہَ قَرْضًا حَسَنًا یُّضٰعِفْہُ لَـکُمْ وَیَغْفِرْلَـکُمْ ط وَاللّٰہُ شَکُوْرٌ حَلِیْمٌ۔ عٰلِمُ الْغَیْبِ وَالشَّھَادَۃِ الْعَزِیْزُالْحَکِیْمُ ۔ (التغابن : 17، 18) (اگر تم اللہ کو قرض حسن دو گے تو وہ اس کو تمہارے لیے بڑھا دے گا اور تمہیں بخش دے گا اور اللہ بڑا قدردان اور بہت حلم والا ہے۔ جاننے والا ہے غائب و حاضر کا، سب پر غالب اور حکمت والا ہے۔ ) قرضِ حَسن کی فضیلت اوپر کی آیت میں مال کے خرچ کرنے کا ذکر کیا گیا ہے اور یہاں اسی خرچ کی ایک شاخ جس کا مرتبہ سب سے بلند ہے اس کا ذکر فرمایا گیا ہے۔ پہلی آیت میں جس انفاق کا ذکر کیا گیا ہے اس کا تعلق ہر قسم کے انفاق سے ہے۔ خواہ اس کا تعلق صدقات و زکوٰۃ سے ہو یا جہاد سے۔ لیکن اس آیت میں خاص طور پر جہاد کے لیے انفاق کی تاکید فرمائی گئی ہے۔ اس لیے کہ قرآن کریم میں قرض کا لفظ عام طور پر جہاد ہی میں انفاق کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ مثلاً سورة المزمل میں ہے : وَاَقِیْمُوالصَّلٰوۃَ وَاَتُوالزَّکَوٰۃَ وَاَقْرِضُوا اللّٰہَ قَرْضًا حَسَنًا ” اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو اور اللہ کو قرض دو اچھا قرض۔ “ اس آیت میں زکوٰۃ کے بعد قرض حسن کا ذکر فرمایا گیا ہے۔ ظاہر ہے اس سے مراد وہ انفاق ہے جو جہاد کے لیے ہوتا ہے اور خاص طور پر جس کے لیے اپیل کی جاتی ہے۔ مجھے اس سے انکار نہیں کہ عام انفاق کے لیے بھی ترغیب کے انداز میں اس لفظ کا استعمال قرآن کریم نے کیا ہے۔ لیکن زیادہ تر جہاد کے لیے اس کا استعمال کیا گیا ہے۔ اور یہاں وہی مراد ہے۔ یہاں قرض کو قرض حسن سے تعبیر کیا گیا ہے۔ قرضِ حسن سے مراد وہ انفاق ہے جو حلال اور طیب مال میں سے کیا جائے۔ اور خوشدلی اور دل کے انشرح کے ساتھ اور فیاضی سے دیا جائے اور اپنی ضرورت کو اس ضرورت پر قربان کردیا جائے۔ جس قرض کے اندر یہ خوبیاں ہوں گی اسے قرض حسن کہا جائے گا۔ ایسے قرض پر اللہ تعالیٰ نے یہ نوید سنائی ہے کہ وہ اسے بڑھا دے گا اور بڑھانے سے مراد صرف یہ نہیں کہ اسے دونا کردے گا بلکہ اس سے اَضَعَافًا مُّضَاعَفَۃً یعنی کئی گنا بھی ہوسکتا ہے۔ ایسا ہی قرض بیشمار اجروثواب کا باعث بھی ہوتا ہے۔ اسی سے اللہ تعالیٰ کی بخشش بھی نصیب ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ ایسے قرض کو بڑی قدردانی کے ساتھ قبول فرماتا ہے۔ یعنی چاہے دیکھنے کو وہ معمولی انفاق ہو۔ لیکن اگر اس کے پیچھے انفاقِ حسن کی روح پائی جاتی ہے، یعنی مکمل اخلاص، فدائیت اور محبت کارفرما ہے تو اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں وہ بہت وقیع سمجھا جاتا ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ جنگ تبوک کے سلسلے میں جب حضور ﷺ نے اپیل فرمائی تو ایک شخص کھجوروں کی ایک پوٹلی لے کر آیا۔ آپ نے نہایت خوشی سے قبول کرتے ہوئے فرمایا کہ مسجد کے صحن میں لوگوں کے صدقات کا جو ڈھیر لگا ہوا ہے ان کھجوروں کو اس پر بکھیر دیا جائے۔ اس کی برکت سے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ سب کو قبول فرمائے گا۔ اس انفاق کو قرض کہنے کی شاید وجہ یہ بھی ہے کہ قرض لینے والے پر قرض کی ادائیگی لازمی ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے حضور جو نذرانہ پیش کیا جاتا ہے دینے والا تو اسے یہ سمجھ کے دیتا ہے کہ اگر اسے قبول کرلیا جائے تو میری لیے بہت بڑا اعزاز ہوگا۔ لیکن یہ لفظ استعمال کرکے یہ تصور دیا گیا کہ لینے والا چونکہ بہت قدردان بھی ہے اور حلیم بھی۔ اس لیے وہ نہایت فیاضانہ معاملہ کرتے ہوئے اس کو نہ صرف عزت بخشے گا اور اسے واپس کرے گا بلکہ دینے والے نے جس مقدار میں دیا ہے اس میں بہت اضافہ کرکے واپس کرے گا۔ کیونکہ اس کے لیے مال میں اضافہ کردینا کوئی مشکل نہیں۔ وہ کائنات کے خزانوں کا مالک ہے اس کے خزانے ہمیشہ بھرے رہتے ہیں، اس میں کوئی کمی نہیں آتی۔ یہ تم سے قرض لینے کا مقصد تو صرف یہ ہے تاکہ تم آخرت میں اسے 70 گنا تک وصول کرو۔ اور تمہارے لیے بیش از بیش اجروثواب کا ذریعہ بنے۔ یہود پر خدا کی لعنت، کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ کا ہم سے قرض مانگنا شاید اس لیے ہے کہ وہ فقیر ہوگیا ہے اور ہم غنی ہیں۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ ہم فقیروں سے جو کچھ لیتا ہے وہ اسی کا دیا ہوا ہے۔ اور پھر اس کو آخرت میں بڑھا چڑھا کر ہمیں لوٹائے گا تاکہ ہمارے لیے درجات کا ذریعہ بنے۔ دوسری آیت میں فرمایا کہ وہ غائب و حاضر ہر چیز کا جاننے والا ہے، اس کے راستے میں جو قربانی بھی کی جائے گی اور دلوں میں جذبات پالے جائیں گے اس سے کچھ بھی مخفی نہیں، وہ ہر چیز کو جانتا ہے۔ اور مزید یہ کہ وہ عزیز بھی ہے، کوئی کمزور ہستی نہیں کہ تم اس کا ساتھ نہ دو تو اس کے غلبہ میں کمی آجائے گی، بلکہ اس کا ساتھ دینے والا اپنے لیے طاقت اور عظمت کا ایک حوالہ تلاش کرلیتا ہے جس سے وہ ہمیشہ عظیم ہوجاتا ہے۔ اس کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں۔ وہ آج جن لوگوں سے قرض لے رہا ہے اس میں بھی حکمت ہے۔ اور کل یہی لوگ اس ملک کے خزانوں کے مالک ہوں گے۔ اور اللہ تعالیٰ کی کبریائی کا علم ان ہی کے ہاتھوں میں ہوگا۔ تب معلوم ہوگا کہ اللہ تعالیٰ کی حکمتوں نے اگر آج کے حکمرانوں کو انفاق نہ سکھایا ہوتا اور اللہ تعالیٰ کا تقویٰ ان میں نہ پیدا کیا ہوتا تو ان کی حکومت اللہ تعالیٰ کی رحمت کا سایہ کبھی نہ بنتی۔
Top