بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Anwar-ul-Bayan - Al-Kahf : 1
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْۤ اَنْزَلَ عَلٰى عَبْدِهِ الْكِتٰبَ وَ لَمْ یَجْعَلْ لَّهٗ عِوَجًاؕٚ
اَلْحَمْدُ : تمام تعریفیں لِلّٰهِ : اللہ کیلئے الَّذِيْٓ : وہ جس نے اَنْزَلَ : نازل کی عَلٰي عَبْدِهِ : اپنے بندہ پر الْكِتٰبَ : کتاب (قرآن) وَلَمْ يَجْعَلْ : اور نہ رکھی لَّهٗ : اس میں عِوَجًا : کوئی کجی
سب تعریف اللہ ہی کے لیے ہے جس نے اپنے بندے پر کتاب نازل فرمائی اور اس میں ذرا بھی کجی نہیں رکھی
سورة کہف کو اللہ تعالیٰ نے حمد سے شروع فرمایا ہے جیسا کہ سورة فاتحہ اور سورة انعام اور سورة سبا اور سورة فاطر بھی اسی سے شروع فرمائی ہیں۔ چونکہ یہود نے رسول اللہ ﷺ کی نبوت کی تکذیب کرنے کے لیے مشرکین کو یہ سوال سمجھایا تھا کہ اصحاب کہف اور ذوالقرنین کا قصہ معلوم کرو اور رسالت کی تکذیب قرآن مجید کی تکذیب کو مستلزم ہے اس لیے سورة کی ابتداء میں یوں فرمایا (اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْٓ اَنْزَلَ عَلٰی عَبْدِہِ الْکِتٰبَ وَ لَمْ یَجْعَلْ لَّہٗ عِوَجًا) کہ سب تعریف اللہ ہی کے لیے ہے جس نے اپنے بندہ پر کتاب نازل فرمائی اور اس میں ذرا بھی کجی نہیں رکھی نہ اس کے لفظوں میں کوئی خلل ہے اور نہ فصاحت و بلاغت میں کمی اور نہ معنی میں تناقض ہے۔ کجی کی نفی فرما کر قَیّْمًا فرمایا چونکہ یہ لَمْ یَجْعَلْ لَّہٗ کا مفعول نہیں ہے اس لیے عِوَجًا پر سکتہ یا وقف ہونا چاہیے تاکہ قَیِّمًا نفی کے تحت داخل نہ ہوجائے۔ صاحب روایت حضرت حفص (رح) سے جن چار مواقع میں سکتہ مروی ہے ان میں سے ایک جگہ یہ بھی ہے حضرات قراء کرام نے نقل کیا ہے کہ حضرت حفص (رح) تشریف لے جا رہے تھے کسی اعرابی سے سنا کہ اس نے عِوَجًا کے بجائے قَیّْمًا پر وقف کردیا۔ حضرت موصوف نے فرمایا کیف یکون العوج قیما کہ ٹیڑھی چیز کیسے سیدھی ہوگی ؟ اس کے بعد انہوں نے عِوَجًا پر سکتہ کرنے کی تلقین فرمائی۔ قال الامام الجزری فی النشر باب السکت علی الساکن قبل الھمز وغیرہ ووجہ السکت فی عوجا قصد بیان ان قیما بعدہ لیس متصلا بما قبلہ فی الاعراب فیکون منصوبا بفعل مضمر تقدیرہ انزلہ قیما فیکون حالا من الھاء فی انزلہ۔ قَیّْمًا، مُسْتَقِیْمًا کے معنی میں ہے جس کا معنی بالکل ٹھیک صحیح ہے، بعض حضرات نے تو اس کا وہی ترجمہ کردیا جو پہلے جملہ کا تھا یعنی لا خلل فی لفظہ ولا فی معناہ اور بعض حضرات نے فرمایا کہ اس کا معنی یہ ہے کہ اس کے احکام میں افراط اور تفریط نہیں ہے صاحب روح المعانی نے دو قول اور لکھے ہیں فراء کا قول ہے کہ قَیّْمًا سے یہ مراد ہے کہ اس نے اپنے سے پہلے نازل ہونے والی کتب سماویہ کی تصدیق کی ہے اور ان کی صحت کی گواہی دی ہے اور ابو مسلم سے نقل کیا ہے کہ قیم کا معنی یہ ہے کہ وہ بندوں کے مصالح کا کفیل ہے اور وہ سب باتیں بتاتا ہے جن سے بندوں کی معاش و معاد دونوں درست ہوجائیں۔
Top