Tafseer-e-Saadi - Maryam : 35
ذٰلِكَ بِمَا قَدَّمَتْ اَیْدِیْكُمْ وَ اَنَّ اللّٰهَ لَیْسَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِیْدِۙ
ذٰلِكَ : یہ بِمَا : بدلہ جو قَدَّمَتْ : آگے بھیجے اَيْدِيْكُمْ : تمہارے ہاتھ وَاَنَّ : اور یہ کہ اللّٰهَ : اللہ لَيْسَ : نہیں بِظَلَّامٍ : ظلم کرنے والا لِّلْعَبِيْدِ : بندوں پر
یہ سب بدلہ ہے اس کا جو تم لوگوں نے آگے بھیجا خود اپنے ہاتھوں سے، ورنہ اللہ ایسا نہیں کہ (ذرہ برابر کوئی) ظلم کرے اپنے بندوں پر،
110 دوزخ انسان کے عمل و کردار کا طبعی نتیجہ ۔ والعیاذ باللہ : سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ دوزخ کی آگ انسان کے خود اپنے ہاتھوں کی کمائی کا بدلہ ہوگی ۔ والعیاذ باللہ ۔ سو ان سے کہا جائے گا کہ یہ بدلہ ہے تمہارے اپنے ہاتھوں کی کمائی کا جو تم لوگوں نے آگے بھیجی تھی۔ پس اب تم اپنے سوا کسی کی بھی ملامت نہیں کرسکتے کہ یہ سب کچھ تمہارے اپنے ہی کئے کرائے کا نتیجہ اور پھل ہے۔ پس ملامت خود اپنی ہی کرو، جیسا کہ شیطان ان سے دوزخ میں کہے گا { فَلا تَلُوْمُوْنِیْ وَلُوْمُوْا اَنْفُسَکُمْ } الاٰیۃ (ابراہیم :) یعنی " تم لوگ مجھے ملامت نہ کرو بلکہ خود اپنی ہی کو ملامت کرو " کہ اپنے اس انجام کے ذمہ دار تم خود ہو۔ اور کمائی کا اصل اور بڑا ذریعہ چونکہ انسان کے ہاتھ ہی ہوتے ہیں اس لئے لوگوں کی کمائی کو ان کے ہاتھوں کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔ ورنہ اس میں ان کے دوسرے اعضاء وجوارح بھی شریک و شامل ہوتے ہیں۔ سو یہ قرآن حکیم کا دنیا پر کتنا بڑا احسان ہے کہ اس نے دنیا کو غیب کے ان حقائق کی اس قدر صراحت و وضاحت کے ساتھ اور اتنی پیشگی خبر دے دی تاکہ جس نے بچنا ہو وہ اپنے بچنے کا سامان کرلے۔ مگر دنیا ہے کہ پھر بھی غفلت میں ڈوبی پڑی ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم - 111 اللہ کبھی ظلم نہیں کرتا اپنے بندوں پر : سو نہ وہ کسی کو بلا جرم سزا دیتا ہے اور نہ ہی کسی کو اس کے جرم سے زیادہ سزا دیتا ہے۔ اور ظلم کا کیا معنی اس کے یہاں تو کرم ہی کرم، رحمت ہی رحمت اور عنایت ہی عنایت ہے کہ وہ اکرم الاکرمین اور ارحم الراحمین ہے ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ اور وہ رحمن و رحیم اور غفور و ودود ہے، جس کی طرف سے اس کے بندوں کیلئے رحمتیں ہی رحمتیں اور عنایتیں ہی عنایتیں ہیں۔ لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ بندے اس سے منہ موڑ کر خود ہلاکت و تباہی کی راہ کو اپنائیں ۔ والعیاذ باللہ ۔ اور عربی قاعدہ کے مطابق نفی جب مبالغہ کے صیغہ پر داخل ہوتی ہے جیسا کہ یہاں ہے تو وہ مبالغہ فی النفی کے لئے ہوتی ہے۔ یعنی وہ اپنے بندوں پر کچھ بھی ظلم نہیں کرتا ۔ سبحانہ وتعالیٰ -
Top