Ahsan-ut-Tafaseer - Maryam : 35
مَا كَانَ لِلّٰهِ اَنْ یَّتَّخِذَ مِنْ وَّلَدٍ١ۙ سُبْحٰنَهٗ١ؕ اِذَا قَضٰۤى اَمْرًا فَاِنَّمَا یَقُوْلُ لَهٗ كُنْ فَیَكُوْنُؕ
مَا كَانَ : نہیں ہے لِلّٰهِ : اللہ کیلئے اَنْ : کہ يَّتَّخِذَ : وہ بنائے مِنْ : کوئی وَّلَدٍ : بیٹا سُبْحٰنَهٗ : وہ پاک ہے اِذَا قَضٰٓى : جب وہ فیصلہ کرتا ہے اَمْرًا : کسی کام فَاِنَّمَا : تو اس کے سوا نہیں يَقُوْلُ : وہ کہتا ہے لَهٗ : اس کو كُنْ : ہوجا فَيَكُوْنُ : پس وہ ہوجاتا ہے
خدا کو سزاوار نہیں کہ کسی کو بیٹا بنائے وہ پاک ہے جب کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو اس کو یہی کہتا ہے کہ ہوجا تو وہ ہوجاتی ہے
35:۔ اوپر گزرا کہ نصاری میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے باب میں طرح طرح کا جھگڑا ہے اسی واسطے اس آیت میں فرمایا یہ جھگڑا ڈالنے والے لوگ اللہ کی قدرت کو بھول گئے ہیں اس واسطے ایسی باتیں کرتے ہیں اس کی قدرت تو وہ ہے کہ جس کام کے کرنے کا اس کا ارادہ ٹھہرتا ہے کلمہ کن کے فرما دینے سے وہ کام فورا ہوجاتا ہے اسی کلمہ کن کے فرما دینے سے اس نے بغیر ماں باپ کے آدم (علیہ السلام) اور بغیر باپ کے عیسیٰ (علیہ السلام) کو پیدا کیا غرض عیسیٰ (علیہ السلام) آدم (علیہ السلام) کی طرح اللہ کی مخلوق میں سے ہیں نہ خدا ہیں نہ خدا کے بیٹے نہ خدا کے شریک اللہ کی شان ان لوگوں کی تراشی ہوئی باتوں سے بہت دور ہے اسی واسطے کسی آسمانی کتاب سے یہ لوگ اپنی ان تراشی ہوئی باتوں کی سند نہیں پیش کرسکتے صحیح بخاری اور مسلم کے حوالہ سے عبادہ بن الصامت ؓ کی حدیث جو اوپر کی آیت کی تفسیر میں گزری وہ اور متی کی انجیل کا تیسرا اور چوتھا باب گویا اس آیت کی تفسیر ہیں جس کا حاصل وہی ہے جو اوپر کی آیت کی تفسیر میں بیان کیا گیا کہ عیسیٰ (علیہ السلام) انجیل اور قرآن کی تعلیم کے موافق اللہ کے بندے رسول ہیں اور عیسیٰ (علیہ السلام) کے بعد بعضے الہاموں کی بنا پر جو باتیں تراشی گئی ہیں وہ الہام بالکل غلط ہیں کیونکہ کوئی صحیح الہام کتاب آسمانی کے برخلاف نہیں ہوسکتا کس لیے کہ اللہ کی شان سے یہ بات بعید ہے کہ وہ وحی کے ذریعہ سے نبی کو ایک حکم دے اسی نبی کی امت میں کے بعضے لوگوں کو الہام کے ذریعہ سے دوسرا حکم دے اور الہام کے ذریعہ سے وحی آسمانی کو جھٹلادے چالیس دن کی عمر میں معجزے کے طور پر عیسیٰ (علیہ السلام) نے قوم کے لوگوں سے جو باتیں کیں ان باتوں کے سلسلہ میں اس آیت اور اس سے اوپر کی آیت کا مضمون اللہ تعالیٰ نے نصیحت کے طور پر بڑھا دیا تھا اب آگے کی آیت میں عیسیٰ (علیہ السلام) کی باتوں کے سلسلہ کا خاتمہ ہے۔
Top